سیاست و حالات حاضرہ

ہندوستان میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت اور اس کا سماج پر اثر

ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مختلف مذاہب، ثقافتوں اور زبانوں کا سنگم ہے۔ یہاں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، اور دیگر اقلیتیں ایک ساتھ رہتی ہیں۔ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب ہمیشہ دنیا بھر میں اپنی رواداری اور ہم آہنگی کے لیے معروف رہی ہے۔ تاہم، حالیہ دہائیوں میں فرقہ واریت کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے، جو نہ صرف ہندوستان کی سماجی، سیاسی، اور اقتصادی صورتحال پر اثر انداز ہو رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کی شہرت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ فرقہ واریت ایک ایسا سماجی مرض ہے جو مختلف مذہبی، نسلی، اور ثقافتی گروپوں کے درمیان نفرت، دشمنی اور تشویش کا سبب بنتا ہے۔

فرقہ واریت کا مطلب ہے کسی خاص مذہب یا گروہ کے پیروکاروں کے درمیان اس بات کا احساس کہ وہ اپنے ہم مذہبوں یا ہم عقیدہ لوگوں سے الگ ہیں اور ان کے درمیان ایک دوسرے سے شدید نفرت اور دشمنی پیدا کرنا۔ فرقہ واریت کے نتیجے میں معاشرتی ہم آہنگی کی فضا متاثر ہوتی ہے اور مختلف گروپوں کے درمیان اشتعال انگیزی، تشدد اور بدامنی پیدا ہوتی ہے۔

ہندوستان میں فرقہ واریت کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ برطانوی سامراج کے دوران ہندوستان میں مختلف فرقوں کے درمیان تنازعات بڑھائے گئے تاکہ وہ آپس میں لڑتے رہیں اور ان کی طاقت کمزور ہو۔ تقسیمِ ہندوستان اور پاکستان کے بعد 1947 میں، ہندوستان میں فرقہ واریت نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔ مسلم اقلیت اور ہندو اکثریت کے درمیان بے شمار تنازعات پیدا ہوئے، جن کی گونج آج تک سنائی دیتی ہے۔

بعدازاں، ہندوستان میں مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے مفادات کے لیے فرقہ وارانہ سیاست کو فروغ دیا، جس کی وجہ سے مذہبی منافرت بڑھتی گئی۔ خصوصاً 1980 اور 1990 کی دہائی میں، ایودھیا میں بابری مسجد کا تنازعہ، گجرات فسادات، اور دیگر فرقہ وارانہ جھگڑے اس بات کا غماز ہیں کہ فرقہ واریت ہندوستان کے سماج میں کس طرح جڑ پکڑ چکی ہے۔

آج کل ہندوستان میں فرقہ واریت کا مسئلہ زیادہ شدت اختیار کر چکا ہے۔ مختلف سیاسی، مذہبی اور سماجی عوامل نے اس کو مزید بڑھا دیا ہے۔ حکومت کے مختلف فیصلے، سیاستدانوں کی اشتعال انگیز تقاریر، اور میڈیا کا کردار بھی فرقہ واریت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

ہندوستان کی سیاست میں فرقہ واریت کا گہرا اثر ہے۔ سیاسی جماعتیں اکثر مذہبی بنیادوں پر سیاست کرتی ہیں تاکہ اپنے حامیوں کی حمایت حاصل کر سکیں۔ بعض اوقات، مذہبی شناخت کو سیاست میں استعمال کیا جاتا ہے تاکہ کسی خاص گروہ کو پسندیدہ یا غیر پسندیدہ بنایا جا سکے۔ اس سے فرقہ واریت کے بیج پھوٹتے ہیں اور سماج میں تقسیم بڑھتی ہے۔

بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) جیسی جماعتیں ہندو مسلم کے تضاد کو سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرتی ہیں، جبکہ دوسری طرف کانگریس اور دیگر جماعتیں مسلمانوں کو اپنی حمایت کا وعدہ کرتی ہیں۔ اس کی وجہ سے مذہبی اقلیتوں کے درمیان عدم تحفظ کا احساس بڑھتا ہے۔

مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں، میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ وہ ہندوستان میں دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ ہندو قوم پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے ساتھ، اقلیتی فرقے اپنے حقوق اور آزادیوں کے بارے میں خوف کا شکار ہیں۔ مختلف مقامات پر مسلمانوں کے خلاف تشدد اور نفرت کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان میں عدم اعتماد اور نفرت کا جذبہ پیدا ہو رہا ہے۔

ہندوستان میں میڈیا کا کردار بھی فرقہ واریت کے پھیلاؤ میں اہم ہے۔ بعض اوقات، میڈیا کی جانب سے اشتعال انگیز رپورٹنگ اور متنازعہ مواد نشر کرنا فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھا دیتا ہے۔ سوشل میڈیا پر غلط معلومات اور پروپیگنڈا کا پھیلاؤ بھی فرقہ واریت کو فروغ دیتا ہے، جس سے سماج میں مزید بدامنی اور عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے۔

فرقہ واریت کا اثر ہندوستان کے سماج پر گہرا اور سنگین ہے۔ یہ اثرات نہ صرف مذہبی اقلیتی گروپوں پر ہوتے ہیں بلکہ معاشرتی ہم آہنگی اور ترقی پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں۔

فرقہ واریت کے بڑھتے ہوئے اثرات کے نتیجے میں ہندوستان کی سماجی ہم آہنگی متاثر ہو رہی ہے۔ مختلف مذہبی گروہ ایک دوسرے سے خوف اور نفرت کرنے لگے ہیں۔ ہندو مسلم کی تفریق نے قوم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے، جو کہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے نقصان دہ ہے۔

فرقہ واریت نہ صرف سماجی بلکہ اقتصادی ترقی پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ جب ایک طبقہ دوسرے طبقے کے ساتھ مل کر کام کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے تو اس سے پیداوار، تجارت اور کاروبار پر اثر پڑتا ہے۔ ہندوستان میں بعض مقامات پر فرقہ وارانہ کشیدگی کے باعث کاروبار اور تجارتی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں۔

فرقہ واریت کی وجہ سے ہندوستان کی سیاست میں عدم استحکام آ رہا ہے۔ انتخابات میں مذہب کو اہمیت دی جاتی ہے جس کی وجہ سے سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ اس سے نہ صرف عوام میں فرقہ وارانہ سوچ بڑھتی ہے بلکہ حکومت کی کارکردگی اور پالیسیوں پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔

فرقہ واریت کا سب سے بڑا اثر مذہبی تشویش اور تشدد کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ ہندوستان میں آئے دن مسلم، ہندو، سکھ، اور دیگر اقلیتوں کے درمیان تشدد کے واقعات پیش آتے ہیں۔ ان واقعات کی وجہ سے معاشرتی امن و سکون کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات میں بے گناہ افراد کی جانیں ضائع ہوتی ہیں، اور ان کی زندگی میں ایک عدم تحفظ کا عنصر پیدا ہوتا ہے۔

فرقہ واریت کی روک تھام کے لیے حکومت، سیاسی جماعتوں، اور سماج کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ چند اہم اقدامات یہ ہو سکتے ہیں:

تعلیمی اداروں میں مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کی تعلیم دی جانی چاہیے۔ تعلیمی نصاب میں ایسی باتیں شامل کی جانی چاہئیں جو مختلف مذاہب کے درمیان محبت اور احترام کو فروغ دیں۔

سیاسی جماعتوں کو مذہبی بنیادوں پر سیاست کرنے کے بجائے قوم کی فلاح اور بہبود کو ترجیح دینی چاہیے۔ انہیں اپنے بیانات اور پالیسیوں میں مذہب کو تقسیم کرنے کے بجائے اتحاد کو فروغ دینا چاہیے۔

میڈیا کو فرقہ واریت کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ذمہ داری سے کام کرنا ہوگا۔ انہیں مذہبی منافرت اور جھوٹے پروپیگنڈے کو پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے اور اس کے بجائے معاشرتی ہم آہنگی کے پیغامات نشر کرنے چاہیے۔

حکومت کو فرقہ وارانہ تشدد کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے۔ فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کے لیے قانون کو مزید موثر بنانا ضروری ہے۔

مختلف مذاہب کے درمیان مکالمے کی فضا قائم کرنا ضروری ہے۔ بین المذاہب مکالمہ، مذاہب کے بارے میں صحیح معلومات فراہم کرنے اور مشترکہ مسائل پر بات چیت سے فرقہ واریت کو کم کیا جا سکتا ہے۔

ہندوستان میں فرقہ واریت ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے جس کا اثر نہ صرف مذہبی اقلیتوں پر پڑ رہا ہے بلکہ پورے سماج پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ حکومت، سیاسی جماعتیں، میڈیا، اور عوام کو مل کر فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے کام کرنا ہوگا تاکہ ہندوستان ایک پرامن، ہم آہنگ، اور ترقی یافتہ معاشرہ بن سکے۔

تحریر: انیف انصاری

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے