حضور بحرالعرفان حضرت علامہ آفاق احمد مجددی صاحب قبلہ علیہ الرحمہ دین و سنیت، مذہب و ملت کی تعمیر و ترقی کےلیےجن مصائب و آلام سےگزرےہیں ان کو برداشت کرکےآگےبڑھ جانا، یقینا یہ آپ ہی کا حصہ تھا،شاید کوئی اور ہوتا تو ٹوٹ کر بکھر جاتا،اور عیش و آرام کا کوئی اور آشیانہ تلاش کرلیتا،لیکن آپ ڈٹےرہے،بڑھتےرہے۔
ابھی سے پاؤں کےچھالےنہ دیکھو
ابھی یارو سفر کی ابتدا ہے
آپ کی داستان عزمِ وفا، صبر و رضا کی چند جھلکیاں ملاحظہ کرتےچلیں تاکہ ہم بھی کچھ کرگزرنےکاحوصلہ پیدا کرسکیں۔
جب ہرطرف سےمایوسی ہاتھ لگی تو کسی قدر شناسا "واحد ملاجی” سےآپ کا رابطہ ہوا،واحد ملاجی نےآپ کا منصوبہ سُنا،حوصلہ بڑھایا، قنوج کےکچھ علاقوں میں ذہن میں محفوظ منصوبےکےساتھ میل ملاقات کا سلسلہ شروع ہوا، ہر جگہ خیرمقدم کیاجاتا،لیکن جیسےہی ادارہ سازی کا منصوبہ پیش کیاجاتا،خوبصورت بہانوں کےذریعےٹال دیےجاتےاور مایوسی ہاتھ لگتی۔
آپ علیہ الرحمہ اس غم دل کولفظوں میں بیان کرتےہوئےلکھتےہیں:
"اب بہت پریشان! کیاکروں ؟ مرتا کیا نہ کرتا کےتحت سب سےمایوس ہوکر آخر فیصلہ کیاکہ حمالی پورہ میں جامعہ کی بنیاد ڈالی جائے.”(بحرالعرفان: سمات وجہات 38)
حمالی پورہ کی چھوٹی مسجد میں آپ علیہ الرحمہ نے رمضان شریف میں قاعدہ بغدادی کےبچوں کو پڑھاناشروع کیا،پھر نماز بھی پڑھانےلگے،یہ سارےکام محض رضاےالہی،مفت اور قیام جامعہ کی کوششوں کےلیےتھے۔
آپ علیہ الرحمہ لکھتےہیں:
میں نماز پڑھاتا،بچوں کو پڑھاتا،ایک چارپائی مل گئ، عبدالصمد صاحب کےدروازےپر پیپل کےدرخت کےنیچےلیٹتارہا،جس حال میں میں یہ ایام گزار رہاتھا میری ہمت نہ پڑتی تھی کہ میں اپنےسسرال والوں کو خبر دوں کہ میں یہاں ہوں ، میرےپاس صرف ایک کرتااور ایک تہبند تھا جس میں پورا ماہ رمضان گزار دیا۔” (ایضا)
کچھوچھہ شریف کی مرکزی درسگاہ جامع اشرف میں درس نظامی کی منتہی کتابیں پڑھانےوالا عظیم محدث،مفکر اور شارح، مکتب کےطلبہ کو قاعدہ بغدادی پڑھانےسےاپنےسفر کا آغاز کرتاہےاور اس میں کوئی ہچکچاہٹ اور بےعزتی بھی محسوس نہیں کرتاہےورنہ موجودہ دور میں بہت سےافراد ایسےہیں جو مکتب کےطلبہ کو پڑھانےمیں بےعزتی تصور کرتےہوئےاپنےعالمانہ وقار کےخلاف سمجھتےہیں۔ حالانکہ ہمارےایسےکئی سارےاکابرین ہیں جنھوں نےاپنےسفرکاآغاز مکتب سےکیااور پھر بلندیوں پرپہنچتےرہے۔
قائد اہل سنت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ بہ حکم حافظ ملت علیہ الرحمہ جمشید پور تشریف لےگئے اور وہاں مکتب قائم کرکے پڑھاناشروع کیا، آج وہاں اہل سنت کی عظیم درسگاہ جامعہ فیض العلوم کےنام سے شہرہ آفاق ہے۔
تنویر العلماءحضرت علامہ مفتی عبدالمنان قادری رضوی بسملؔ علیہ الرحمہ نےاپنےسفرکا آغاز مکتب سےکیا اور آج علاقہ مالوہ کی عظیم درسگاہ دارالعلوم گلشن طیبہ کےنام سے دعوت نظارہ دےرہی ہے۔
اس مرد قلندر حضور بحرالعرفان کی سادگی اور تعمیر ملت کی دُھن دیدنی ہےکہ جب جامعہ کی تعمیر کا کام شروع ہوا تو اینٹیں ڈھونےکےلیےمزدوری کی رقم نہیں تھی بنفس نفیس خود ہی اینٹیں اٹھاکر اِدھر اُدھر لےجانےلگے۔
حضرت مفتی آصف مجددی صاحب قبلہ لکھتےہیں:
” ایک صاحب نےکچھ اینٹیں محلےکےباہر ڈلوادیں، مزدوروں سےاٹھوانےکےلیےپیسےنہ تھے، اس لیےدوپہر میں شدت دھوپ کےباوجود خود ہی اپنےسرپر اٹھاکر مدرسےکی زمین تک لانےلگے، اہل محلہ اور طلبہ نےدیکھاتو تڑپ گئےاور آنافانا ساری اینٹیں وہاں سےاٹھاکر میدان میں جمع کردیں”۔(ایضا:146)
