رد بد مذہباں عقائد و نظریات

ابن تیمیہ کے افکار و نظریات

ساتویں صدی آٹھویں صدی میں جب امت مسلمہ تاتاریوں کے ظلم و جبر اور قتل و غارت کی وجہ سے اپنے بکھرے وجود کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن پھر بھی مقصد برآں نہ آئی اور دار الخلافہ بغداد، چنگیز خان اور اس کے پوتے ہلاکوخان کے قبضے میں آ گیا یعنی عباسی خلیفہ مع اہل و عیال اور کثیر مسلمانوں کو قتل کرکے عباسی خلافت کے وجود کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا، اور ہماری قیمتی علمی و ثقافتی میراث کو پاؤں تلے روند ڈالا، یوں کہہ لیجیے کہ اس حملے نے مسلمانوں کو سیاسی فوجی عسکری ہر رو سے جسمِ بے جان کر ڈالا تھا ،ایسے پر آشوب و پر فتن دور میں ایک علمی گھرانے میں ایک بچہ اپنی آنکھیں کھولتا ہے، جس کے ذہانت و فطانت و علمی قابلیت کی غلط استعمال کرنے کی وجہ سے امت مسلمہ میں ایسا انتشار پیدا ہوا کہ جس کی لہروں نے عوام الناس اور پڑھے لکھے جہلا کو راہ حق نہ دیکھنے پر مجبور کردیا، اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے، جی ہاں! قارئین وہ بچہ کوئی اور نہیں بلکہ ابن تیمیہ ہے، مندرجہ ذیل عبارتوں میں اس کے افکار و نظریات اور غلو (زبان درازی )کے سارے کرتوت ان کے ہی متبعین کی عبارتوں سے اس کے کفر کو ثابت کرنے کی کوشش کروں گا قبل ازیں اس کے نام و نسب اور تعلیمی سرگرمیاں کو بیان کروں۔

نام و نسب کنیت
نام :احمد
لقب :تقی الدین
کنیت :ابو العباس عرف ابن تیمیہ

شجرہ نسب
تقی الدین ابو العباس احمد بن شیخ شہاب الدین ابو المحاسن عبد الحلیم بن مجدالدین ابو البرکات شیخ عبدالسلام بن ابو محمد عبداللہ ابو القاسم الخضر بن محمد بن الخضر بن علی بن عبداللہ بن تیمیہ الحرّانی دمشقی ۔
(بحوالہ حیات شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ص ٥١ ابو زہرہ ازہری)

پیدائش
ابن تیمیہ شام کی ایک معروف بستی حران ” حال میں یہ ترکی کا حصہ ہے” میں 10 ربیع الاول پیر کے روز 661ھ (22 جنوری 1263ء) کو پیدا ہوا۔

ابن تیمیہ کی وجہ تسمیہ
بعض مؤرخین نے لکھا کہ ابن تیمیہ سے چھ پشت پہلے اس کے جد میں محمد بن خضر کی ماں کا نام تیمیہ تھا جو ایک بلند پایہ کی عالمہ تھیں انہی کی طرف نسبت کی وجہ سے اس خاندان کا نام ابن تیمیہ مشہور منسوب ہوا ۔
(بحوالہ صاحب السیف و القلم ص ١٦)

نقل و سکونت
بچپنے کے چھ سال آبائی وطن میں گزار ہی پایا تھا کہ تاتاریوں نے حران پہ حملہ کر دیا جس کی وجہ سے لوگوں میں کھلبلی مچ گئی اور دوسرے شہروں کے جانب پابہ رکاب ہونے لگے اسی گہمہ گہمی میں اس کے والدِ بزرگوار نے اپنے کنبے کو لے کر دمشق کی جانب چلے گئے ٦٦٧ھ کے آخر میں دمشق پہنچے اور وہیں رہائش پذیر ہوگئے۔

تعلیم و تربیت
اس کی تعلیم و تربیت کا آغاز جائے پیدائش میں ہی ہوا مگر حقیقی علمی سفر کی ابتدا دمشق کے "دار السکریة” سے ہوا جہاں اس کے پدر بزرگوار شیخ الحدیث کے منصب پر فائز تھے یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس کے والد محترم مسلک حنبلی کے ایک دقّاق عالم دین تھے، اس نے بچنے کے ایام میں قرآن کریم حفظ کرلیا بعدہ دار الحدیث السکریہ اور مدرسہ حنبلیہ میں اعلی درجے کی تعلیم حاصل کی، مزید اور مراکز سے علمی خوشہ چنا جہاں مختلف اساتذہ سے تفسیر ،حدیث ،فقہ ،اصول فقہ ، فلسفہ ،منطق ،نحو و صرف ،تاریخ اسماء الرجال ان سارے شعبوں میں عبور حاصل کیا مزید اس نے امام حمیدی رحمہ اللہ کی کتاب "الجمع بین الصحیحین بھی حفظ کرلیا ۔
(بحوالہ ابن تیمیہ اور ان کے تلامذہ ص ٢٩)
بعض مؤرخین نے لکھا کہ مذکورہ کتابوں و فنون کے علاؤہ صحاح ستہ کی اکثر احادیث پر گہرا نظر رکھتا تھا بعض نے ان کتابوں کا حافظ بھی کہا ہے ،مزید اس کے متعلق امام الجرح والتعدیل علامہ ذہبی رحمہ اللہ کا قول نقل کیا جاتا ہے کہ "كل حديث لا يعرفه ابن تيمية فليس بحديث” جس حدیث کو امام ابن تیمیہ نہیں جانتے وہ حدیث ہی نہیں ہے ۔
ڈاکٹر رشاد سالم لکھتے ہیں :
"اما معرفته بصحيح المنقول وسقيمه فانه في ذلك من الجبال التي لا ترتقي ذروتها ولا ينال سنامها قل ان ذكر له قول الا وقد احاض علمه بمبتكره وذاكره وناقله واثره اَوْ راوالا وقد عرف حاله من جرح و تعديل باجمال و تفصيل”
"جہاں تک حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح و سقیم کی معرفت کا تعلق ہے تو ابن تیمیہ ایک ایسا بلند پہاڑ ہے جس کی چوٹی تک کوئی نہیں پہنچ سکتا اور اس کا اعلیٰ مقام کوئی حاصل نہیں کر سکتا، شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ اس کے سامنے کوئی قول پیش کیا جائے اور وہ اس قول کے قائل، ناقل، اور اس سے متاثر ہونے والے کے بارے میں مکمل علم نہ رکھتا ہو، اور یہ کہ وہ اس قول کے راوی کے حالات جرح و تعدیل کے لحاظ سے، اجمال وتفصیل کے ساتھ باخبر نہ ہو،اسی طرح کثیر اقوال اس کے علمی قابلیت پر ملیں گے جس کا ازالہ نیچے کریں گے۔
(بحوالہ امام ابن تیمیہ بحیثیت ایک عظیم محدث ص ١٥)

علامہ زاہد الکوثری لکھتے ہیں :
"ابن تیمیہ کی زندگی کے دو ادوار تھے، پہلا دور جب وہ جوانی میں تھا، علماء نے اس کی بہت تعریفیں کی ،مگر جب وہ کہولت اور بڑھاپے میں پہنچا تو علماء اس کی منفرد اور متنازع آراء سے نالاں ہو گئے، کئی علماء جیسے ذہبی ،قزوینی اور قونوی، ان سے بیزار ہو گئے، اور ابن تیمیہ کو ان کے نظریات سے نکالنے کی کوششیں ناکام رہ گئیں، پھر اس سے مناظرے بھی کرنے لگے جیسا کہ امام ذہبی نے کہا کہ کئی بار ابن تیمیہ سے کچھ مسائل پر میرا موقف الگ رہا اور بحث بھی کیا یعنی وہ آراء جس کا اہل سنت سے کوئی تعلق نہیں”۔

ابن تیمیہ کے مشہور اساتذہ
1۔شیخ شمس الدین عبد الرحمٰن بن احمد المقدسی انہوں نے ابن تیمیہ کو حدیث کی تعلیم دی۔
2۔شیخ کمال الدین بن عبد الرزاق المقدسی ابن تیمیہ نے ان سے بھی علم حدیث اور فقہ حاصل کیا۔
3۔شیخ زین الدین احمد بن عبد الدائم المقدسی یہ حدیث اور فقہ کے استاد تھے۔
4۔شیخ شرف الدین احمد بن نعمت اللہ الحرّانی یہ علم تفسیر اور حدیث کے معروف عالم تھے۔
5 ۔ شیخ فخر الدين احمد بن عبد الرحيم یہ بھی اس کے علم و معرفت کے اہم اساتذہ میں شامل ہیں۔

