مہاراشٹرا و جھارکھنڈ اسمبلی الیکشن 2024
مہاراشٹر الیکشن 2024: 288 رکنی مہاراشٹر اسمبلی کے لیے 20 نومبر کو ووٹنگ ہوگی۔ مہاراشٹر میں حکومت سازی کے لیے جادوئی اعداد و شمار 145 ہیں۔ کل اسمبلی سیٹوں میں سے 29 ایس سی اور 25 ایس ٹی امیدواروں کے لیے ریزرو ہیں۔ 2024 کے مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں مہا یوتی اور مہاوکاس اگھاڑی کے درمیان مقابلہ ہے۔ بی جے پی، این سی پی، شیوسینا این ڈی اے اتحاد میں شامل ہیں۔ مہاویکاس اگھاڑی کے پاس سات پارٹیاں ہیں جن میں کانگریس، شیو سینا (یو بی ٹی)، این سی پی (شرد چندر پوار)، سماج وادی پارٹی، سوابھیمانی پکشا، سی پی ایم شامل ہیں۔
وہیں جھار کھنڈ میں 82 ودھان سبھا سیٹیں ہیں جن میں 81 پر الیکشن ہونا ہے ایک سیٹ راجیہ پال کے انڈر اعزازی ہوتی ہے، صوبائی الیکشن مہاراشٹر اور جھار کھنڈ کے ہونے ہیں بقیہ صوبوں میں جیسے بہار اتر پردیش، اترا کھنڈ یہاں ضمنی انتخابات ہونے جا رہے ہیں –
بہار ضمنی انتخاب: گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے بعد بہار کی چار اسمبلی سیٹیں خالی ہوگئی ہیں، جن پر اب ضمنی انتخاب کا بگل بج چکا ہے۔ اب ان چاروں نشستوں پر ضمنی انتخابات 13 نومبر کو ہوں گے اور نتائج کا اعلان 23 نومبر کو ہونا ہے۔ ان چار سیٹوں میں سے انڈیا الائنس کے پاس تین سیٹیں تھیں جبکہ این ڈی اے کے پاس 2020 کے اسمبلی انتخابات میں ایک سیٹ تھی۔ چاروں سیٹوں پر جیتنے والے ایم ایل اے اس لوک سبھا الیکشن میں امیدوار تھے۔ کامیابی کے بعد ان کی یہ نشستیں خالی ہوئی تھیں –
اتر پردیش :
اتر پردیش میں پھول پور، غازی آباد، مجھواں، کَھیر، میراپور، سیسا مؤ، کٹہاری، کرہل اور کندرکی اسمبلی سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہونے ہیں۔ اس میں کانپور کی سیسا مؤ سیٹ کو چھوڑ کر باقی تمام سیٹیں ودھایکوں کے ایم پی بننے کی وجہ سے خالی ہوئی ہیں ۔ جب کہ سیسا مؤ سیٹ میں عرفان سولنکی کو عدالت سے سزا ملنے کی وجہ سے اس سیٹ پر ضمنی انتخاب ہو رہا ہے۔ ماحول اتر پردیش کا بھی گرم ہے بہرائچ فساد نے اس الیکشن کو نیا رخ دے دیا ہے –
پرشانت کشور کا سیاسی سفر غندڈہ گردی سے شروع
اس الیکشن بہار میں ایک پارٹی اور وجود میں آگئی ہے اور اس پارٹی کام نام ہے ” جن سواراج” یہ پارٹی مشہور سیاسی تخمینہ کار پرشانت کشور یعنی P K کی ہے، پی کے اپنی پارٹی کا ڈیبیو کرنے جا رہے ہیں، ان کی پارٹی کے امیدوار بھی میدان میں ہیں ۔
ابھی پرشانت کشور کی پارٹی زمین سے اٹھی بھی نہیں ہے کہ غنڈہ گردی کے وڈیوز عام ہونے لگے ہیں، مجلس اتحاد المسلمین کے بہار صدر اختر الایمان اور ان کے پارٹی ورکر جب بیلا گنج سیٹ پر اپنے امیدوار کے لیے ووٹ مانگنے پہنچے تو جن سوراج پارٹی ورکرز نے مجلس کے لوگوں کو گاؤں سے یہ کہہ کر بھگادیا کہ یہاں مجلس ووٹ نہیں مانگ سکتی ہم جن سوراج کے لوگ ہیں آپ لوگ یہاں سے جائیں، ویڈیو میں تیکھی بحث ہوتی دیکھی جا سکتی ہے –
بنٹو گے تو کٹو گے، ایک ہیں تو سیف ہیں
"بنٹوگے تو کٹو گے” یہ نعرہ ہریانہ الیکشن میں اتر پردیش کے وزیر اعلی ہوگی آدتیہ ناتھ نے دیا تھا، نعرہ کافی مقبول ہوا اور اب مہاراشٹر الیکشن کے علاوہ بھی ہر چیز میں یہ نعرہ دکھنے لگا ہے، اسی کڑی کو آگے بڑھاتے ہوئے وزیر اعظم نے بھی ایک نعرہ دے دیا ہے ” ایک ہیں تو سیف ہیں” یہ نعرہ بھی خوب چل رہا ہے، ان دونوں نعروں کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے، نیز وزیر اعظم نے ایک ریلی میں یہ بھی کہا کہ : جب سرسوتی وندنا پر پابندی لگنے لگے ، جب تیج کے تہواروں میں پتھر بازی ہونے لگے، جب دیوی درگا کی پوجا بھی روک دی جائے تب یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صورتحال کتنی خطرناک ہے "۔
یہ صرف نمونے ہیں بقیہ بہت کچھ بولا جارہا ہے جیسے کانگریس مسلمانوں کو ایس سی ایس ٹی کا ریزرویشن دے دے گی، منگل سوتر چھین لیں گے، بنگال کے متھن چکرورتی کا وزیر داخلہ کے سامنے یہ کہنا کہ ” ہمیں ایسے کار کن چاہیے جو بی جے پی کے لیے جان دے سکتے ہوں، ہم تمہیں مار کر ندی میں نہیں بل کہ تمہاری زمین میں پھینک دیں گے، وغیرہ وغیرہ –
اس الیکشن مسلم نفرت سر چڑھ کر بول رہی ہے
مہاراشٹر میں پچھلے کچھ وقت سے ایک ودھایک نیتیش رانے کافی کچھ بول رہے ہیں اب اسی لکیر کو مزید لمبا کرنے کے لیے راج ٹھاکرے بھی میدان میں کود پڑے ہیں، ان کی پارٹی مہاراشٹر نَو نرمان سینا( Manse) مہاراشٹر میں اپنا وجود کھو چکی ہے، جو کچھ تھا وہ اودھو ٹھاکرے لے گئے، ادھو ٹھاکرے سے وزیر اعلی شندے چھین لے گئے، ادھو تو کچھ حد تک شانت ہیں لیکن راج ٹھاکرے اپنی بیان بازی سے کچھ حاصل کرنا چاہ رہے ہیں، انھوں نے پہلے بیان دیا کہ اگر مہاراشٹر میں ہماری حکومت بنتی ہے تو لاؤڈ-اسپیکر سے اذان بند ہو جائے گی، پھر ایک ریلی کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ” ایک مسلمان عالم نے مسجد سے فتویٰ جاری کیا جس میں مسلمانوں سے کانگریس، این سی پی (شرد پوار) اور شیوسینا ادھو ٹھاکرے کو ووٹ ڈالنے کو کہا گیا۔ لوک سبھا کے انتخابات میں بھی ایسا ہی ہوا۔ صرف ہندو ہی کیوں بکھرے ہوئے ہیں؟”
دیوندر فنڑ ویس کہہ رہے ہیں کہ ووٹ جہاد ہو رہا ہے، جب پلٹ کر اویسی صاحب پوچھ لیتے ہیں کہ یہاں ہم ہیں تو ووٹ جہاد ہوگیا اور ایودھیا میں کون سا جہاد ہوا تھا جہاں تم ہارے تو سامنے والے کو سانپ سونگھ جاتا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ مسلم اپنی بات ہی نہ کریں بس ہماری سنیں، اویسی جواب بھی دیتے ہیں اور سوال بھی پوچھ لیتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں بھائی جان بھڑکاؤ بھاشن دیتے ہیں، اب آپ ہی بتائیں کہ بھڑکاؤ بھاشن کس کے ہیں اور کون پیار کی امرت دھارا بہا رہا ہے؟
ایسے سخت بیانات ہماری قوم کو سمجھ نہیں آتے بل کی میٹھے بول محسوس ہوتے ہیں لیکن اویسی برادران کی باتیں بہت چبھتی ہیں، جہاں دیگر لوگ مارنے کاٹنے کی بات کر رہے ہیں وہیں اویسی برادران سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کر رہے ہیں، تعلیم کی بات کر رہے ہیں، اپنے حقوق کے تحفظ کی بات کر رہے ہیں، مجلس سے صرف مسلم ہی نہیں بل کہ غیر مسلم امیدوار بھی میدان میں ہیں، اگر مہاراشٹر اور جھار کھنڈ کے لوگ تھوڑی بیداری دکھائیں اور جن علاقوں میں مجلس کے امیدوار ہیں انھیں ووٹ کریں تو سیاسی صورت حال بڑی تیزی سے بدل سکتی ہے –