یہ مجددی قلندر مستانہ وار، قلندرانہ مزاج لیے، آسائش دنیا و آلام دنیا سےبےفکر ہوکر اپنےنصب العین کی طرف بڑھتارہا، یکےبعد دیگرےعلمی اور تعمیری معرکےسرکرتارہااور دیکھتےہی دیکھتے، الجامعة الاحمدیہ السنیہ قائم کردیا، قدم پھربھی نہ رکےاور نہ تھمے بلکہ بچیوں کی تعلیم و تربیت کےلیےجامعة المحصنات قائم کردیا اور پھر تو جیسےحضور بحرالعرفان علیہ الرحمہ کےکاموں کو پر لگ گئےکہ اڑتےہی جارہےہیں،بڑھتےہی جارہےہیں، پھلتےپھولتےہی جارہےہیں، وارثی پبلک انٹر کالج، سرہند پبلک اسکول، کمپیوٹر سینٹر،قنوج نیز دیگر صوبوں میں خانقاہ کا قیام، قنوج و اطراف و جوانب میں مکاتب کاقیام، مخلتف مساجد میں دروس، وہابیت و دیوبندیت کےاثرات سےقنوج کی صفائی اور دیگر مقامات پر ادارہ سازی و افراد سازی جیسےکام آپ کےمعمولات کا حصہ بن چکےتھےاور ہرآئےدن کچھ نہ کچھ نیا کرگزرتے۔
سچ بات ہےکہ ” ہر مشکل کےبعد آسانی ہے” اور اس بات کی مصداق حضور بحرالعرفان کی ذات ستودہ صفات ہیں، جنھوں نےابتدا میں ہزاروں مصائب برداشت کیےتو رب نےانھیں بڑےبڑےانعامات سےنوازا۔
اس لیےآج کام کرنےوالےافراد کو مخالفت ، پریشانیاں، حوصلہ شکن رویوں اور ناموافق حالات سےگھبراکر قدم پیچھےنہیں ہٹاناچاہیےبلکہ آگےبڑھتےرہناچاہیے تاکہ کامیابیاں مقدر ہوسکیں۔اور جب کبھی مصائب یا حوصلہ شکن رویوں کا سامناہوتو حضور بحرالعرفان جیسےعالی ہمت افراد کےکارنامےاور زندگی کو پڑھ لیناچاہیےتاکہ حوصلےملتےرہیں۔
ہار ہو جاتی ہے جب مان لیا جاتا ہے
جیت تب ہوتی ہےجب ٹھان لیا جاتا ہے
حضور بحرالعرفان علیہ الرحمہ تعمیرملت کےساتھ تدریس و تصنیف میں بھی مشغول رہےاور آپ کےنوک قلم سے درس نظامی کی منتہی کتابوں کی شروحات اور تصوف کےدقیق ترین مسائل پر کتابیں وجود میں آئیں۔جن کی تعداد لگ بھگ 50 کےقریب ہیں۔
حضور بحرالعرفان علیہ الرحمہ جہاں ایک مدرس، معمار قوم وملت اور مصنف جیسی عظیم خوبیوں اور صلاحیتوں کےحامل تھے،وہیں آپ ایک صوفی، درویش، اور مجددی قلندر بھی تھے، اس ماڈرن دور میں کہ جہاں صرف زبانی طورپر تصوف کی فنی باتیں رہ گئیں ہیں وہیں آپ نےعملااحیاےتصوف کرکے تجدیدی کارنامہ انجام دیاہے۔
نہ جانےکتنےہی دل آپ کی نگاہ کیمیااثر سےذاکر ہوئےہیں اور کتنےہی گم گشتگان راہ نےراہ پائی ہے۔ جو ایک بار آپ سےوابستہ ہوا پھر وہ آپ کےرنگ میں رنگتاہی چلاگیا۔
حضور بحرالعرفان کی حیات و خدمات کےمطالعہ کےدوران جب شہزادہ بحرالعرفان حضرت مولانا احمد سعید صاحب قبلہ مجددی کی زبان سےنکلےیہ جملےپڑھےتو آنکھیں نم ہوگئی ،آپ بھی پڑھ کر دیکھیےکہ ان الفاظ میں کیسادرد اور کیسی حقیقت پنہاں ہیں۔
حضرت مولانا مفتی آصف مجددی صاحب قبلہ لکھتےہیں:
ہم لوگوں نےشہزادہ بحرالعرفان حضرت مولانا احمد سعید صاحب سےعرض کیاکہ(حضور بحرالعرفان کی) نماز (جنازہ) کےلیےجنازہ گاڑی سےلےجایاجائےلیکن انھوں نےکہا کہ "میرےوالد نے اپنی زندگی قوم کےلیےوقف کر رکھی تھی اب آخری وقت میں ان کا جنازہ قوم کےکاندھوں پر ہی جائےگا”۔(ایضا: 51)
حضور بحرالعرفان کی حیات و خدمات پر مشتمل کتاب : بحرالعرفان: سمات و جہات” فروغ تصوف فاؤنڈیشن قنوج سےشائع ہوئی ہے۔جس میں اہل قلم حضرات کےمضامین اور تعزیت نامےہیں۔
آپ علیہ الرحمہ کی حیات و خدمات کےتعلق سے تفصیلی مطالعہ اور معلومات کے لیے مذکورہ کتاب کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔
ازقلم: بلال احمد نظامی مندسوری، رتلام مدھیہ پردیش