ابن تیمیہ کے مشہور شاگرد
1۔ ابن قیم یہ ابن تیمیہ کا سب سے مشہور شاگرد تھا اس نے اپنے استاد کے افکار کو آگے بڑھایا۔
2۔ ابن عبدالہادی ابن تیمیہ کے مخلص شاگرد اور سیرت و حدیث کا ماہر تھا اس نے اپنے استاد کے دفاع میں کئی کتابیں لکھا۔
3۔ امام ابن کثیر معروف مفسر اور مؤرخ ہیں۔ ان کی تفسیر "تفسیر ابن کثیر” اسلامی دنیا میں نہایت معتبر مانی جاتی ہے۔
4۔ امام الذهبی مشہور مؤرخ اور محدث ہیں۔ ابن تیمیہ سے علم حاصل کیا اور حدیث کی خدمت میں نمایاں کردار ادا کیا یہ بھی بتادوں کہ ابن تیمیہ کے عقائد سے ابن کثیر اور ذہبی الگ ہوگئے تھے۔

اس کے افکار و نظریات
خیر میں اب اصل موضوع کی طرف چلتا ہوں جہاں ابن تیمیہ کے افکار و نظریات پر بحث کرنی ہے ،کہ ابن تیمیہ یہ وہ پہلا شخص تھا جس نے اصول و عقائد میں اجتہاد کیا، اپنے پسندیدہ موضوع قرآن کریم کی ایسی تاویلات بیان کی جس کو سن کر ایک عام مسلمان حیران و ششدر رہ جائے، اس نے صحیح حدیث کو ضعیف ضعیف کو صحیح کہا ،مزید عجب عجب معانی بیان کیا، اللہ جل شانہ کے لیے تجسیم اور حرکات و سکنات جہت و سمت اعضاء و جوارح کا قائل ہوا، اور جان کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ کرکے خود توگمراہ ہوا اور کروڑوں لوگوں کو گمراہ کر گیا اور آج بھی گمراہ کررہا ہے ،یہ خود کو حنبلی المذہب کہتا تو تھا لیکن متعدد مقامات پر بہت سے اصول و فروع میں اس نے جمہور ہی نہیں بلکہ اجماع امت کی مخالفت کی اور تقلید کو واجب نہ مانا، جس پر کثیر علما نے مثلا : علامہ تاج الدین سبکی، علامہ ابن حجر عسقلانی، ابن حجر ہیتمی، فقیہ ولی الدین اور تقی الدین سبکی نے سخت رد فرمایا، اس کے ایسے نئے نئے افکار و نظریات کی بنا پر علمائے حق نے جم کر خبر لی پھر جب اس کا یہ باطل نظریہ لوگوں پر عیاں ہوا تو لوگ متنفر ہوگئے، کہ اللہ تعالیٰ کرسی پر بیٹھا ہےپھر لوگوں نے سلطان کو سارا ماجرہ بتایا تو سلطان نے لوگوں کی شکایت پر اسے مصر دار الخلافہ بلایا اور ایک سال قید میں رکھا، اس نے قیدیوں کو دعوت و تبلیغ کی پھر رہائی مل گئی اس شرط کے ساتھ کہ ایسی ہفوات(بکواس) زبان پر نہیں لائے گا اور فتوی نہیں دے گا، رہائی کے بعد دوبارہ درس و تدریس شروع کیا، مگر پھر ہفوات بکا ،جس کی وجہ سے دوبارہ قید ہوا پھر رہا ہوا پھر تین طلاق کے مسئلے پر اس نے فتویٰ دیا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوں گی، پھر اخیرًا ! قبر انور کی زیارت کے لیے سفر کو ناجائز قرار دینے بلکہ معصیت کہنے پر اسے دوبارہ قید کیا گیا، اور اسی قید میں اس کا انتقال ہو گیا، اس کے ساتھ اس کا شاگرد خاص ابن قیم بھی جیل میں ڈالا گیا تھا اور دونوں کی نعش ہی باہر آئی۔

وہابیت کی فکری بنیاد
ابن تیمیہ حرّانی نے رکھی، تاہم کئی صدیوں بعد انگریزوں کی سازش کے تحت ابن عبدالوہاب نجدی متوفی 1206ھ نے اس کے خیالات کو "وہابیت” کے نام سے عالم عرب میں پیش کیا، یوں ابن تیمیہ اور ابن قیم کی وفات کے بعد جو نظریات ساتویں صدی میں دفن ہو چکا تھا، اسے تقریباً پانچ سو سال بعد ابن عبدالوہاب نے دوبارہ زندہ کر دیا۔۔
امام ابن حجر نے کہا: کہ ابن تیمیہ کو کئی مدرسوں، خانقاہوں اور علماء کی محفلوں سے نکالا گیا کیونکہ اس کے خیالات ان سے مختلف اور متنازعہ تھے، اس کی انہی نظریات کی وجہ سے وہ قید بھی ہوا اور بالآخر ٧٢٨ھ میں دمشق کے قید خانے میں وفات پا گیا، ابن تیمیہ تفسیر، حدیث اور فقہ جیسے کئی علوم میں ماہر تھا اور امام ذہبی، ابن قیم، اور ابن کثیر جیسے بڑے علما کا استاد رہا،اگرچہ وہ بظاہر حنبلی مذہب سے وابستہ تھا، مگر تقلید کا سخت مخالف تھا۔ وہ اپنے آپ کو مجتہدمطلق سمجھتا تھا اور آزاد خیالی و جدت پسندی کی طرف مائل تھا، علم و ذہانت تو اس میں موجود تھے، مگر صحیح فکر اور اصابتِ رائے کی کمی کی وجہ سے اس کی ذہانت اس کے لیے مشکلات کا سبب بن گئی، اس نے اسلامی علما کی روایت سے ہٹ کر نئے نظریات اور بدعات کو اپنایا، اور کئی معاملات میں قرآن، حدیث، سنت اور اجماع سے اختلاف کیا، ١ مشہور مؤرخ ابن بطوطہ نے اسے ذہنی طور پر غیر متوازن اور جنونی اور فاتر العقل عالم قرار دیا ہے۔
(ملخصا، تحریک وہابیت کا مختصر تعارف،،ص١٢،،١٣)

ابن تیمیہ کے عقائد
امام ابن حجر مکی متوفی ٩٧٤ھ نے ابن تیمیہ کے کچھ عقائد کو فتاویٰ حدیثیہ اور جواہر المنظم میں تحریر فرمایا ہے ان میں کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
1۔اللہ تعالی ہاتھ ، پاؤں اور جسم والا ہے۔
2۔اللہ تعالی جسم والا ہے اس کے لیے جہت ہے وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو سکتا ہے بلکہ ہوتا ہے۔
3۔اللہ تعالیٰ بالکل عرش کے برابر ہے نہ چھوٹا نہ بڑا۔
4۔اللہ عز و جل کی ذات میں تغیر و تبدل ہوتا ہے۔
5۔اللہ تعالیٰ کی ذات مرکب ہے، وہ اجزا کا ایسے ہی محتاج ہے جیسے کل، جز کا محتاج ہوتا ہے۔
6۔قرآن قدیم نہیں حادث ہے۔
7۔دنیا قدیم بالنوع ہے، وہ ہمیشہ سے اللہ کے ساتھ رہی، اللہ تعالیٰ کے اختیار سے نہیں ہے۔
8۔اللہ تعالیٰ عرش پر ایسے ہی تشریف رکھتا ہے جیسے کوئی انسان کرسی پر بیٹھتا ہے۔
9۔جہنم ایک دن فنا ہو جائے گا ۔
10۔انبیاء کرام معصوم نہیں ہوتے ہیں ۔
11۔رسول کریم ﷺ کے لیے کوئی جاہ ومرتبہ نہیں ، ان کے توسل سے دعا مانگنا جائز نہیں۔
12۔حضور کے روضہ کی طرف زیارت کی نیت سے سفر کرنا حرام اور گناہ ہے۔ اس سفر میں نماز پوری پڑھی جائے گی، قصر جائز نہیں، استغفر الله تعالیٰ۔
13۔نماز اگر چھوڑ دی جائے تو اس کی قضا واجب نہیں ہے۔
14۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انور کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا گناہ ہے۔
15۔ان کا وسیلہ پیش کرنا حرام ہے۔
16۔ان سے مدد طلب کرنا حرام ہے ۔
17۔اولیاے کرام سے مدد مانگنا حرام و نا جائز ہے۔
18۔زیارت قبور کے لیے سفر کرنا درست نہیں۔
19۔توریت وزبور کے کلمات نہیں بدلے ہیں، بلکہ صرف ان کے معانی بدل دیے گیے ہیں۔
20۔کسی نے عورت کو طلاق دینے کا اقرار کیا تو وہ قسم کا کفارہ مثلا: تین روزے رکھ لے، کام چل جائے گا جب کہ سلف میں سے کسی نے طلاق کے سلسلے میں قسم کے کفارہ کا ذکر نہیں کیا ہے
21۔جنبی ( ناپاک) رات کو ناپاکی کی حالت میں نماز نفل پڑھ سکتا ہے فجر سے پہلے نفل نماز کے لیے نہانے کی ضرورت نہیں۔
22۔حیض والی کو، یا جس طہر میں وطی کی گئی کوئی طلاق دیتا رہے، کوئی طلاق نہ پڑے گی۔
23۔تین طلاق دینے سے ایک ہی واقع ہوگی۔
24۔حیض والی بھی خانہ کعبہ کا طواف کر سکتی ہے، اس پر کوئی کفارہ لازم نہ ہوگا۔
25۔تیل، گھی وغیرہ سیال چیزوں میں اگر کوئی جانور چوہا چھپکلی وغیرہ مر بھی جائے تو وہ پاک ہی رہےگا ۔
26۔تاجر سے جو ٹیکس لے لیا گیا اس سے زکات ادا ہوگئی، الگ سے اب کچھ نہیں دینا ہے، خواہ اس نے زکاة کی نیت کی ہو یا نہ کی ہو۔
27۔شرطِ واقف بالکل فالتو چیز ہے،یعنی اگر کوئی چیز مسجد کے لیے کسی نے وقف کی تو اسے مدرسہ یا کسی اور کام میں صرف کیا جا سکتا ہے۔
28۔اجماع کی مخالفت کوئی گناہ نہیں۔
(الفتاوى الحدیثیة :۸۵/۱، ط:دار الفکر، بیروت

