تعلیم تنقید و تبصرہ فقہ و فتاویٰ گوشہ کتب

علم ٬ فقہ و افتا اور فتاویٰ عثمانیہ

” العلم نور ” علم نور ہے اور جہالت تاریکی ہے ۔ نور اور تاریکی میں تضاد ہے ۔ جہاں علم ہوگا ٬ وہاں روشنی ہوگی اور جہاں جہالت ہوگی ٬ وہاں تاریکیاں اپنا دامن پسارے دور دور تک نظر آئیں گی ۔ تاریکیوں کا جنازہ نکالنے کے لیے علم کی روشنی کا ساتھ ہونا ضروری ہے ۔ علم چوں کہ روشنی ہے ٬ اس لیے ہر علم کے اندر ” روشنی ” کا عنصر اور نور کا پہلو ضرور ہوگا ۔ اسی علم کی بدولت انسان کو اللہ رب العالمین کی محبت و معرفت نصیب ہوتی ہے ۔ اس لیے قرآن میں فرمایا گیا : ھل یستوی الذین یعلمون و الذین لا یعلمون . ( جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر نہیں ) ۔ نیز علم اور اہلِ علم کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنی وحدانیت پر خود اپنی ذات اور فرشتوں کے ساتھ اہلِ علم ( علمائے ربانی ) کو گواہ بنایا ہے اور علم کی فضیلت کے لیے یہی امر کافی ہے ۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ وَ الْمَلائكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآئمًۢا بِالْقِسْطِؕ . لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ . ( اور اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور عالموں نے انصاف سے قائم ہو کر ٬ اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں ٬ وہ عزت والا حکمت والا )

اس آیت میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتے اور اہلِ علم یعنی انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام ٬ علمائے ربّانیین اور اولیائے عظام قدس سرہم نے گواہی دی کہ اللہ عَزَّ وَ جَلَّ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہلِ علم بڑی عزت والے ہیں کہ اللہ رب العزت نے انہیں اپنی توحید کا گواہ اپنے ساتھ بنایا ۔ لیکن یہاں ” اولوا العلم ” سے مراد علمائے ربانی ہیں یعنی صحیحُ العقیدہ اور صالحین علماء ۔ علمائے ربانی وہ ہیں جو خود اللہ والے ہوں اور لوگوں کو اللہ والے بناتے ہوں ، جن کی صحبت سے اللہ عز و جل کی کامل محبت و قربت نصیب ہوتی ہو ۔ جس کے اندر یہ خصوصیت پائی جائے ٬ وہی حقیقت میں عالمِ دین ہے ٬ جس کی تعریف و توصیف قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہے ۔

وہ علم جو نفع بخش ہو اور اس کے ساتھ عمل و اخلاص بھی شامل ہو ٬ جب بندہ اس نوعیت کے علم سے متصف ہوتا ہے تو اس کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہوتا ہے ۔ حضرت حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے زیادہ ہے اور تمہارے دین کی بھلائی تقویٰ و پرہیز گاری میں ہے ۔

( المعجم الاوسط للطبرانی ، جلد سوم ٬ ص : 92 ٬ رقم الحدیث : 3960 ٬ مطبوعہ : بیروت )

علم اور صالح عالم کے متعلق دو حدیث مزید ملاحظہ فرمائیں :

( 1 ) مَن سلَكَ طريقًا يلتَمِسُ فيهِ علمًا ، سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ طريقًا إلى الجنَّةِ ، و إنَّ الملائِكَةَ لتَضعُ أجنحتَها لطالِبِ العلمِ رضًا بما يصنعُ و إنَّ العالم ليستغفِرُ لَهُ مَن في السَّمواتِ ومن في الأرضِ ، حتَّى الحيتانِ في الماءِ و فضلَ العالمِ على العابدِ كفَضلِ القمرِ على سائرِ الكواكبِ ، و إنَّ العُلَماءَ ورثةُ الأنبياءِ ٬ إنَّ الأنبياءَ لم يورِّثوا دينارًا و لا درهمًا إنَّما ورَّثوا العلمَ فمَن أخذَهُ أخذَ بحظٍّ وافرٍ .

ترجمہ : حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص طلبِ علم کے لیے راستہ طے کرتا ہے ٬ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اسے جنت کی راہ چلاتا ہے اور فرشتے طالبِ علم کی بخشش کی دعا کرتے ہیں ۔ یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں دعائیں کرتی ہیں اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہی ہے جیسے چودھویں رات کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے اور علماء ٬ انبیائے کرام کے وارث ہیں اور نبیوں نے اپنا وارث درہم و دینار کا نہیں بنایا ٬ بلکہ علم کا وارث بنایا تو جس نے علم حاصل کیا ٬ اس نے ایک وافر حصہ لیا ۔

( سنن ابی داؤد ، کتاب العلم ، رقم الحدیث : 3641 ٬ مطبوعہ : دار الکتب العلمیہ ٬ بیروت )

( 2 ) حضرت جابر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور سیدِ عالم ٬ نورِ مجسم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن عالم اور عبادت گزار کو لایا جائے گا اور عبادت گزار سے کہا جائے گا : تم جنت میں داخل ہو جاؤ ٬ جب کہ عالم سے کہا جائے گا کہ تم ٹھہرو اور لوگوں کی شفاعت کرو ٬ کیوں کہ تم نے ان کے اَخلاق کو سنوارا ہے ۔

( شعب الایمان ، السابع عشر من شعب الایمان ٬ جلد دوم ٬ ص : 268 ، رقم الحدیث : 1717 ٬ مطبوعہ : دار الکتب العلمیہ ٬ بیروت)

علم کے انواع و اقسام :

دینی طبقے میں عام طور پر علوم کی تقسیم دینی و دنیاوی یا دینی و عصری علوم سے کی جاتی ہے ٬ جو تقریبِ فہم کے لیے ہے ٬ راقم الحروف کے ناقص خیال کے مطابق ہر وہ علم جس سے دین کی تائید و حمایت کی جائے ٬ وہ شرعی علم کی فرع ہے ۔ علومِ دینی یا علومِ شرعی ان علوم کو کہتے ہیں ٬ جن کے متعلق شارع علیہ السلام نے خبر دی ہو ۔ ابن تیمیہ کے بقول : فان الشرعیات ما اخبر الشارع بھا وما دل الشارع علیھا و ما دل الشارع علیہ ینتظم جمیع ما یحتاج الی علمہ بالعقل ۔ ( شرعیات یعنی دینی و شرعی علوم وہ ہیں جن کی خبر شارع نے دی ہو یا جس کی طرف شارع نے رہنمائی کی ہو اور جن کی طرف شارع نے رہنمائی کی ہو وہ ان تمام علوم کو شامل ہیں عقلی اعتبار سے جن کی ضرورت پڑتی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن تیمیہ اکثر علوم عقلیہ جیسے طب ، ریاضیات ، فلکیات ، فزکس اور اپنے زمانے میں رائج علم کیمیا کو علوم شرعیہ کے ضمن میں شمار کرتے ہیں ۔

حجۃ الاسلام حضرت امام محمد غزالی علیہ الرحمہ نے احیا العلوم میں علم اور اس کے متعلقات پر تفصیلی گفتگو کی ہے ۔ آپ کی نظر میں علم کلام کو تمام علوم پر فوقیت حاصل ہے ۔ ” المستصفیٰ ” میں انہوں نے علم کی دو قسمیں کی ہیں : عقلی اور دینی ٬ پھر عقلی اور دینی کی تقسیم کلی اور جزئی سے کی ہے ۔ اس کے بعد لکھا ہے کہ علوم دینیہ میں سے علم کلی ” علم کلام ” ہے ۔ اس کے علاوہ دوسرے علوم جیسے فقہ ، اصول فقہ اور حدیث و تفسیر علوم جزئیۃ ہیں ۔ آپ کے الفاظ یہ ہیں : فالعلم الکلی من العلوم الدینیۃ ھو علم الکلام و سائر من علوم الفقہ و اصولہ و الحدیث والتفسیر علوم جزئیۃ ۔ اس کی وجہ ان کی نظر میں یہ ہے کہ علم کلام ٬ علوم تفسیر و حدیث کی اساس کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس کے ذریعہ تمام علوم دینیہ کے اصول و مبادی کوثابت کیا جاتا ہے ۔ اس سے ان کی مراد خدا کے وجود ، توحید و رسالت اور آخرت جیسے بنیادی عقائد کا اثبات ہے کہ ان کے تسلیم کے بعد ہی انسان شریعت اور احکام شریعت کا مکلف بنتا ہے ۔ ان امور کا انکار کرنے والوں کے لیے شریعت میں کوئی حیثیت و وقعت نہیں رہ جاتی ۔ آپ نے احیاء العلوم میں علم کی تقسیم شرعی اور غیر شرعی سے کی ہے ۔علمِ شرعی : وہ علم جسے انبیائے کرام علیہم السلام سے حاصل کیا جائے ۔ غیر شرعی : وہ علم ہے جسے عقل و تجربہ سے حاصل کیا جائے ۔ پھر علوم شرعی کی دو قسمیں ہیں : محمود ٬ مذموم ۔ فقہ کو انہوں نے علومِ شرعیہ میں سے فروعی اور دنیاوی علوم کے خانے میں رکھا ہے ٬ کیوں کہ وہ اخلاق و تصوف کے مقابلے میں ظاہری اعمال سے عبارت ہے ۔ امام غزالی نے ” مذموم شرعی علوم ” کی ایک فہرست بنائی ہے ۔ یہ وہ علوم ہیں جن کی روح ان کے بقول ان کے زمانے میں ختم ہو چکی تھی اور فقہ کو ان میں شامل کیا ہے ۔ تقسیمِ علوم کے معاملے میں امام غزالی کی فکر کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک خالص شرعی علم کو بھی اگر طلبِ جاہ اور دنیا کمانے کے لیے حاصل کیا جائے تو وہ شرعی علوم کا حصہ ہوتے ہوئے بھی محمود سے مذموم بن جاتا ہے اور اس حقیقت کی تائید مندرجہ ذیل حدیث پاک سے بھی ہوتی ہے ٬ جسے امام ترمزی نے اپنی سنن میں نقل کی ہے :

من طلب العلم ليجاري به العلماء أو ليماري به السفهاء أو يصرف به وجوه الناس إليه ادخله الله النار .

حضرت کعب بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص علم اس واسطے سیکھے کہ اس کے ذریعہ علماء کی برابری کرے یا کم علم اور بیوقوفوں سے بحث و تکرار کرے یا اس علم کے ذریعہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنائے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ جہنم میں داخل فرمائے گا ۔

فقہِ اسلامی :