مجلس کے امیدوار
پہلے ایک نظر مجلس کے امیدواروں پر ڈال لیتے ہیں پھر آگے بڑھ تے ہیں –
مہاراشٹر میں اے آئی ایم آئی ایم امیدوار
(1) اورنگ آباد ایسٹ ~ امتیاز جلیل
(2) اورنگ آباد سنٹرل ~ ناصر صدیق
(3) بھیونڈی مغربی ممبئی ~ وارث پٹھان
(4) ورسووا ممبئی ~ رئیس لشکریہ
(5) بائیکلہ ممبئی ~ فیاض احمد
(6) ممبرا ممبئی ~ سیف پٹھان
(7) کرلا ممبئی ~ ببیتا کناڈے۔
(8) مالیگاؤں ~ مفتی اسماعیل قاسمی
(9) دھولے ~ فاروق شاہ
(10) شولاپور ~ فاروق شبدی
(11) مرتضیٰ پور ~ مانیکراؤ سروادے۔
(12) معراج ~ مہیش کامبلے
(13) امراوتی ~ عبدالناظم
(14) ناندیڑ جنوبی ~ سید معین
(15) ناگپور ~ کیرتی ڈونگرے
اتر پردیش میں مراد آباد کی کندرکی اور بہار میں بیلا گنج سیٹ سے بھی مجلس میدان میں ہے – وہیں جھار کھنڈ میں بھی پانچ نشستوں پر مجلس کے امیدوار قسمت آزما رہے ہیں یعنی کل ملا کر مجلس اس الیکشن میں 22 نشستوں پر الیکشن لڑ رہی ہے، مراد آباد کی کندرکی سیٹ اور مہاراشٹر سے کافی امیدیں ہیں لیکن / آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا –
_ چھوٹے صوبوں میں "ایک ہیں تو سیف ہیں” پر عمل ضروری ہے –
پردھان منتری سب کے ہوتے ہیں اس لیے ان کے اس بیان کو ہمیں اپنی طرح سے دیکھنے کی ضرورت ہے، اگر وزیر اعظم کے بیان کو سمجھیں تو ہمارے لیے مشعل راہ ہے، 82 میں صرف پانچ پر آپ کو ایک رہنا باقی میں نام نہاد سیکولر جماعتوں کا ساتھ دیں، چھوٹے صوبوں کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ یہاں آپ کو کرسی کی چوتھی ٹانگ بننے کے لیے بہت زیادہ پاپڑ نہیں بیل نے پڑتے، اگر آپ دو چار سیٹ جاتے ہیں اور مقابلہ کانٹے کا رہتا ہے جیسا کہ اکثر ہوتا ہے تو پھر آپ کنگ میکر ہیں، دیسی زبان میں کہیں تو آپ کے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہوتے ہیں، اگر آپ کسی بھی حکومت کا حصہ ہوجاتے ہیں تو آپ نہ صرف پارٹی بل کہ اپنی قوم کو بھی مضبوط کر سکتے ہیں، آپ کے خلاف کوئی قانون ریاستی اسمبلی میں پاس ہونا مشکل ہو جاتا ہے، پورے صوبے میں آپ کی قوم پر ظلم بند ہو جاتا ہے، ہمارے مسلمان اگر بس اتنی سی بات سمجھ لیں تو ان کی یہ دُرگت نہ بنے –
مہاراشٹر اور جھار کھنڈ الیکشن میں چوں کہ صوبائی حکومتوں کی تشکیل ہونا ہے اس لیے ان دونوں صوبوں میں ووٹ بہت سوچ سمجھ کر کریں، اپنی قیادت کو بھی سپورٹ کریں اگر آج آپ اپنی قیادت کو نکار دیتے ہیں تو یوپی کی طرح آپ پر بھی جب ظلم ہوگا یہ سیکولر جماعتیں منہ میں دہی جمائے بیٹھی ہوں گی، جب کہ اگر آپ قیادت کو بھی مضبوط کرتے ہیں تو سیکولر جماعتیں خود بخود آپ کے قدموں پر ہوں گی، ابھی انھیں یہی لگتا ہے کہ مسلمان ہمارے علاوہ کہاں جائے گا؟ جب ایک دوسرا رستہ ہوگا تو پھر وہ آپ کے لیے نہ صرف بولیں گے بل کہ کام بھی کریں گے –
تحریر: محمد زاہد علی مرکزی
چیئرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ
11/11/2024
8/5 1446