جامعہ اشرفیہ مصباح العلوم میں گزشتہ روز دو طلباء کے خلاف جو کارروائی عمل میں لائی گئی، وہ اس ادارے کی نظریاتی استقامت، دینی اصول پسندی، اور عقائد اہلسنت کے تحفظ کے جذبے کی عکاسی کرتی ہے۔ ان دونوں طلباء نے امام اہل سنت امام احمد رضا خان قادری قدس سرہٗ کے نظریات اور فتاویٰ رضویہ شریف پر انگلی اٹھائی، جو نہ صرف اہلسنت کے عقائد کے خلاف ہے بلکہ حافظ ملت قدس سرہٗ کے نظریات سے بھی کھلا تضاد رکھتی ہے۔ ایسے نظریات کا ادارے میں پرچار یا ان کی حمایت کسی بھی صورت میں قبول نہیں کی جا سکتی کہ یہ جامعہ کے اصولی اور فکری مقاصد کے خلاف ہے۔
امام احمد رضا خان قادری قدس سرہٗ کا علمی ورثہ اور فتاویٰ رضویہ اہلسنت کے لیے ایک علمی اور فکری خزانہ ہیں، جو برسوں سے اسلامی تعلیمات کو استحکام اور قوت بخشی ہے۔ حافظ ملت قدس سرہٗ نے بھی امام احمد رضا خان قادری قدس سرہٗ کے افکار کو فروغ دینے اور ان کے نظریات کی پاسبانی کا فریضہ سر انجام دیا۔ جامعہ اشرفیہ نے ہمیشہ ان ہی تعلیمات کو اپنے اصولوں کی بنیاد بنایا، اور ان ہی نظریات کی روشنی میں طلباء کی تربیت کی جاتی ہے۔ اسی لیے جب اس ادارے میں کسی بھی طالب علم کی طرف سے اس کے برعکس غلط افکار کا اظہار کیا جائے تو اس پر فوری اور مؤثر کارروائی کو یقینی بنانا جامعہ کی انتظامیہ پر فرض ہے۔
یہ معاملہ ایک عمومی اصلاحی کارروائی سے بڑھ کر اس بات کا بھی عندیہ ہے کہ آج کے دور میں نوجوان نسل کو گمراہ کن نظریات سے بچانا بےحد ضروری ہے۔ یہ واضح ہوتا ہے کہ ان دونوں طلباء کی سوچ، ان کی ذاتی تحقیق کا نتیجہ نہیں بلکہ کسی مخصوص تحریر یا تقریر سے متاثر ہے، جو انہیں امام اہل سنت قدس سرہٗ اور حافظ ملت کی تعلیمات کے برعکس سوچنے کی ترغیب دے رہی ہے۔ یہ چیز ہمیں اس بات کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ نوجوانوں کے ذہنوں کو نظریاتی طور پر مضبوط بنانا اور اہل حق کے نظریات سے روشناس کرانا بےحد اہم ہے۔
جامعہ اشرفیہ کی انتظامیہ نے اس واقعے کے بعد جس دانشمندی کا مظاہرہ کیا، وہ قابل ستائش ہے۔ ادارے نے دو ٹوک انداز میں اعلان کیا کہ ایسے کسی بھی فرد کو جو جامعہ کے اصولوں سے متصادم افکار اپنانے کی کوشش کرےگا، ادارے میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
اس اقدام سے نہ صرف ادارے کے طلباء بلکہ معاشرے کو بھی یہ پیغام گیا ہے کہ امام احمد رضا خان قادری قدس سرہٗ کے نظریات کی طرفداری میں جامعہ اشرفیہ مصباح العلوم کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹےگا۔ یہ ان کے ورثے کو، ان کی فکر کو، اور ان کی دینی رہنمائی کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کا ایک زندہ و جاوید عہد ہے۔ یہ کارروائی دیگر دینی اداروں کے لیے بھی ایک مثال ہے کہ وہ اپنی علمی و نظریاتی حدود کا دفاع کیسے کریں اور طلباء کو صحیح راہ پر رکھنے کے لیے کیسے اقدامات اٹھائیں۔
از قلم:
محمد توصیف رضا قادری علیمی
مؤسس اعلیٰ حضرت مشن کٹیہار
شائع کردہ: 13، نومبر، 2024ء
https://whatsapp.com/channel/0029VaAGZrkKwqSPtDoNek0f
https://t.me/RazviDarulqalam