"مالوہ” وسط ہند میں ایک پرفضا اورکوہستانی علاقہ ہےجہاں عظیم سلاطین اور حکمرانوں نےحکومت کی ہے،لیکن اب صرف عہدرفتہ کی عظیم یادگاریں اورآثار باقی ہیں جو اُن سلاطین وحکمراں کےدورِ زریں کی یاد تازہ کرتےہیں۔
مغلیہ اور خلجی دورحکومت میں ریاست مالوہ صوفیا،علما،فقہا،محدثین،مفسرین اور اولیاءاللہ کا مرکزِتوجہ رہاہے۔
ریاست مالوہ کےاہل اللہ کےتذکرےاور تاریخ سے یہ اندازہ لگانامشکل نہیں کہ خلجی اور مغلیہ دورحکومت میں مالوہ کامرکزی شہرمانڈو(شادی آباد)میں بھی سمرقنداور بخارہ کی طرح علمی غلغلےبلندتھے،صوفیا کی وجدآفریں تعلیمات کازور تھا، علما، فقہا اور محدثین کی علمی موشگافیاں عروج پرتھیں نیز جوق درجوق قافلہ در قافلہ وسیع دنیاسے علما وصوفیا جانب مالوہ بڑھتے چلے آرہے تھے اور عالم یہ تھاکہ ہر طرف علما ،فقہا،محدثین اور صوفیا کی درسگاہیں آراستہ تھیں جو ریاست مالوہ کی شان وشوکت کو دوبالاکررہی تھیں۔
جماعت محدثین میں شیخ المحدثین علامہ شمس الدین سخاوی کےدو عظیم شاگرد ابوالفتح رضی المکی (م 886ھ) اور شیخ احمد بن صالح نےمانڈو مالوہ کےدارالحدیث میں 8 سال تک درس حدیث دیا، شیخ المحدثین علامہ شیخ سعد اللہ لاری مانڈوی (م 902 ھ) علیہ الرحمہ نے ایک طویل مدت تک مانڈو مالوہ میں درس حدیث کی مسند آراستہ کی۔ جس طرح محدثین و فقہا کےدروس و افادات کےسبب مانڈو مالوہ سمرقند و بخارا کےہم پلہ و ہم رتبہ تھا،اسی طرح مختلف سلاسل کے صوفیا اور اولیا کی آمدورفت اور خانقاہوں کےقیام نیز طریقہ تصوف کی تعلیم و تربیت نے مانڈو مالوہ کو شہرہ آفاق بنادیاتھا اسی وجہ سے ملک و بیرون ملک سےاہل علم و فضل و تشنگان علم و روحانیت کشاں کشاں چلےآرہےتھے۔
ریاست مالوہ محبوب الہی حضرت نظام الدین اولیا علیہ الرحمہ کی نگاہ عنایت وکرم کامرکز بھی رہی ہے،آپ علیہ الرحمہ نے اپنےمتعددخلفا اس دیار پاک میں رشدوہدایت اور تبلیغ دین وسنیت کےلیےبھیجےہیں، جن کےمزارات اجین اور دھار میں مرجع خلائق ہیں۔
بابا فرید مالوہ میں:
سرزمین مالوہ کی یہ خوش بختی اور بلند نصیبی رہی کہ ہر دور میں شہرہ آفاق اور روحانی و علمی شخصیات اس علاقےکو اپنےفیوض وبرکات سے نوازتی رہیں۔
انھیں شخصیات میں ایک عظیم روحانی شخصیت حضرت بابا فرید مسعود گنج شکر علیہ الرحمہ (م 690 ھ) ہیں جنھوں نے دوران سیاحی مالوہ میں ورود فرماکر یہاں چلہ کشی فرمائی ہے۔
کتب تذکار میں اس تعلق سےکوئی خاص تذکرہ تو نہیں ملتاہے البتہ اکثر تذکرہ نگار نے کرامت کےضمن میں سفرِ مالوہ کا تذکرہ لکھاہے۔
سیر الاقطاب ودیگر کتب تذکار میں ہے:
"ایک مرتبہ حضرت شیخ فرید الدین گنج شکر رحمة اللہ علیہ مالوہ کےعلاقےمیں سیر کررہےتھے، پرگنہ” منجور” (مندسور) کےقصبہ ” بڑاودہ "میں قیام فرمایا، ایک دن برگد کےدرخت کےقریب تشریف فرماتھےکہ ایک جانب سےسخت آندھی اٹھی،تیز ہوا سےدرخت جڑ سےاکھڑنےلگے،آپ جس درخت کےنیچےبیٹھےہوئےتھےاس کی ایک بڑی شاخ کے ٹوٹنے کی آواز آئی، آپ کی نگاہ اس کی طرف اٹھی ہی تھی کہ وہ شاخ اسی جگہ ہوا میں معلق رہ گئی اور وہ اب تک درخت سےعلیحدہ معلق سرسبز ہے۔”
(سیر الاقطاب، ص: 158 اقتباس الانوار، ص: 459، حیات گنج شکر، ص: 428)
قصبہ بڑاودہ تحصیل جاورہ ضلع رتلام میں واقع ہے۔ یہاں بابافرید گنج شکر علیہ الرحمہ کا چلہ ہےجو مرجع خلائق ہےاور اہل دل فیوض و برکات پاتےہیں۔ آپ علیہ الرحمہ کےتعلق سےزبان زد مشہور ہےکہ بڑاودہ میں آپ کےچلے کےپاس ایک کنواں ہے اس کنویں میں آپ عبادت و ریاضت کرتےتھے، ایک مرتبہ آپ حالت وجد میں تھےاور آپ کےساتھ جنگل کےدرخت بھی وجد کررہےتھے،(یعنی چاروں طرف گھوم رہےتھے) آج بھی وہ درخت کافی حد تک زمین کی طرف جھکےہوئےنظر آتےہیں۔ آپ کےچلےکےاحاطےکےباہر بہت سارےاہل اللہ کےمزارات ہیں، اہل دل بتاتےہیں کہ اس جگہ روحانیت کےآثار اور بابافرید کےبرکات کا احساس ہوتاہے۔
بابافرید مسعود گنج شکر علیہ الرحمہ کےسفرِ مالوہ کےتعلق سےاکثر کتابیں خاموش نظر آتی ہیں البتہ چند ایک کتابوں میں ضمنا کچھ باتیں درج ہوجاتی ہیں اس لیے صاحب ذوق حضرات کو بابافرید کےسفر مالوہ کےتعلق سےتحقیق و تفتیش کرکےپردےہٹانا چاہیے۔
تحریر: بلال احمد نظامی مندسوری، رتلام مالوہ (مدھیہ پردیش)
22/10/24