میں آج بڑی ہی تگ و دو کے بعد اور الفاظ کی نشست و برخاست کو پیشِ دید رکھ کر لکھنا شروع کیا۔ ابتدائی جملوں میں اس قدر بے ثباتی اور بے ربطی کی وجہ سے شرمساری بھی دامن گیر ہوئی۔ "مگر مرتا کیا نہ کرتا” اور "ڈوبتے کو تنکے کا سہارا” جیسے محاورات بھی پیشِ نگاہ رہیں۔
کرنا اور لکھنا تو کچھ تھا ہی چاہے طائعاً لکھتے یا کراہتاً گویا ایک مدت مدیدہ کے بعد قلم بدست ہوا تھا تو معلوم یوں ہورہا تھا کہ ترکٍ مشق کے سبب الفاظ ختم، قلم کی سیاہی سوکھ، حفاظت شدہ الفاظ ضائع، اندازٍ بیاں نسی و منسی ہوگئے ہیں۔
بڑی ہی محنت و مشقت، مطالعہ و محاسبۂ کتب، الغرض سخت تگ و دو کے بعد ایک بات سوجھی کہ
کیوں نہ میں اپنی اسی کمزوری کو اپنا موضوعٍ سخن بناؤں؟
اور اپنی ہفوات پر روک لگا کر مشق کا ایک جدید طرز اختیار کروں؟
سو اولا تو ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ مشق سے لا تعلقی کی صورت میں کون کون سے مضرات رونما ہوں گے؟
یہ معاملہ ہے کہ کچھ دن کسی مروج و معتاد امر جس پر عادت جاری ہو اس کو ترک کر دینے سے دوبارہ اس شئی کی طرف رجوع و ارجاع اتنا دشوار ترین امر ہوجاتا ہے۔ کہ بسا اوقات حاشیۂ ذہن و دماغ پر سابقہ ٹریک مرتسم و منقش کرنے کی خاطر بڑی ہی دشواریوں اور صعوبتوں کا سامنہ کرنا اور حوادثاتٍ زمانہ سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔
مزید مشاہدات و تجربات اس بات پر شاہد عدل بھی ہیں کہ کسی بھی فعل کو ترک کردینا جس پر عادت جاری ہو، عدم توجہی اور ترکِ مشق کی وجہ سے بے شمار دشواریوں سے نبردآزما اور ٹریک پر آنے کی خاطر از سرِ نو ایک مرتبہ پھر استیناف لازم ہوجاتی۔
الحاصل لکھنا نہ چھوڑیں لکھیں اور لکھتے رہیں، کچھ بھی لکھیں مگر لکھیں۔
ازقلم: اختر رضا امجدی