فقہِ اسلامی در اصل کتاب اللہ ، سنت ( قرآن و حدیث ) ، اجماعِ امت اور قیاس پر مشتمل وہ پاکیزہ علم ہے جو دارین کی سعادتوں کے حصول کے ساتھ بیشمار دینی و دنیوی مصالح و منافع کو اپنے دامنِ کرم میں سمیٹے ہوئے ہے ۔ اسلامی بلکہ انسانی معاشرے میں قندیلِ ہدایت روشن کرنے کے ساتھ جلبِ منافع اور دفعِ مفاسد اس کا طرۂ امتیاز ہے اور اس کی چاروں شاخیں ( فقہِ حنفی ، فقہِ مالکی ، فقہِ شافعی ، فقہِ حنبلی ) پوری امتِ مسلمہ لیے سراپا خیر و برکت ہیں ۔ آج کے اس دورِ قحط الرجال میں جہاں ہر طرف علم و عمل کا چکمتا سورج گہناتا ہوا دکھائی دیتا ہے ، یہ فقہِ اسلامی ہی ہے جو امتِ مسلمہ کو ہدایت و سعادت اور منزلِ مقصود کی طرف رہنمائی کرتا نظر آتا ہے ۔ فقہِ اسلامی ایک ایسی فکر سلیم اور منہجِ مستقیم کا نام ہے جو قرآن و سنت کے چشمۂ صافی سے سینچا گیا ہے اور اہلِ ایمان کے لیے دنیوی و اخروی فوز و فلاح کا سامان مہیا گیا ہے ۔ یہ وہ عطیۂ الہیٰ ہے جس سے امتِ محمدی کو سرفراز کیا گیا ہے اور اس کی روشنی میں اسے شاہراہِ حیات طے کرنے کا مکلف بنایا گیا ہے ۔ فقہ اسلامی قرآن وسنت کے عملی احکام کا نام ہے ۔ اس کے بعض و احکام و ارشادات قرآن و سنت کے متعین کردہ ہیں اور بعض احکام کلامِ الہیٰ و حدیثِ نبوی کےاصولوں سے ماخوذ و مستنبط ہیں ۔ ان دونوں کے باہمی امتزاج و ترکیب سے وجود پذیر فقہ اسلامی ایک مستحکم عملی قانون کی شکل میں آج ہمارے سامنے موجود ہے ۔ فقہِ اسلامی کی اہمیت و معنویت کا اندازہ مندرجہ ذیل اقتباس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ : ” فقہِ اسلامی ، امتِ مسلمہ کو باہم مضبوط و مربوط کرنے والا وہ نظامِ حیات ہے جس پر اس کی زندگی کی بقا موقوف ہے اور یہ وہ سرمایۂ اعزاز و افتخار ہے جو اس سے پہلے دیگر امتوں کو حاصل نہیں ہوا ۔ نظامِ عالم کا حسن و جمال اور خوبی و کمال اسی پر منحصر ہے ۔ نیز سماجی اور اخلاقی مصالح کا دار و مدار اسی ” فقہِ اسلامی ” پر ہے ” ۔

الفقه الاسلامی جامعة و رابطة للامة الاسلامية و ھو حیاتھا تدوم ما دام و تنعدم ما انعدم و ھو جزء لا یتجزی من تاریخ الامة الاسلامية فی اقطار المعمورة ، و ھو مفخرة من مفاخرھا العظیمة و من خصائصھا التی لم تکن لای امة قبلھا ، اذ ھو فقه عام مبین لحقوق المجتمع الاسلامی بل البشری ، و به کمال نظام العالم فھو جامع للمصالح الاجتماعیة بل و الاخلاقیة …….. فالفقه الاسلامي نظام عام للمجتمع البشری عامة تام الاحکام مکتمل الآراء ، لم یدع شاذة و لا قاذة و ھو القانون الاساسی للدولة الاسلامیة .

( مقدمۃ التحقیق لرد المحتار علی الدر المختار ، جلد اول ، ص : ٢٢ ، دار عالم اللکتب ، الریاض )

علمِ فقہ :

علم کے سینکڑوں انواع و اقسام ہیں ۔ جملہ علوم و فنون میں ” علمِ فقہ ” کو بڑی اہمیت و فضیلت حاصل ہے ۔ یہ وہ علم ہے جس کے بغیر اہلِ ایمان دین کا راستہ ایک قدم بھی طے نہیں کر سکتے ٬ قدم قدم پر علمِ فقہ کی ضرورت پڑتی ہے ۔ اس لیے بقدرِ ضرورتِ شرعی علمِ فقہ کا سیکھنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض قرار دیا گیا ہے ۔ جیسا کہ حدیث پاک ہے : طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم . قدوۃ الکبریٰ ٬ غوث العالم حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : اگر کسی کو یہ معلوم ہو جائے کہ اس کی عمر ایک ہفتہ سے زیادہ باقی نہیں رہ گئی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ علمِ فقہ ( دینی و شرعی مسائل سیکھنے ) میں مشغول ہو جائے ۔ کیوں کہ دینی علوم سے ایک مسئلہ کا حاصل کرنا ہزار رکعت نفل سے بہتر ہے ۔ علمِ فقہ کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ رب العزت اس علم سے انہیں لوگوں کو سرفراز فرماتا ہے ٬ جن کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے ۔ من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین . ( اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے ٬ اسے دین کی سمجھ ( فقہ ) عطا فرماتا ہے ۔ فقہ ٬ احکامِ شرعیہ کے جاننےکا علم ٬ اسلام تعلیمات کا نچوڑ ، قرآن کریم کا خلاصہ اور احادیثِ مصطفیٰ ﷺ کی روح ہے ۔ یہ شریعت کے عمومی مزاج کا ترجمان ہونے کے علاوہ اسلامی زندگی کے لیے رہنما اور مشعل راہ بھی ہے ۔ اس لیے علومِ اسلامیہ میں اس کی اہمیت و ضرورت مسلّم رہی ہے ۔ نہ صرف ماضی اور حال بلکہ مستقبل میں بھی صبحِ قیامت تک اس کی ضرورت و افادیت محسوس کی جاتی رہے گی ۔ فقہائے کرام اور مفتیانِ شریعت قرآن و حدیث کے بحرِ بیکراں میں غوطہ زنی کر کے فقہی اصول کے تناظر میں امتِ مسلمہ کے پیش آمدہ مسائل حل کرتے رہیں گے ۔

فقؔہ کا لغوی معنیٰ ہے : علم و فہم اور حکمت و دانش ۔ فقہ بمعنیٔ فہم ( سجھنا ) سے متعلق یہ آیت کریمہ خصوصی توجہ کی حامل ہے ٬ جس میں حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے آپ کو خطاب کرتے ہوئے گستاخانہ لہجے میں کہا تھا :

قَالُوْا یا شُعَیْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِیْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ وَ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْنَا ضَعِیْفًاۚ وَ لَوْ لَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ٘ وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَیْنَا بِعَزِیْزٍ . ( بولے : اے شعیب ! ہماری سمجھ میں نہیں آتیں تمہاری بہت سی باتیں اور بیشک ہم تمہیں اپنے میں کمزور دیکھتے ہیں اور اگر تمہارا کنبہ نہ ہوتا تو ہم تمہیں پتھراؤ کر دیتے اور کچھ ہماری نگاہ میں تمہیں عزت نہیں )

بعض اہلِ علم نے فقہ کی لغوی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے : الفِقْهُ هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد . فقہ کا لغوی معنیٰ موجود علم سے غائب علم تک پہنچنا ہے اور اصطلاحِ شرع میں احکامِ شرعیہ فرعیہ کو ادلۂ تفصیلیہ سے جاننے کا نام علمِ فقہ ہے ۔ عہد صحابہ و تابعین میں فقؔہ کا لفظ ہر قسم کے دینی احکام کے فہم پر بولا جاتا تھا ٬ جس میں ایمان و عقائد ، عبادات و اخلاقیات ، معاملات ٬ حقوق و فرائض اور حدود سب شامل تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ امام الائمہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے فقہ کی تعریف ” معرفة النفس ما لھا و ما علیھا ” سے کی ہے ۔ یعنی جس علم سے انسان اپنے نفع و نقصان اور حقوق و فرائض کو جان لے ٬ وہ فقہ ہے ۔ بعد میں جب علاحدہ طور پر ہر فن کی تدوین و تقسیم ہوئی تو ” علم الفقہ ” عبادات و معاملات اور معاشرت کے ظاہری احکام کے لیے خاص ہو گیا ۔ علامہ ابن خلدون کے الفاظ میں : فقہ افعالِ مکلفین کی بابت اس حیثیت سے احکامِ الہٰی کے جاننے کا نام ہے کہ وہ واجب ہیں یا محظور ( ممنوع ) ، مستحب اور مباح ہیں یا مکروہ ۔ اس کی مزید وضاحت اس طرح بھی ہوتی ہے کہ فقہ ملکۂ استنباط ٬ قوتِ استخراج اور دینی بصیرت کا نام ہے جس کے ذریعے احکامِ شریعت ، اسرارِ معرفت اور مسائلِ حکمت سے واقفیت ہوتی ہے ٬ نیز اس سے نئے فروعی مسائل کے استنباط اور ان کی باریکیوں کا علم ہوتا ہے ۔ فقہ اور فتاویٰ نویسی کی وسعت و جامعیت کے حوالے سے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں :

فقہ ، علومِ اسلامیہ میں سب سے زیادہ وسیع اور دقیق علم ہے ۔ یہ جہاں ایک طرف قرآن ، حدیث ، اقوالِ صحابہ ، اجتہاداتِ فقہا ، جزئیات و فروع ، راجح و مرجوح اور امت کی واقعی ضروریات کے ادارک کے ساتھ زمانے کے بدلتے حالات کے تناظر میں دین کی روح کو ملحوظ رکھ کر تطبیق دینے کا نام ہے ، وہیں دوسری طرف طہارت و نجاست کے مسائل سے لے کر عبادات ، معاملات ، معاشرت ، آداب و اخلاق اور ان تمام چیزوں کو اپنے اندر سیمٹے ہوئے ہے جن کا تعلق حلت و حرمت اور اباحت یا عدمِ اباحت سے ہے ۔ فتاویٰ کا میدان فقہ سے وسیع تر ہے ۔ اس لیے کہ فتاویٰ میں ایمانیات ، فِرق و ملل ، تاریخ و سیرت ، تصوف و سلوک ، اخلاق و آداب ، عبادات و معاملات ، معاشرت و سیاسیات کے ساتھ قدیم و جدید مسائل کا حل ، اصولی و فروعی مسائل کی تشریح و تطبیق جیسے امور بھی شامل ہوتے ہیں ۔ علامہ میر سید جرجانی جرجانی قدس سرہ فرماتے ہیں :

فقہ کا لغوی معنیٰ ہے متکلم کے کلام سے اس کی غرض کو سمجھنا اور اس کا اصطلاحی معنیٰ ہے : احکامِ شرعیہ کا علم جو دلائلِ تفصیلیہ سے حاصل ہو ۔ ایک قول یہ ہے کہ فقہ اس مخفی معنیٰ سے آگاہ ہونا ہے جس کے ساتھ حکم متعلق ہوتا ہے اور یہ وہ علم ہے جو رائے اور اجتہاد سے حاصل ہوتا ہے اور اس میں غور و فکر کی ضرورت پڑتی ہے ۔ اس لیے اللہ عز و جل کو فقیہ نہیں کہا جاتا ٬ کیوں کہ اس سے کوئی چیز مخفی نہیں ہوتی ۔

( کتاب التعریفات للجرجانی ٬ ص : 168 ٬ باب الفاء ٬ مطبوعہ : دار الكتب العلمية ٬ بیروت )

علامہ ابن عابدین شامی ” فقہ ” کی لغوی و اصطلاحی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : فَالْفِقْهُ لُغَةً الْعِلْمُ بِالشَّيْءِ وَ اصْطِلَاحًا : الْعِلْمُ بِالْأَحْكَامِ الشَّرْعِيَّةِ الْفَرْعِيَّةِ الْمُكْتَسَبُ مِنْ أَدِلَّتِهَا التَّفْصِيلِيَّةِ . یعنی فقہ کا لغوی معنیٰ کسی چیز کو جاننا ہے اور اصطلاح میں ان احکامِ شرعیہ فرعیہ کا جاننا جو اپنے تفصیلی دلائل ( قرآن و سنت ، اجماع اور قیاس ) سے اخذ کیے گئے ہوں ۔

( رد المحتار على الدر المختار ٬ جلد اول ٬ ص : 36 ٬ الناشر : دار الفكر ٬ بيروت )

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا : اَلْعِلْمُ ثَلَاثَةٌ وَ مَا سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ فَضْل : آيَةٌ مُحْكَمَةٌ أَوْ سُنَّةٌ قَائِمَةٌ أَوْ فَرِيضَةٌ عَادِلَةٌ .

بنیادی علم تین ہیں ، ان کے علاوہ زائد چیزیں ہیں : محکم آیت ، صحیح سُنت اور انصاف پر مبنی وراثت کی تقسیم ( یعنی یہ تین علوم اصل ہیں اور باقی ان کی فرع اور ان کی طر ف راجع ہیں ) اس حدیث پاک کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : قرآن و حدیث اور فقہ کے علاوہ تمام علوم ایک مشغلہ ہیں ۔

( فتاویٰ رضویہ ، جلد : 23 ٬ ص : 630 ٬ ناشر : رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ ٬ لاہور )

فقیہ و مفتی :

تحقیق و جستجو اور باہمی مفاہمت ، انسانی زندگی کا ایک اہم عنصر اور بنیادی حصہ ہے ۔ روز ازل سے یہ سلسلہ شروع ہوا اور صبح قیامت تک جاری رہے گا ۔ اسی فہم و مفاہمت ، طلب و دریافت اور تحقیق و جستجو کو علم و فن کی اصطلاح میں ” فقہ و افتا ” سے تعبیر کرتے ہیں اور مسائل شرعیہ میں ان کے ماہرین کو ” فقیہ و مفتی ” کہتے ہیں ۔ فقیہ و مفتی کا اطلاق دورِ قدیم میں مجتہدِ مطلق پر ہوتا تھا ۔ ابتدائی زمانے میں ایسے نو پید مسائل کو فتویٰ کہا جاتا تھا ، جن کے احکام مجتہدین فقہا اپنے اجتہاد سے بیان فرماتے اور اصحابِ مذہب سے ان سے متعلق کوئی روایت منقول نہیں ہوتی ۔ جب مجتہدین فقہا کا زمانہ ختم ہوا اور دورِ تقلید شروع ہوا تو ان مجتہدین کے مستنبط اور اجتہادی مسائل کو عوام الناس سے بیان کرنے اور مسائلِ شرعیہ نقل کرنے کو ” فتویٰ ” سے تعبیر کیا جانے لگا اور جو فقہائے کرام کے مختلف طبقات پر گہری نظر رکھتا ہے اور راجح و مرجوح اور مفتیٰ بہ اقوال میں امتیاز کی صلاحیت و قابلیت رکھتا ہے ، ایسے ناقلِ فتویٰ کو ” فقیہ اور مفتی ” کہا جانے لگا ۔ اس تنوع کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو فقہ و افتا اپنے معنی و مفہوم کے اعتبار سے قریب قریب مساوی ہیں ، ان دونوں کے درمیان زیادہ کوئی خاص فرق نہیں ہے ۔ صرف امتیازی فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ فقہ خاص ہے اور فتاویٰ عام ہے ۔

فقاہت اور فتویٰ نویسی :

فتویٰ نویسی کے لیے فقاہت یعنی علمِ فقہ میں مہارت و حذاقت لازمی ہے ۔ جس طرح بقدرِ ضرورتِ شرعی ” علمِ فقہ ” کا جاننا ضروری ہے ٬ اسی طرح فتویٰ نویسی بھی ضروری ہے اور حد درجہ اہمیت و افادیت کی حامل ہے ۔ اگر فتویٰ نویسی کا سلسلہ موقوف ہو جائے تو امتِ مسلمہ ضلالت و گمرہی اور جہالت و شقاوت کے قعرِ عمیق میں دھنس جائے ۔ اس لیے کسی بھی جہت سے اس کی اہمیت و معنویت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ زمانۂ رسالت میں صحابۂ کرام دینی و شرعی مسائل کے حل کے لیے بارگاہِ نبوت کی جانب رجوع کیا کرتے تھے ۔ حضور معلمِ کائنات فخرِ موجودات ﷺ کے دنیا سے ظاہری وصال کے بعد صحابۂ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین میں سے منتخب اور سر کردہ حضرات نے فتویٰ نویسی کی خدمت انجام دی اور امتِ مسلمہ کی دینی و شرعی رہنمائی فرمائی ۔ افتاء یا فتویٰ نویسی جو در اصل ” ادلّۂ اربعہ کی روشنی میں مسائلِ شرعیہ بتانے کا نام ہے ” اس کی اساس و بنیاد مندرجہ ذیل قرآن کریم کی آیات ہیں :

فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ . ( پس اگر تمہیں معلوم نہ ہو تو علم والوں سے پوچھ لو ) ۔ قرآن کریم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ .( آپ بیان کر دیں لوگوں کے سامنے وہ چیز جو ان کی طرف نازل کی گئی )

فقہ اور فقاہت اس قدر دقیق اور مشکل فن ہے کہ آج کے دور میں حقیقی فقیہ اور حقیقی مفتی کا وجود نا پید ہے ۔ اسی باعث اجلّہ علما و فقہا نے فرمایا کہ فقیہ در اصل مجتہد ہوا کرتے ہیں ۔ آج جن لوگوں کو فقیہ یا مفتی کہا جاتا ہے ٬ وہ در عرفی و رسمی مفتی ہے ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں :

فقہ یہ نہیں کہ کسی جزئیہ کے متعلق کتاب سے عبارت نکال کر اس کا لفظی ترجمہ سمجھ لیا جائے ۔ یوں تو ہر اعرابی ہر بدوی فقیہ ہوتا کہ ان کی مادری زبان عربی ہے بلکہ فقہ بعدِ ملاحظۂ اصول مقررہ و ضوابطِ محررہ و وجوہِ تکلم و طرقِ تفاہم و تنیقحِ مناط و لحاظِ انضباط و مواضعِ یسر و احتیاط و تجنب تفریط و افراط و فرقِ روایات ظاہرہ و نادرہ و تمیزِ در آیات غامضہ و ظاہر و منطوق و مفہوم و صریح و محتمل و قولِ بعض و جمہور و مرسل و معلل و وزن الفاظ مفتین و سیرِ مراتبِ ناقلین و عرفِ عام و خاص و عاداتِ بلاد و اشخاص و حالِ زمان و مکان و احوالِ رعایا و سلطان و حفظِ مصالحِ دین و دفعِ مفاسدِ دین و علمِ وجوہ تجریح و اسبابِ ترجیح و مناہجِ توفیق و مدارکِ تطبیق و مسالکِ تخصیص و مناسکِ تقیید و مشارعِ قیود و شوارعِ مقصود و جمعِ کلام و نقدِ مرام فہم مراد کا نام ہے کہ تطلعِ تام و اطلاعِ عام و نظر دقیق و فکر عمیق و طول خدمت علم و ممارست فن و تیقظِ وافی و ذہنِ صافی معتاد تحقیق مؤید بتوفیق کا کام ہے اور حقیقتاً وہ نہیں مگر ایک نور کہ رب عز و جل بمحض کرم اپنے بندہ کے قلب میں القا فرماتا ہے : و ما یلقٰھا الا الذین صبروا و ما یلقٰھا الا ذو حظ عظیم . ( اور یہ دولت نہیں ملتی مگر صابروں کو اور اسے نہیں پاتا مگر بڑے نصیب والا )

صدہا مسائل میں اضطرابِ شدید نظر آتا ہے کہ نا واقف دیکھ کر گھبرا جاتا ہے ٬ مگر صاحبِ توفیق جب ان میں نظر کو جولان دیتا اور دامنِ ائمۂ کرام مضبوط تھام کر راہِ تنقیح لیتا ہے توفیقِ ربانی ایک سر رشتہ اس کے ہاتھ رکھتی ہے جو ایک سچا سانچا ہو جاتا ہے کہ ہر فرع خود بخود اپنے محمل پر ڈھلتی ہے اور تمام تخالف کی بدلیاں چھٹ کر اصل مراد کی صاف شفاف چاندنی نکلتی ہے ٬ اس وقت کھل جاتا ہے کہ اقوال سخت مختلف نظر آتے تھے حقیقتاً سب ایک ہی بات فرماتے تھے ۔ الحمد ﷲ فتاوائے فقیر میں اس کی بکثرت نظیریں ملیں گی و للہ الحمد تحدیثا بنعمۃ ﷲ و ما توفیقی الا باﷲ و صلی ﷲ تعالی علی من امدنا بعلمہ و ایدنا بنعمہ و علی الہ و صحبہ و بارک و سلم آمین و الحمد ﷲ رب العلمین ۔

( فتاویٰ رضویہ ٬ جلد : 16 ٬ ص : 376 / 377 ٬ ناشر : رضا فاونڈیشن ٬ لاہور )

فتاویٰ نویسی کے شرائط و آداب :

فتویٰ نویسی نہایت اہم ، باوقار اور ایک ذمہ دارانہ عمل ہے ۔ اس مہتم بالشان مقام و منصب پر ہر کس و ناکس کو فائز کیا جا جاتا اور نہ ہر ایک کو فتویٰ دینے کی اجازت حاصل ہے ۔ بڑے سے بڑا عالم اور درس نظامی کا دقاق فاضل بھی فتویٰ دینے کا مُجاز نہیں ہے ۔ فقہائے کرام نے اس کے لیے کڑی شرطیں رکھی ہیں اور اس کے اصول و آداب مقرر کیے ہیں جو حد درجہ دشوار ہیں اور یہ اصول و شرائط بہت کم لوگوں میں پائے جاتے ہیں ۔ مفتی کی حیثیت شارع کے نائب کی ہوا کرتی ہے ، جو پوری تحقیق و تفحّص اور کامل غور و خوض کے بعد دلائلِ شرعیہ کی روشنی میں سائل کے سوالات کا شرعی جواب دیتا ہے اور دینی معاملات میں لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا ہے ۔ اسی اہمیت کے پیش نظر فقہائے کرام نے فتویٰ نویسی کے مندرجہ ذیل اصول و شرائط مقرر کیے ہیں ۔ ان اصول و شرائط کی روشنی میں ہم آج کے ان مفتیان کرام کا حال بخوبی معلوم کر سکتے ہیں جو زبردستی منصبِ افتا پر بیٹھ گئے ہیں اور غلط سلط فتویٰ دے کر لوگوں میں افتراق و انتشار کا ماحول پیدا کر رہے ہیں ۔

( 1 ) مفتی کے سامنے جو سوال پیش کیا جائے اسے بغور سنے ، پڑھے ۔ سوال کا منشا کیا ہے ؟ اسے سمجھنے کی کوشش کرے ۔ ضرورت ہو تو سائل سے مخفی گوشوں کے تعلق سے وضاحت بھی طلب کرے ۔

( 2 ) سوال تفصیل طلب ہو اور الگ شقوں کو جواب دینے میں یہ احتمال ہو کہ سائل اپنے لیے اس شق کو اختیار کر لے گا جس میں اس کا نفع ، یا سرخروئی یا عافیت ہو ، گو کہ اس کا معاملہ اس شق سے وابستہ نہ ہو تو اپنی طرف سے شق قائم کر کے جواب نہ دے ، بلکہ تنقیح کے ذریعے صورتِ واقعہ کی تعیین کرے اور پھر جواب دے ۔

( 3 ) جواب میں سوال کی مناسبت سے جتنے جزئیات مل سکیں سب پر اچھی طرح غور کر لے ، جو جزئیہ سوال کے مطابق ہو اسی کو نقل کرے ۔

( 4 ) جواب مذہب کی کتبِ معتمدہ مستندہ سے دے ۔ کتبِ ضعیفہ سے استناد نہ کرے ۔

( 5 ) پیش آمدہ سوال کے تعلق سے جزئیات دو طرح کے ہوں ، یا ایک ہی جزئیہ میں دو طرح کے احتمالات ہوں تو اصحابِ ترجیح میں سے کسی فقیہ نے جس قول ، یا جس احتمال کو ترجیح دیا ہو ، اسے اختیار کرے ۔

( 6 ) اور اگر ترجیح بھی مختلف ہو تو اصحابِ تمیز نے فتاویٰ کے لیے جسے اختیار فرمایا ہو ، اس پر فتویٰ دے ۔ اگر وہ مفتیٰ بہ قول کی دریافت سے عاجز ہو تو اپنے سے افقہ کی طرف ( سائل کو ) رجوع کرنے کا حکم دے ، یا خود رجوع کرے ۔ یہ بھی ممکن نہ ہو تو توقف کرے کہ اب جواب دینا فتویٰ نہیں ” طغویٰ ” ہوگا ۔

( 7 ) جواب تمام ضروری گوشوں کو محیط ہو ۔ اس کے لیے وسعتِ مطالعہ ، استحضار اور تیقّن نا گزیر ہے ۔