ایک شبہ کا ازالہ
عصر حاضر کے وہابی ،دیوبندی ،سلفی، اہل حدیث کے متعلق یہ نہ سوچنا کہ سب الگ الگ ہیں بلکہ سبھی کا گہرا اور حقیقی تعلق ابن تیمیہ سے جا ملتا ہے، اگر چہ اس کے نام مختلف ہیں لیکن سب ایک تھالی کے بینگن ہیں، ان کا منشا یہ ہے کہ بھولے بھالے سنیوں کو کفر و گمراہی کے دہانے پر کھڑا کردیں اور باضابطہ اب تو یہ کام کے لیے پیسے ملتے ہیں تو کیوں نہ دل لگا کر کریں گے۔

گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
اس ہیڈنگ سے تعجب کررہے ہونگے کہ راقم الحروف کہنا کیا چاہتا ہے کہ تو سنیں جس کی عقائد و نظریات کی یہ مذکورہ لوگ اتباع کرتے ہیں اس کے بعض کفریہ عقائد جس کی تاویلیں عوام الناس کو الٹی سیدھی بتانے کی صلاحیت رکھتے ہیں "یعنی عام انسان کے ایمان کو چھیننے کی” ان سب کو قبول کرکے لکھتے اور پڑھاتے ہیں اور بعض جن کی تاویلیں بے جا کرنے پر عوام الناس بھی ان سے دست و گریباں ہوسکتی ہے، ان تاویلات کو ابن تیمیہ کے منہ پر مارتے ہیں اور اس کو کافر کہتے ہیں ،میں اہل سنت کی دلیل نہ بیان کرکے اس کے ہی پیروکاروں کے فتاوے سے اس کی کفر کو ثابت کرتا ہوں۔

ابن حجر اور ابن تیمیہ کے زیر عنوان بحث میں ابو بکر غازی پوری دیوبندی لکھتا ہے: کہ شیخ الاسلام علامہ ابن حجر العسقلانی کے مطابق وہ بہت غلو کرنے والا، سخت متکبر تھا، خود کو مجتہد مطلق سمجھتا تھا، علما کا رد کرتا، اس کی جسارت اتنی بڑھی کہ حضرت عمر کی غلطی نکالنے لگا، حضرت علی کے بارے میں یہ بکواس کی کہ انھوں نے سترہ جگہ غلطیاں کیں، امام غزالی کو گالیاں دیتا، امام ابن عربی کو برا بھلا کہتا تھا ۔ (قافلہ حق، شمارہ: ١، جلد ٢، ٢٠٠٧ ص ٢٩) ابن تیمیہ کی جرأت پر غور کریں، کہ اس نے صحابہ کرام، خاص طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم پر تنقید کی اور ان کی بعض باتوں کو قرآن کے خلاف قرار دیا، جو بڑا جرم ہے، مگر دیوبندی اور وہابی مکتبہ فکر کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، بلکہ انہوں نے ابن تیمیہ کو "شیخ الاسلام” کا درجہ دیاہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر کوئی ان کے اکابر جیسے رشیداحمد گنگوہی یا قاسم نانوتوی وغیرہ پر تنقید کرے، تو وہ فوراً مخالف ہو جاتے ہیں اور شدید ردعمل دیتے ہیں، جبکہ صحابہ پر تنقید کرنے والے کو اپنا رہنما مانتے ہیں۔

مزید برآں ابو بکر غازی پوری دیوبندی لکھتا ہے :
"بعض بزرگوں نے ابن تیمیہ کو زندیق قرار دیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے حضورﷺسے توسل کا انکار کیا جو حضور ﷺ کی عظمت کے خلاف ہے اور اس میں آپ کی تنقیص ہے۔”
(قافلہ حق ، شماره ۱، جلد ٢ ، ٢٠٠٨ ص ۲۹)
یہ لیں اور دیکھیں وہابیوں ،دیو بندیوں کا امام العصر انور کشمیری کا فتویٰ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی عیب چینی اور ان کی تنقیص و توہین سراسر کفر بلکہ سب سے بڑا کفر ہے۔
( الکفار الملحدین، ص ٢١٣)
"ابن تیمیہ کا کہنا تھا کہ حضرت علی (کرم اللہ وجہہ الکریم )نے خلافت کے لیے جنگ کی، جو دین کی بنیاد پر نہیں تھی، حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ )پر اس نے مال کی محبت کا الزام لگایا، جبکہ حضرت ابو بکر صدیق(رضی اللہ عنہ ) کے بارے میں ابن تیمیہ کا تبصرہ کرتا تھا "اسلم شیخا لا یدری ما یقول” یعنی ابو بکر صدیق(رضی اللہ عنہ ) بڑھاپے میں ایمان لائے تھے ان کی زبان سے کیا نکلتا تھا اس کا ان کو پتہ نہیں تھا حضرت علی (کرم اللہ وجہہ الکریم )کے ایمان کو بھی بچپن کی وجہ سے مشکوک قرار دیا۔”
(قافلہ حق، شماره ۱، جلد ٢: ٢٠٠٧ء ص ۲۹)
نیز تقی الدین سبکی اور ابن تیمیہ کے عنوان کے تحت لکھتا ہے :
"امام تقی الدین السبکی نے ابن تیمیہ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ساتویں صدی کے اواخر میں پیدا ہوا، صاحب فضل، ذہین اور وسیع علم رکھنے والا تھا، مگر اس کا کوئی شیخ نہیں تھا جو اس کی رہنمائی کرتا،اس میں جرأت بہت تھی اور اسی وجہ سے شاذ مسائل کو اختیار کرتا تھا، اس کا عقیدہ تھا کہ اللہ کی ذات کے ساتھ حوادث کا قیام ممکن ہے اور زمانہ قدیم ہے، اس نے مسلمانوں میں عقائد کے حوالے سے تشویش اور فساد پیدا کیا، اس کی جرأت یہاں تک تھی کہ اس نے حضورﷺکی زیارت کے لیے سفر کو معصیت قرار دیا اور اکھٹے تین طلاق کے وقوع کا انکار کیا۔”
(السیف الصقیل ۱۷)
مزید برآں غازی پوری لکھتا ہے، کہ میں نے صرف اسلام کی تین معتبر اور متفق علیہ شخصیات کا ابن تیمیہ کے بارے میں تبصرہ نقل کیا ہے، جن پر تمام اہل السنۃ والجماعۃ کو اعتماد ہے، ان کے تبصروں سے ابن تیمیہ کے بارے میں بہت کچھ سمجھا جا سکتا ہے، آج کے سلفیوں کا عقیدہ ہے کہ جو ابن تیمیہ کا مخالف ہے وہ شیطان کے گروہ کا فرد ہے۔
(قافلہ حق، شماره ۱، جلد ٢: ٢٠٠٧ء ص ٣٠)
ابو بکر غازی پوری دیوبندی لکھتا ہے، کہ ابن تیمیہ اپنی توحید کے نشے میں صحابہ کرام پر بھی تنقید کرتا ہے، اس نے حلال و حرام کا اختیار اپنے پاس رکھ لیا ہے، جسے چاہا حرام اور جسے چاہا حلال قرار دیا، گویا دین و شریعت اس کی ذاتی ملکیت ہے، بنی اسرائیل کے علماء بھی اپنی خواہشات کے مطابق حلال و حرام میں تبدیلیاں کرتے تھے اور ابن تیمیہ نے بھی یہی طرز عمل اختیار کیا ہے،اس کے انہیں سب کرتوتوں کو دیکھتے ہوے خالد محمود وہابی دیوبندی لکھتا ہے کہ تاریخ بنی آدم میں مخالفوں سے ٹکرانا تو عام بات ہے ، لیکن اپنے آپ سے ٹکرانا صرف اس شخص کے بارے میں صحیح ہو سکتا ہے جو "مخبوط الحواس” ہو۔
(براہ راست قادیانیت پر غور کرنے کا آسان طریقہ ،ص65 )

دیوبندیوں کے روحانی پدر کا موقف
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے متعلق سرفراز گکھڑوی لکھتا ہے کہ بلا شبہ دیوبند سے وابستہ جملہ حضرات”شاہ عبدالعزیز کو روحانی پدر تسلیم کرتے ہیں ” مزید برآں جاہ رقم طراز ہے "کہ ہمارے لیے شاہ عبدالعزیز کا فیصلہ حکم آخر کی حیثیت رکھتا ہے "
(اتمام البرھان ص،139)
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے ابن تیمیہ کے متعلق فتاوٰی عزیزی میں لکھتے ہیں ” کلام او مردود است ” ( ابن تیمیہ کا کوئی کلام قابل قبول نہیں) اب اگر واقعی دیوبندیوں کے نزدیک ان کے روحانی پدر شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کا فیصلہ ” حکم آخر کی حیثیت رکھتا ہے ” تو پھر ابن تیمیہ کے کلام کو مردود ہونے کا اعلان کر دیں،مگر یہ ممکن نہیں ، مزید اس کو "شیخ الاسلام و المسلمین و مجدد” اور پتہ نہیں کیا کیا لقب دے کر اپنے روحانی پدر کے حکم کو ٹال رہے ہیں ،ان کی اصلیت آپ پے عیاں ہو گئ ہو گی” عقلمنداں را اشارہ کافی است” خیر اب مزید لکھنے کی کوئی گنجائش نہیں اس کی موت کی جانب تھوڑا اشارہ کرکے قلمبند کرتا ہوں۔

وفات
ابن تیمیہ کی وفات 20 ذوالقعدہ 728 ھ کو دمشق کے قلعے میں قید کے دوران ہوئی، اس کی عمر تقریباً 67 سال تھی، مرنے کے بعد یہ فتنہ تو دب گیا لیکن عبدالوہاب نجدی نے پھر سے ابھار کر امت کو اسی پرفتن دور میں لا کر کھڑا کر دیا۔
میرے پیارے قارئین، زندیق کا حکم ہمارے یہاں کفار سے زیادہ سخت ہوتا ہے یہ بات سب پر عیاں ہے ،اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ ایسے شخص کی اتباع کرنے والے کیسے لوگ ہو سکتے ہیں، مزید ہم نے ان کے دیوبندی علماء کے اقوال سے اس کے کفر کوثابت کیا۔
اللہ رب العزت ہمیں دین متین اور اہل سنت والجماعت پر قائم و دائم رہنے کی توفیق بخشے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آمین ثم آمین

از قلم: مجیب الرحمٰن سلطانی
کلیۃ اللغۃ العربیۃ ، الفرقۃ الثالثۃ
جامعۃ مرکز الثقافتہ السنیۃ، کیرالا

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے