دلِ مشتاق کی خواہش ہوئی ، ہو خامہ فرسائی
حریمِ فکر نے بھی ساتھ میرے کی طرفداری
سو میں نے فکر کو سرکار اقدس کی طرف موڑا
انہیں کی بات سے ہوگی فروتر پہ ضیاباری
تبسم ریزیِ جانِ جہاں سے ہے بہارِ گُل
میرے آقا کے صدقے ہے چمن کی جاں میں بیداری
شفیعِ روزِ محشر جب وہاں سجدہ کناں ہوں گے
تو کچھ نقصان نہ دےگی کمینے کی سیہ کاری
نرالی شان سے عالم کو بخشا نور آقا نے
ہویے ظلمت کے دن اُجلے، ہواؤں میں سبکساری
جو رشکِ مہر کے جلوے مرے دل میں سما جائیں
تو فورا دور ہو جائےگی میرے دل کی اندھیاری
کبھی وہ جلوہ فرمائیں ، دلِ مضطر سکوں پائے
شہابِ خستہ دل کی ختم ہو جایے عَزاداری
✍️ محمد شہاب الدین علیمی