( 8 ) جواب کا تعلق کسی دشواری کے حل سے ہو اور حل مختلف ہو تو جواب میں اس حل کو اختیار کرے جو قابلِ عمل ہو اور جو حل کسی وجہ سے قابلِ عمل نہ ہو تو اس کا ذکر عبث ہوتا ہے ۔

( 9 ) مفتی کو بیدار مغز ، ہو شیار ہونا چاہیے ۔ غفلت برتنا اس کے لیے درست نہیں ۔ کیوں کہ اس زمانے میں اکثر حیلہ سازی اور ترکیبوں سے واقعات کی صورت بدل کر لوگ فتویٰ حاصل کر لیتے ہیں اور دوسروں کے سامنے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ فلاں مفتی نے مجھے فتویٰ دیا ۔ محض فتویٰ ہاتھ میں ہونا ہی اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں ، بلکہ مخالف پر اس کی وجہ سے غالب آ جاتے ہیں ۔ اس کو کون دیکھتا ہے کہ واقعہ کیا تھا اور سوال میں کیا ظاہر کیا گیا تھا ۔

( 10 ) مفتی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ بردبار ، خوش خلق ، ہنس مکھ ہو ۔ نرمی سے بات کرے ۔ غلطی ہو جائے تو ( اپنا قول و فتویٰ ) واپس لے ۔ اپنی غلطی سے رجوع کرنے میں کبھی دریغ نہ کرے ۔ یہ نہ سمجھے کہ مجھے لوگ کیا کہیں گے کہ غلط فتویٰ دے کر رجوع نہ کرنا ، حیا سے ہو یا تکبر سے ، بہر حال حرام ہے ۔

( 11 ) ان تمام امور کے ساتھ ایک امرِ لازم یہ بھی ہے کہ جامعِ شرائطِ فتویٰ ، ماہر مفتی کی خدمت میں شب و روز حاضر رہ کر افتا کی تربیت حاصل کرے ، جد و جہد کا خوگر بنے اور کثرتِ مشق و مزاولت سے خود مندرجہ بالا امور کا ماہر بنے ……. جو عالمِ دین ان اوصاف و شرائط کا جامع ہو ، وہی نقلِ فتویٰ ( فتوی دینے ) کا اہل ہے اور وہی قابلِ اعتماد و لائقِ استناد مفتیِ ناقل ہے اور اس کے فتاویٰ اس سے نیچے درجے کے علما کے لیے حجت اور واجب العمل ہیں ۔

( فقہ اور افتا کی تدوین و تاریخ ، ص : 52 تا 54 ٬ ناشر : اشرفیہ اسلامک فاؤنڈیشن ٬ حیدر آباد )

علم ٬ فقہ و افتا اور فتاویٰ نویسی سے متعلق ان طویل ابحاث کے بعد اب اصل موضوع پر آتے ہیں ۔ زیرِ نظر علمی و تحقیقی کتاب ” فتاویٰ عثمانیہ ٬ جلد سوم ” مندرجہ ذیل پچیس ( 25 ) موضوعات و عناوین پر مشتمل ہے اور ہر موضوع کے تحت درجنوں مسائل درج ہیں ٬ جن کے مطالعے سے مصنف ( مفتی صاحب ) کی وسعتِ علمی اور دقتِ نظری کا اندازہ ہوتا ہے :

( 1 ) عقائد کا بیان ( 2 ) طہارت کا بیان ( 3 ) حوض کا بیان ( 4 ) اذان و اقامت کا بیان ( 5 ) نماز کا بیان ( 6 ) امامت کا بیان ( 7 ) جماعت کا بیان ( 8 ) جمعہ کا بیان ( 9 ) نفل اور تراویح کا بیان ( 10 ) احکام مسجد کا بیان ( 11 ) مسافر کا بیان ( 12 ) جنازہ کا بیان ( 13 ) زکوٰۃ وصدقات کا بیان ( 14 ) حج و عمرہ کا بیان ( 15 ) قربانی کا بیان ( 16 ) ذبح کا بیان ( 17 ) نکاح کا بیان ( 18 ) بد مذہبوں سے نکاح کا بیان ( 19 ) طلاق کا بیان ( 20 ) عدت کا بیان ( 21 ) تجارت کا بیان ( 22 ) سود کا بیان ( 23 ) وقف کا بیان ( 24 ) متفرق مسائل کا بیان ( 25 ) وراثت کا بیان ۔

کتاب کے آخر میں شامل مختلف علوم و فنون کی 123 / کتب کے حوالہ جات سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح سمندر کو کوزے میں بند کیا گیا ہے اور تقریباً تین سو ( ۳۰۰ ) صفحات پر مشتمل کتاب کو دلائل و براہین سے مزین کر کے اہلِ ذوق کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے ۔ عقائد و ایمانیات ٬ دینی مسائل ٬ احکامِ شرعیہ ٬ جدید فقہی مباحث اور عبادات و معاملات سے متعلق سینکڑوں مسائل ہیں جو ” فتاویٰ عثمانیہ ” میں درج ہیں ۔ یہ کتاب نہ عوام و طلبہ بلکہ علما و اساتذہ کے لیے بھی مفید اور کار آمد ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے لائبریریوں کی زینت بنائی جائے اور اس کے مندرجات سے خوب خوب استفادہ کر کے اپنی معلومات میں اضافہ کیا جائے ۔

دار العلوم سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سرخیز ٬ احمد آباد ( گجرات ) کے زیرِ اہتمام شائع ہونے والا یہ عظیم فقہی سرمایہ اہلِ علم اور بالخصوص اربابِ فقہ و افتا کے لیے کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں ۔ اہل سنت کا یہ مؤقر اور ممتاز ادارہ 2003 ء سے پورے اخلاص اور جانفشانی کے ساتھ دین و سنیت اور علم و روحانیت کے فروغ کا کام انجام دے رہا ہے ۔ اس کے بہت سارے امتیازات و تفردات ہیں جو اس کو دیگر علمی اداروں سے ممیز و ممتاز کرتے ہیں ۔ الحمد للہ ! راقم الحروف دو سال قبل 2022 ء میں بحیثیتِ ممتحن اس ادارے میں شرکت کا اعزاز حاصل کر چکا ہے اور اس کے تعلیمی معیار ٬ تربیتی نظم و نسق اور پاکیزہ ماحول سے کافی متاثر ہے ۔ حفظ و قرأت اور درسِ نظامی کے علاوہ گذشتہ سالوں سے یہاں ” تخصص فی الفقہ ” کا شعبہ بھی قائم ہے ٬ جہاں طلبۂ علومِ اسلامیہ کو فتویٰ نویسی کی فکری و عملی ٹریننگ بھی دی جا رہی ہے ۔ اللہ رب العزت اہلِ سنت کے اس عظیم قلعہ کی حفاظت فرمائے اور اسے مزید استحکام و ترقی بخشے ۔

بڑی نا سپاسی ہوگی اگر اس موقع پر ادارہ کے محسنین کو فراموش کر دیا جائے اور ان کی ہمہ جہت خدمات کا اعتراف نہ کیا جائے ۔ اس ادارے کے محسنِ اعظم اور صوبۂ گجرات کی مشہور روحانی شخصیت ٬ پیرِ طریقت ٬ رہبرِ شریعت ٬ قطبِ زماں ٬ عارفِ باللہ حضرت الحاج شاہ محمد عثمان سرکار نقشنبدی مجدی رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کے جامعِ شریعت و طریقت ٬ مایۂ ناز عالم و صوفی ٬ شیخ و مرشد ٬ صاحبِ زہد و تقویٰ ٬ دین و مذہب کے بے لوث داعی و مبلغ ٬ اخلاص پیشہ بزرگ اور قوم و ملت کے محسن و پیشوا تھے ۔ آپ کی گراں قدر دینی و ملی ٬ علمی و روحانی اور سماجی و معاشرتی خدمات قابلِ قدر اور لائقِ رشک ہیں ۔ آپ نے اپنی حیات کا ایک ایک لمحہ دین و سنیت کے فروغ و استحکام میں صرف کر کے نئی نسلوں کو پیغامِ فکر و عمل دیا ہے ۔ دین و مذہب کی خاطر آپ قربانیاں نا قابلِ فراموش ہیں ۔ صوبۂ گجرات اور بالخصوص احمد آباد کی دھرتی ہمیشہ اس مردِ قلندر کی وسیع و ہمہ گیر خدمات پر ناز کرے گی ۔ مسلم معاشرے سے وہابیت و رافضیت کے جراثیم کو پاک کر کے آپ نے دین و سنیت کا اجالا پھیلایا اور جگہ جگہ مساجد و مدارس اور مکاتب کا جال پھیلا کر اسلام و سنیت کا بول بالا فرمایا ۔ آپ بلا مبالغہ علم و عرفان ، فہم و فراست ، تعلیم و تحقیق ، یقیں محکم ، سعیِ پیہم ، جہدِ مسلسل ، حرارتِ ایمانی و قندیلِ روحانی کے حامل بزرگ تھے ٬ جس کے ایک ایک پہلو پر تفصیل سے بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے ۔ اللہ رب العزت آپ کے فیضان سے ہم سب کو مالا مال فرمائے اور آپ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق ارزاں فرمائے آمین !

حضور سرکار عثمان شاہ نقشبندی مجددی کے صاحب زادۂ والا تبار ٬ پیکرِ علم و حکمت ٬ مخزنِ روحانیت ٬ صاحبِ لوح و قلم ٬ نبّاضِ قوم و ملت ٬ حضرت علامہ الحاج ڈاکٹر محمد صادق قریشی نقشبندی مجدّدی عثمانی حفظہ اللہ الباری ( ناظمِ اعلیٰ دار العلوم ہٰذا ) کی پُر عزم قیادت و سرپرستی میں یہ ادارہ دن بدن تعمیر و ترقی کے مراحل طے کر رہا ہے اور اس کے تعلیمی و تربیتی نظام بہتر اور عوام و خواص کے لیے باعثِ کشش بنا ہوا ہے ۔ اللہ رب العزت آپ کو صحت و سلامتی والی لمبی زندگی عطا فرمائے اور آپ کی دینی و ملی خدمات کو شرفِ قبولیت بخشے ۔ آمین !

جامعِ معقول و منقول ٬ مصلحِ قوم و ملت ٬ استاذ العلماء حضرت علامہ محمد اسلم عثمانی نقشبندی دام ظلہ العالی ( پرنسپل دار العلوم حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ) کی محنتِ شاقہ اور مخلصانہ جد و جہد نے اس ادارے کو بامِ عروج پر پہنچایا ہے ۔ اس ادارے کے فروغ و استحکام میں علامہ اسلم عثمانی دام ظلہ العالی کے کارناموں اور جانفشانیوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ اس گلشنِ علم و ادب کی آبیاری و شادابی میں آپ کا خونِ جگر شامل ہے ۔ علامہ اسلم عثمانی صاحب قبلہ کا شمار شہرِ بھاگل پور کے مایۂ علما و مدرسین میں ہوتا ہے ۔ آپ پیکرِ علم و ادب ٬ مجسمۂ اخلاق و کردار اور اصول پسند عالم ہیں ۔ گذشتہ چار دہائیوں سے صوبۂ گجرات میں دین و دانش اور فروغِ اہل سنت کی خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ علم پرور ٬ علما نواز اور مخلص انسان ہیں ۔ حضور سرکار عثمان شاہ علیہ الرحمہ کے دست و بازو بن کر آپ نے اس ادارے کو پروان چڑھایا ہے اور اسے شہرت و مقبولیت کے نقطۂ انتہا پر پہنچایا ہے ۔ افسوس کہ آپ گذشتہ کئی ماہ سے شدید بیمار ہیں ۔ اللہ رب العزت حضراتِ پنجتن پاک کے صدقے آپ کو شفائے کاملہ عاجلہ عطا فرمائے اور عمرِ خضر عطا فرمائے آمین !

از قلم : طفیل احمد مصباحی

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے