علم و دانش کا میدان اختلافِ رائے کا مظہر ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بڑے بڑے علمی کارنامے ان اختلافات کی بدولت ممکن ہوئے۔ تاہم، علمی اختلافات اور فتنہ پھیلانے کے درمیان ایک واضح لکیر موجود ہے جسے نظرانداز کرنا نہ صرف علمی دیانت کے خلاف ہے بلکہ معاشرتی فساد کو بھی جنم دیتا ہے۔
علمی اختلافات:
اختلافِ رائے کی جڑیں حقیقت کی کھوج میں پیوست ہوتی ہیں۔ جامعات اور مدارس ایسے پلیٹ فارم فراہم کرتے ہیں جہاں طلبہ اور اساتذہ مختلف موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسے ماحول کا مقصد صرف اور صرف علمی ترقی اور معاشرے کو مثبت تبدیلی کے لیے تیار کرنا ہوتا ہے۔
فتنہ پھیلانے کا تصور:
اس کے برعکس، فتنہ پھیلانے والے اپنی ذات یا کسی مخصوص گروہ کے مفادات کے لیے اختلافات کو بنیاد بنا کر انتشار پیدا کرتے ہیں۔ ان کا مقصد حقیقت کی تلاش نہیں بلکہ معاشرے میں تفرقہ اور انارکی کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ علمی اداروں کے وقار کو مجروح کرتے ہیں اور دیگر طلبہ کے لیے نقصان دہ ماحول پیدا کرتے ہیں۔
جامعہ اشرفیہ مصباح العلوم کا اقدام:
گزشتہ روز جامعہ اشرفیہ مصباح العلوم کے منتظمین نے دو طلبہ کو خارج کیا، جو کہ ادارے کے امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے ایک درست قدم تھا۔ یہ فیصلہ ہندوستانی آئین کے تحت بھی بالکل جائز تھا، خاص طور پر دفاع 19(2)، IPC سیکشن 153A، اور BNS 2023 کے سیکشن 353-2 کے تحت ان عناصر کے خلاف تھا جو فتنہ و انارکی کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے تھے۔
جامعہ کے اس اقدام پر اعتراض کرنے والے اس حقیقت کو نظرانداز کر رہے ہیں کہ تعلیمی اداروں کو اپنے اصولوں اور ضوابط پر عمل درآمد کا مکمل حق حاصل ہے۔ فتنہ پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی نہ کرنا دیگر طلبہ اور ادارے کی سالمیت کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔
الحاصل: معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ علمی اختلافات اور فتنے میں فرق کو سمجھے اور اس کے مطابق ردعمل دے۔ علمی اداروں کی خودمختاری کا تحفظ اور فتنہ پھیلانے والوں کے خلاف قانون کا نفاذ نہایت ضروری ہے۔ اس طرح ہم نہ صرف اپنے تعلیمی نظام کو محفوظ بنا سکتے ہیں بلکہ ایک پرامن معاشرتی نظام کی بنیاد بھی رکھ سکتے ہیں۔
از قلم:
محمد توصیف رضا قادری علیمی
مؤسس اعلیٰ حضرت مشن کٹیہار
شائع کردہ: 16، نومبر، 2024ء