ازقلم: عبدالرشید امجدی ارشدی دیناجپوری
رکن سنی حنفی دارالافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال
رابطہ نمبر: 7030 786 828
قربانی کے ایاّم اور وقت
قربانی کے تین دن یعنی دس، گیارہ اور بارہ ذوالحجہ ہیں،
قربانی کا وقت دسویں ذوالحجہ کے دن صبح صادق کے طلوع ہونے سے بارھویں ذوالحجہ کا سورج غروب ہونے تک ہے،
یہ تین دن اور دوراتیں ہیں اور ان کو ایام نحر کہتے ہیں،
ان دوراتوں میں بھی قربانی ہوسکتی ہے، لیکن رات کے وقت ذبح کرنا مکروہ ہے،
سب سے افضل دس ذوالحجہ پھر گیارہ اور بارہ تاریخ ہے ۔
نمازِ عید کے بعد قربانی کرنا
اگر قربانی دیہات میں کی جارہی ہو تو چونکہ وہاں عید کی نماز نہیں ہوتی اس لیے صبح صادق کے بعد کی جاسکتی ہے اور اگر شہر میں ہو تو جب تک شہر میں کسی ایک مقام پر نماز عید نہ پڑھی جائے قربانی کرنا جائز نہیں،
امام کے سلام پھیرنے سے پہلے جو قربانی کی گئی وہ ادا نہیں ہوئی۔
کون ذبح کرے؟
قربانی کرنے والا اچھی طرح ذبح کرسکتا ہو تو خود ذبح کرے ورنہ وہاں موجود رہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خاتون جنت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو قربانی کے جانور کے پاس کھڑے ہونے کا حکم فرمایا تھا، قربانی کا جانور مسلمان سے ذبح کرایا جائے کسی مشرک سے ذبح کرایا تو وہ مُردار ہے اور قربانی نہیں ہوگی۔ اسی طرح اہلِ کتاب (یہود ونصاریٰ) سے ذبح کرانا بھی مکروہ ہے۔آج کے زمانے میں یہود ونصاریٰ مشرکانہ عقائد رکھتے اور مشرکانہ رسومات کا ارتکاب کرتے ہیں لہٰذا ان سے ذبح نہ کرایا جائے،
قربانی کے دنوں میں پیسے کمانے کی خاطر قصاب یا غیر قصّاب، مسلمان یا غیر مسلم سب ہی ہاتھ میں آلات ذبح وغیرہ(چھری، بغدے)لے کر گھومتے پھرتے ہیں۔ اچھی طرح تحقیق کیجئے کہ قصاب مسلمان ہو اور صحیح العقیدہ مسلمان ہو، بد عقیدہ مثلاً قادیانی، نجدی، وہابی اور دیوبندی نہ ہو۔ ذبح کرنے وا لے کے لیے ضروری ہے کہ وہ بلند آواز سے تکبیر پڑھے، اگر مالک نے بھی ساتھ ہی چھُری پر ہاتھ رکھاتو اُسے بھی ’’بسم اللّٰہ اللّٰہ اکبر‘‘ کہنا پڑے گا۔
جان بوجھ کر چھوڑنے سے جانور حلال نہ ہوگا۔ اگر قربانی نہ کرسکے: جس آدمی پر قربانی واجب تھی اگر وہ کسی وجہ سے قربانی نہ کرسکا اور قربانی کے دن (دس، گیارہ اور بارہ ذوالحجہ)نکل گئے تو جو جانور قربانی کے لیے خریدا تھا اسے صدقہ کردے اور اگر جانور نہیں خریدا تو ایک بکری کی قیمت صدقہ کرے۔
قربانی کا گوشت
قربانی کا بنیادی رکن خون بہانا یعنی جانور ذبح کرنا ہے، لہٰذا جب جانور کے گلے پر چھُری پھیر دی اور وہ ذبح ہوگیا تو واجب ادا ہوگیا۔ اس کے بعد گوشت اور کھال وغیرہ کی حیثیت دوسرے درجہ کی ہے اس لیے تمام گوشت گھر میں بھی رکھا جاسکتا ہے، لیکن قربانی کا تقاضا یہ ہے اور یہی مستحب ہے کہ اپنی خواہشات کو بھی قربان کیا جائے اور گوشت کے تین حصے کرکے ایک حصہ گھروالوں کے لیے رکھا جائے اور ایک حصہ غرباء اور مساکین لوگوں میں تقسیم کیا جائے اور ایک حصہ دوست احباب کو بھیجا جائے۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ قربانی کے گوشت کو دُنیوی مقاصد کی خاطر بطور رشوت استعمال کیا جاتا ہے اچھا اچھا گوشت افسروں اور امراء، وزراء اور اس قسم کے لوگوں کو دیا جاتا ہے اس قسم کا طریقہ قربانی کی روح کے منافی ہے، لہٰذا امراء اور غرباء کی تفریق مناسب نہیں بلکہ غرباء کا زیادہ خیال رکھنا چاہئے، اگر اہل وعیال اور اعزّاء واقارب زیادہ ہوں تو تمام گوشت ان کے لیے بھی رکھا جاسکتا ہے۔
شُرکاء میں گوشت کی تقسیم
اگر گائے یا اُونٹ وغیرہ میں ایک سے زائد افراد شریک ہوں اور عام طور پر سات افراد شریک ہوتے ہیں، تو اس صورت میں تمام گوشت اکٹھا کردیا جائے اعلیٰ اور ادنیٰ کی تفریق نہ کی جائے، پھر وزن کرکے برابر تقسیم کیا جائے، محض اندازے سے تقسیم کرنا جائز نہیں اور یہ کہنا کہ اگر کسی کو زائد چلاگیا تو معاف کردیں گے،
صحیح نہیں۔ وزن کرکے برابر تقسیم کرنے کے بعد اپنے اپنے حصے میں سے کسی دوسرے کو دینے پر کوئی پابندی نہیں۔
قربانی کی کھال
قربانی کا چمڑا اپنے کام میں لایا جاسکتا ہے لیکن اسے بیچ کر اس کی رقم خود نہیں رکھ سکتے یعنی چمڑے کی کوئی چیز مصلے وغیرہ بناکر استعمال کرسکتے ہیں اگر اسے بیچ دیا تو اس کی رقم صدقہ کرنا ہوگی۔ قربانی کی کھال یا اسے بیچ کر اس کی رقم غرباء اور مساکین کو دی جائے۔ خدمت خلق کے ادارے بالخصوص دینی تعلیمی ادارے اس کھال کے زیادہ مستحق ہیں کہ یہ صدقہ جاریہ ہے علم دین کی تدریس، اشاعت اور تبلیغ پر مدد کرنا ہے۔ جانور کی رسییا کپڑا جو جانور پر ڈالا گیایا اس کے گلے کا ہار وغیرہ بھی صدقہ کرنا ہوگا۔ قربانی کی کھالیں مساجد کو بھی دی جاسکتی ہیں۔ قصاب کی اُجر ت: قربانی کی کوئی چیز مثلاً چمڑا، گوشت وغیرہ کچھ بھی قصاب کو اُجرت میں نہیں دے سکتے اسے الگ اُجرت دی جائے، البتہ وہ غریب ہونے کی وجہ سے مستحق ہو تو اس وجہ سے اسے کھال دینا جائز ہے لیکن اُجرت میں دینا جائز نہیں۔ جانور سے نفع حاصل کرنا: ذبح سے پہلے قربانی کے جانور کے بال اپنے کسی کام کے لیے کاٹ لینایا دُودھ دوہنا مکروہ اور منع ہے۔ اسی طرح اس پر سوار ہونا، کوئی چیز لادنا یا کرایہ پر دینا بلکہ کوئی بھی نفع حاصل کرنا جائز نہیں۔ اگر اُون کاٹییا دودھ دوہا یا کرایہ پر دیا تو یہ سب کچھ صدقہ کردے۔
قربانی کے جانور کا بچہ
قربانی کے لیے جو جانور خریدا اگر قربانی سے پہلے اس کا بچہ پیدا ہوجائے تو اسے بھی ذبح کردے،اور اگر اس بچے کو بیچ دیا تو وہ رقم صدقہ کرے اگر ذبح نہ کیا اور قربانی کے دن گزر گئے تو اس بچے کو صدقہ کردے۔قربانی کا جانور ذبح کیا اور اس کے پیٹ سے بچہ نکل آیا تو اسے بھی ذبح کردیا جائے اگر مرا ہوا ہو تو پھینک دیا جائے۔ جانور مخلوط ہوجائیں: دویا تین آدمیوں نے قربانی کے لیے بکریاں خریدیں، اب یہ پتا نہیں چل رہا کہ کس کی کون سی بکری ہے ؟، تو ایک دوسرے کو وکیل بنادیں اس طرح سب کی طرف سے قربانی ہوجائے گی۔
چاند دیکھنے کے بعد حجامت نہ بنوانا
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس نے ذوالحجہ کا چاند دیکھا اور اس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے تو جب تک قربانی نہ کرے بال اور ناخنوں سے نہ لے (یعنی نہ کاٹے)‘‘۔ لہٰذا قربانی کرنے والے کے لیے مستحب ہے کہ چاند دیکھنے کے بعد قربانی کرنے تک حجامت بھی نہ بنوائے اور ناخن بھی نہ کاٹے۔
غریبوں کی قربانی
حدیث شریف کے مطابق جس شخص کے پاس قربانی کے لیے جانور نہ ہو یعنی وہ قربانی کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ ذوالحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد نہ حجامت بنوائے نہ ناخن کٹوائے بلکہ عید کے روز نماز عید سے فراغت کے بعد حجامت بنوائے اور ناخن کا ٹے تو اسے قربانی کا ثواب مل جائے گا۔
بارگاہ رسالت میں صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر کوئی فقیر ہو اور قربانی کی طاقت نہ رکھتا ہو تو کیا کرے ؟ تو حبیب ِخدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ نماز ِعید کے بعد گھر میں دو رکعت نفل پڑھے، ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد سورہ کوثر تین مرتبہ پڑھے، تو اللہ جل شانہٗ اس کو اونٹ کی قربانی کا ثواب عطا فرمائے گا۔
جانور کی اچھی طرح خدمت کریں، قربانی سے پہلے اسے خوب کھلائیں پلائیں،
اور جب ذبح کرنے لگیں تو بھی چارہ اور پانی دیں،
چھُری تیز کریں لیکن جانور کے سامنے تیز نہ کریں۔
جب عید الاضحیٰ کی نماز ہوجائے یعنی کسی ایک جگہ ہوجائے تو اب اس کی قربانی کریں،
اگر پہلے دن نہ ہوسکے تو دوسرے دن کرلیں ورنہ تیسرے دن کریں۔
رات کے وقت قربانی نہ کریں۔
اپنے ہاتھوں سے ذبح کریں،
اگر ایسا نہ ہوسکے تو اس کے پاس کھڑے رہیں
ذبح کرنے کے لیے جانور کو بائیں پہلو پر لٹائیں اور اس کا رخ قبلہ کی طرف کریں اپنا دایاں پاؤں اس کے پہلوپر رکھیں اور تیز چھری سے جلدی جلدی ذبح کردیں۔