علما و مشائخ

آفاؔق کے "آفاقی” کام

اس کائنات رنگ و بو میں کچھ ایسےجواں ہمت، باحوصلہ، عزم و ہمت کےکوہِ ہمالہ، کام کےدَھنی، کام کےتئیں دیوانگی کی حد تک جذباتی،مخلص، بےلوث اور قلندرانہ مزاج کےحامل افراد ہر دور میں آتےرہےہیں جو اپنی لگن، محنت ، جفا کشی، جاں سوزی جگر کاوی اور جواں مردی سے ناموافق حالات ناساز ماحول اور وسائل کی عدم دستیابی کی صورت میں بھی ایسےایسےبلند و بالا اور آفاقی کام کرگئےہیں کہ دنیا محو حیرت ہےکہ ایک ناتواں بندہ اتنےبڑےبڑےکام کیسےکرسکتاہے.
لیکن یقینی بات ہےکہ جو ایک بار ٹھان لے،ایمان و ایقان کی دولت پیدا کرلےاورکچھ کرگزرنےکاحوصلہ پیدا کرلےپھر طوفان بلاخیز اور تلاطم خیز موجیں بھی ان کےپائےاستقلال کو متزلزل نہیں کرسکتیں۔

ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ کبھی گھبرایا نہیں کرتے

ماضی قریب کی ایسی تین شخصیات کےکاموں نےبےحدمتاثر کیا جنھوں نےانتہائی مایوس کن حالات میں بھی امیدوں کےچراغ جلائے اورکوہ عزم و ہمت و صبر و رضاکا پیکر بن کر تعمیرِ ملت میں مصروف رہے۔
١قائد اہل سنت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ (متوفی: 2002ء) (آپ کی تاریخ عزیمت و سوانح حیات پر لکھی گئی کتاب” قائد اہل سنت علامہ ارشد القادری ایک عہد ساز شخصیت” کا مطالعہ کرسکتے) ٢ تنویرالعلماء مفتی عبدالمنان بسملؔ قادری رضوی بستوی ثم مندسوری علیہ الرحمہ(متوفی 2020ء)
(آپ کی تاریخ عزیمت پر مشتمل کتاب” تنویرالعلماء حیات و خدمات” کا مطالعہ کرسکتےہیں)
٣_ بحرالعرفان حضرت علامہ مفتی آفاق احمد نقشبندی مجددی علیہ الرحمہ قنوج یوپی(متوفی 2019ء)
آخرالذکر شخصیت حضور بحرالعرفان حضرت علامہ آفاق احمد مجددی صاحب قبلہ علیہ الرحمہ کےاحوال و کوائف اور کارنامےپڑھتےہوئے باربار حاشیہ ذہن پر یہ خیال ابھرکر آتاہے کہ کیا واقعی ایک شخصیت جس کےپاس وسائل کےنام پر کچھ بھی نہیں ہے،بالکل ہی تہی دامن ہےایسےبےسروسامانی کےعالم میں کسی ایسےمقام پر جہاں پہلےسےکوئی رابطےاور تعلق بھی نہ ہوں اتنابڑا کام کرسکتےہیں؟۔پھر ذہن اس خیال کو جھٹکتےہوئےخود سےگویاہوتاہےکہ کیوں نہیں ہوسکتاہےجب کہ ایسےمرد قلندر کےساتھ فضل خدا شامل حال ہو اور عارف باللہ شیخ العالم حضرت مولانا احمد رضا نقشبندی مجددی دام ظلہ علینا جیسےصاحب تصرف اللہ والےکی پشت پناہی ہو تو پھر بڑےسےبڑےمعرکےبھی سَر کیےجاسکتےہیں۔
حضور بحرالعرفان علیہ الرحمہ جب قنوج میں علم و عمل اور دین و ملت کی آبیاری کرنےکےلیےتشریف لےگئےتو جن جن لوگوں نےامیدیں دلائیں تھیں سب نے ہاتھ کھینچ لیے،ایسےمایوس کن حالات میں جو آپ پر گزری وہ تو آپ ہی جانتےہیں البتہ آپ درد دل کو لفظوں کا جامہ پہناکرلکھتےہیں:
"اب جب رمضان المبارک سےچند روزل قبل قنوج حاضر ہوا تو عین چاند رات والےدن نعیم صاحب نےکسی وجہ سےانکار کردیا، اور کہا اگلےسال دیکھاجائےگا۔قنوج میں ابھی تک میرےقیام و طعام کا کوئی بندوبست نہ تھا اور نہ کسی سےشناسائی، میری پوری زندگی میں جو سب سےزیادہ دشوار دن آئےاور جنھیں میں حزن و غم کےلحاظ سےسب سےسخت دن کہہ سکتاہوں، ان میں سےیہ دن جو اگر چہ سب سےبڑا نہیں تھا مگر ہلکابھی نہ تھا۔ میرےدل پر ان کےجواب سےکیابیتی یہ علیم و خبیر جل و علا ہی جانتاہے، اب میں بہت پریشان کہ جاؤں تو کہاں جاؤں۔”
(بحرالعرفان بہ قلم خود،مختصر رودادِ زندگی۔بحرالعرفان سمات وجہات میں شامل اشاعت)

حضور بحرالعرفان قنوج آمد پر ایک مزار پر جایاکرتےتھے، جب ہر طرف سےدروازےبند نظر آئے،کوئی آسرا اور ٹھکانہ نظرنہیں آیا تو اسی مزارپر پہنچےکہ وہاں ایک بابا رہاکرتےتھے، ان کےپاس گزارہ کریں گےتاکہ کچھ نہ کچھ کھانےوسحری کا انتظام ہوسکےلیکن جب وہاں پہنچےتو بابا بھی کئی دن سےباہر گئےتھےاور حجرہ مقفل تھا۔
اس شدت غم کو بیان کرتےہوئےآپ لکھتےہیں:
اب تو اس قدر غم کہ بیان نہیں کرسکتا، سوئےاتفاق کہ ابھی چند روز قبل ہی کاغذیانےمیں ایک حاجی صاحب کا قتل ہواتھا، جس کی وجہ سےبہت سنسنی تھی، بدمعاشوں کی وجہ سےحاجی بابا میں سرِشام ہی سناٹا ہوجاتاتھا، آبادی کوئی خاص وہاں نہ تھی، مارےشدتِ غم کےحیران تھا کہ اب کیا کروں، کہاں جاؤں، رات کیسےگزرےگی”۔(ایضا)
پھر رات کیسےگزری وہ بھی پڑھ لیجیے:
وہاں ایک ادھیڑ عمر شخص آیا،آپ نےعاجزی کےساتھ کچھ روپیہ دیکر روٹی چٹنی لانےکےلیےکہا،وہ شخص بغیر پیسےلیےکچھ روٹیاں اور سبزی لےآیا۔
اس پورمنظرنامےکو صفحہ قرطاس کےحوالےکرتےہوئے
آپ علیہ الرحمہ لکھتےہیں:
"کچھ تو شدت بھوک میں اسی وقت کھالیں، کچھ سحری کےلیےبچاکر رکھ لیں اور ایک چٹائی پرانی مل گئی جسےمیں نےوہیں باہر حجرےکےسامنےبچھالیااور لیٹ گیا، رات بھر کافی تیز ہوا چلتی رہی، گرد غبار بھی اڑتارہا، خنکی بھی تھی، نیز خوف و دہشت کا عالم تھا، قریب میں کوئی انسان بھی رات بھر نظر نہ آیا ، وہ رات کس طرح کٹی یہ خدا ہی جانتاہے۔اللہ اللہ کرکےصبح ہوئی اب فکر ہوئی کہ شہر میں کہیں نکلاجائے، مدرسےکےقیام کا کوئی راستہ نکالاجائے”۔(ایضا)
حضور بحرالعرفان علیہ الرحمہ کےلیےوہ وقت کس قدر جاں گسل،مشکل ترین اور صبر آزما رہاہوگا یہ تو وہی جانتےہیں البتہ ان حالات کو پڑھ یاسُن کر ہم احساس ضرور کرسکتےہیں اور انھیں اپنےلیےآئیڈیل بناسکتےہیں۔
یہ یقینی بات ہےکہ باہمت افراد جنھوں نے ہزار ہاں مصائب برداشت کرکےدین و ملت کا کام کیاہےان کےروشن کارنامےاور صبر آزما حالات پڑھ کر نسل نو کو کام کرنےکاشعور اور ڈھنگ بھی ملتاہےاور مایوس کن فضا میں امیدوں کےچراغ بھی روشن ہوتےہیں۔
اسی بات کےپیش نظر حضور بحرالعرفان علیہ الرحمہ کےآفاقی کام کا ایک خاکہ اس مضمون میں پیش کیاجارہاہے۔
(جاری ہے)
17/11/24

ازقلم: بلال احمد نظامی مندسوری، رتلام مدھیہ پردیش

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے