جب ایک ہاتھ بندھے ہوئے کافر کے گھورنے سے آپ کا حوصلہ جاتا رہا اور آپ کے اوسان خطا ہوگئے تو میدان جنگ میں آپ کیسے کھڑے رہ سکیں گے!
حق کی خاطر ڈٹ جانا اور ہر طرح کی تکالیف کو گوارا کرلینا حتی کہ اپنی جان دے دینا مگر باطل کے آگے نہ جھکنا اسے عزیمت کہتے ہیں۔ جبکہ برائی کو دل میں برا جانتے ہوئے، قدرت و استطاعت نہ ہونے کے باعث قربانی سے دریغ کرنا، اسے رخصت کہتے ہیں۔
اس کو مثال سے سمجھئے کہ کسی شخص کو کوئی جان سے مارنے کی صحیح دھمکی دے اور اس کے سر پر پسٹل رکھ کر کہے کہ کلمہ کفر کہہ ورنہ مار دوں گا اور اسے ظن غالب ہے کہ یہ اپنی دھمکی پر عمل کر گزرے گا تو ایمان پر دلی طور پر قائم رہتے ہوئے صرف زبان سے کلمہ کفریہ ادا کردینے کی شریعت میں رخصت ہے کہ ایسا شخص کافر یا گنہگار نہیں ہوگا لیکن اس موقع پر اپنی جان دے دینا اور کلمہ کفر نہ کہنا عزیمت ہے۔
ہر دور میں اہلِ حق کے دو گروہ رہے ہیں۔ ایک وہ جو بلا خوف و خطر کلمہ حق بلند کرتے رہے اور ان حضرات نے تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر عزیمت کا پرچم اٹھائے رکھا۔۔۔ یہ حضرات جابر و ظالم حکّامِ وقت کے سامنے کلمۃ الحق کہہ کر افضل جہاد انجام دیتے رہے۔
دوسرا طبقہ اُن حضرات کا ہے جو مصلحتوں کے زیر سایہ رخصتوں پر عمل پیرا ہوئے اور برائی کو دل میں برا جاننے پر اکتفا کئے رکھا۔
یہ دونوں گروہ ہر دور میں موجود رہے یہ دونوں حق و صواب پر ہیں لیکن افضل کون ہے اسے بیان کرنے کی حاجت نہیں۔
فی زماننا ایک تیسرا گروہ بھی ہے اور شاید یہ بھی ہر دور میں رہا ہو، جو رخصت پر عمل کرنے کے باوجود خود کو عزیمت کا مسافر ظاہر کرتا ہے اور چونکہ یہ حقیقت میں دلیر و بہادر اور مصلحتوں سے آزاد نہیں ہوتا اس لیے یہ طبقہ اپنی کمزوری چھپانے کے لئے عزیمت کے مسافروں کی مخالفت پر کمر بستہ ہوجاتا ہے، ان طعن و تشنیع کے تیر چلاتا ہے۔ اس طرح اپنی مخالفت کے ذریعے سچے لوگوں کو مشکوک کردیتا ہے تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ یہ خود کسی قسم کی قربانی دینے اور عزیمت کے مسافروں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے بجائے صرف زبانی جمع خرچ ہی کیوں انجام دیتا ہے۔
اس طبقہ کی نفسیات کو سمجھنے کے لئے یہ اصول ذہن میں رکھیں کہ جو آدمی کسی چیز سے ڈرا ہوا ہوتا ہے اور اس کو یہ احساس ہوتا ہے کہ میرا ڈرنا باعثِ شرمندگی ہے، تو ایسا شخص اپنا ڈر چھپانے کے لئے خود کو ضرورت سے زیادہ بہادر بنا کر پیش کرتا ہے۔
بالکل اسی طرح یہ حضرات جو حالات سے ڈرے ہوئے ہوتے ہیں اور عزیمت کے راستے پر آنے کی جرأت نہیں کر پاتے لیکن یہ اپنے خوف کے اظہار میں عار محسوس کرتے ہیں لہٰذا یہ حضرات ضرورت سے زیادہ خود کو بہادر ظاہر کرتے ہیں اور بڑے بڑے دعوے کرتے نظر آتے ہیں لیکن عملی میدان سے غائب رہتے ہیں۔
اسی طرح ایک اصول یہ بھی ہے کہ جو آدمی کسی کمال سے محروم ہوتا ہے وہ اس کمال کے کمال ہونے کا ہی انکار کردیتا ہے۔
یہ لوگ چونکہ دلاور نہیں ہوتے اور شجاعت جیسے کمال سے محروم ہوتے ہیں لہٰذا یہ حضرات بہادر لوگوں کی بہادری کا انکار کرکے اسے جذباتیت اور حماقت سے تعبیر کر دیتے ہیں، کیونکہ اگر یہ عزیمت کے راستوں کے مسافروں کی بہادری کو تسلیم کرلیں گے تو لوگ اسی بہادری کو ان کی ذات میں بھی تلاش کریں گےاور یہ اس کمال سے محروم ہیں۔
اب اس تمہید کے بعد ہم موجودہ حالات کی تصویر کو مزید واضح کرتے ہیں۔ اس وقت ملک خداداد پاکستان اندرونی بیرونی سازشوں کا شکار ہے۔۔۔قادیانیت یہاں اپنا اثر و رسوخ مضبوط کر رہی ہے۔۔۔ یہود و ہنود کی اسلام دشمنی عروج پر ہے، ایسے میں کچھ تو وہ ہیں جو ان اسلام دشمن عناصر کے آگے دیوار بنے ہوئے ہیں اور ختمِ نبوت و ناموسِ رسالت کے لئے ہر آن ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ یہ حضرات چونکہ حق بیان کرتے ہیں لہٰذا یہ سب کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں اور چونکہ حکومت وقت پر یہ حضرات کڑی تنقید کرتے ہیں اور بعض اوقات ان کے خلاف احتجاج و مزاحمت بھی کرتے ہیں، اس لئے صاحبان اقتدار کی جانب سے یہ حضرات زیرِ عتاب اور مغضوب رہتے ہیں۔ قید و بند کی صعوبتوں کو گلے لگاتے ہیں۔
دوسرا طبقہ سب کچھ جاننے کے باوجود اپنے دینی کام کو مصلحت بنا کر اور حکومت کے عتاب سے ہونے والے ممکنہ دینی نقصان کو آڑ بنا کر خاموش رہتا ہے اور رخصت پر عمل کرتا ہے۔ یہ لوگ حکام کی آنکھوں کے تارے ہوتے ہیں انہیں نوازا بھی جاتا ہے۔
لیکن اگر یہی رخصت پر عمل پیرا طبقہ ہماری وضاحت کے مطابق اگر اہل حق کی مخالفتِ بےجا کرنے لگے تو یہ دین کو بے حد نقصان پہنچاتا ہے اور خود بھی قیامت میں جواب دہ ہوگا۔
اس موقع پر مثنوی شریف کی ایک حکایت سے بھی روشنی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اُس حکایت کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
ایک متصوف (ایسا شخص جو صوفی ہونے کا دعوی کرے۔) مجاہدوں کے ساتھ جہاد کے لئے چلا جاتا ہے۔ ایک مقام پر پڑاؤ ہوتا ہے۔۔۔ لیکن اچانک طبل جنگ بج جاتا ہے اور دلآور مجاہدین آگے محاذوں کی طرف دوڑ جاتے ہیں، یہ صوفی صاحب دلیر نہ ہونے کی وجہ سے خوفزدہ ہوکر وہیں رہ جاتے ہیں۔۔۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد مجاہدین واپس لوٹتے ہیں اور ساتھ مالِ غنیمت بھی لاتے ہیں۔۔۔ کچھ تحائف صوفی کو پیش کرتے ہیں جسے صوفی صاحب غصہ میں پھینک دیتے ہیں۔۔۔ مجاہدین غصہ کا سبب دریافت کرتے ہیں جس پر صوفی صاحب جہاد کے لئے ساتھ نہ لے جانے کا شکوہ کرتے ہیں۔۔۔ مجاہدین کہتے ہیں کہ آپ غصہ نہ ہوں ہم ایک کافر ساتھ لائے ہیں آپ اس کا سر قلم کردیں تاکہ جہاد میں آپ کا بھی حصہ ہوجائے۔۔۔ صوفی کا غصہ کچھ کم ہوتا ہے انہیں یہ پیش کش پسند آتی ہے، وہ کافر کو جس کے ہاتھ بندھے ہوتے ہیں، مارنے کے لیے خیمہ کے پیچھے لے جاتے ہیں۔۔۔ کافی دیر گزر جاتی ہے لیکن صوفی صاحب واپس نہیں آتے۔
مجاہدین کو تشویش ہوتی ہے وہ خیمہ کے پیچھے جاکر دیکھتے ہیں تو ایک عجیب منظر ہوتا ہے وہ ہاتھ بندھا ہوا کافر صوفی صاحب کے اوپر بیٹھا ہوتاہے اور دانتوں سے انکے گلے کو کاٹ رہا ہوتا ہے۔ صوفی صاحب کی داڑھی خون آلود ہوتی ہے اور وہ بے ہوش پڑے ہوتے ہیں۔ مجاہدین غصہ میں اس کافر کو مار دیتے ہیں صوفی صاحب کو ہوش میں لایا جاتا ہے۔ مجاہدین پوچھتے ہیں آخر یہ سب کیسے ہوگیا وہ صوفی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے جیسے ہی کافر کو مارنے کے لئے تلوار اٹھائی، اس نے مجھے اتنے غضب ناک انداز میں عجیب طرح سے گھورا کہ خوف کے مارے مجھ سے تلوار گر گئی اور میں بے ہوش ہوگیا۔
مجاہدوں نے کہا کہ آپ یہاں مطبخ سنبھالیں میدان جنگ کا رخ مت کیجئے گا۔ جب ایک ہاتھ بندھے ہوئے کافر کے گھورنے سے آپ کا حوصلہ جاتا رہا اور آپ کے اوسان خطا ہوگئے تو میدان جنگ میں آپ کیسے کھڑے رہ سکیں گے، جہاں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی اور اردگرد گردنیں کٹ کٹ کر گر رہی ہوتی ہیں۔
اس حکایت کو دیکھیں تو آج بھی ایسے ایسے نام نہاد ”صوفی“ (خیال رہے صوفی بزدل نہیں ہوتے صوفیاء نے جہاد میں بھی بہت سے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں) موجود ہیں جو اپنی کمزوری کو چھپانے کی خاطر صاحبان عزیمت کی مخالفت کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ اگر وہ تلوار نہیں اٹھا سکتے تو تلوار کی نفی بھی نہ کریں، خاموشی سے اپنے کام میں لگے رہیں۔ لوگ خوب جانتے ہیں کہ ”لِكُلِّ فَنٍ رِجَال“ ہر کام کے کے لئے مخصوص لوگ ہوتے ہیں اور ہر کام ہر آدمی کر بھی نہیں سکتا۔
اگر آپ جنرل فزیشن ہیں تو سرجن کی اہمیت کا انکار کرنا آپ کی حماقت ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو حق دیکھنے اور اس کی اتباع کی توفیق سے نوازے اور باطل کو باطل دیکھنے اور اس سے اجتناب کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
تحریر: محمد سلیم قادری رضوی