تحریر: محمد ساجد رضا قادری رضوی کٹیہاری
امام جامع مسجد کاٹے پلی پٹلم بانسواڑہ ضلع کماریڈی
موبائل نمبر 7970960753
دنیا میں ہرانسان آدم کی اولاد ہے،کوئی بندر کی نسل سے نہیں،نیوٹن کا خیالی پلاؤبڑے بڑے دانشوروں نے صدیوں مزے لے لے کر کھایا،مگرکبھی تو اسے بدمزہ ہوناہی تھا،آخر کب تک الٰہی معلومات کے روبرو ٹکتا،لہذا مذہبی معلومات کی روشنی میں نیوٹن کا انسانی نظریہ ارتقاء فرسودہ ومفروضہ ثابت ہوگیا،اور مذہبی نظریہ کو قبول دوام حاصل ہوا،کہ انسان شروع سے ہی انسان ہے،اس کی کبھی دم تھی اور نہ ہی مرور ایام سے اس کی دم گھس کر غائب ہوئی۔
دنیاکا پہلاانسان حضرت آدم علیہ السلام تھے،اللہ عزوجل نے ان کو بن ماں باپ کے پیدا فرمایا،اور ان سے نسل انسانی کی افزائش ہوئی ،اور ملکوں ملکوں میں آباد ہوئیں،حضرت آدم ابتداہی سے علم ومعلوم کے گنجینہ رہے،کہاجاتا ہے کہ سات لاکھ زبانوں کا علم انہیں حاصل تھا،کپڑے بننے اوراسے سینے کاہنرجانتے تھے،فن جراحت وفلاحت سے واقف تھے،غرض کہ خوشحال انسانی زندگی سے متعلق ان تمام ضروری علوم وفنون کوکام لاناجانتے تھے۔
حضرت آدم کے تعلق سے تورات وانجیل یعنی موجودہ بائیبل اور دیگر دعویدار کتب آسمانی بہ نسبت قرآن کریم کے بہت ہی کم معلومات فراہم کرتی ہے،تخلیق آدم کی غرض وغایت کی جانب اشارہ تک نہیں کرتی،سوائے قرآن کریم کے ،لہذاتخلیق آدم کے سربستہ راز سے قرآن نے پردہ اٹھایا،،وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ،،(سورہ ذٰریات آیت نمبر 56)اور میں نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں۔
اس لئے اس کے مذہب کی بابت بھی سب سے زیادہ معلومات ہمیں قرآن کریم ہی سے ملتی ہے،اہل ہند کے قصے وکہانیوں کی نیم مذہبی معتبر کتب میں سے بھوشیہ پران میں حضرت آدم کو واضح طور پر ،،ملیچھوں کا آدی پرش،،یعنی مسلمانوں کاجدامجدقرار دیا ہے،اور یہی وجہ ہے کہ قرآن وسنت میں آدم علیہ السلام کو دنیاکاپہلاانسان قرار دینے کے ساتھ ساتھ اسلام کا پہلا نبی اور اللہ تعالی کا زمین پر خلیفہ بھی قرار دیاہے،،وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰئِکَۃِ اِنّیِ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ،،اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا میں زمین میں اپنانائب بنانے والاہوں۔(کنزالایمان)
مذکورہ بالادلائل وشواہدسے واضح اور روشن ہو گیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کا دین،، اسلام ،،تھا،اسی طرح ان کے بیٹے شیث علیہ السلام بھی اسلام کے دوسرے پیغمبر قرار پائے،ادریس اور نوح ،ابراہیم وموسی اور عیسی علیہم السلام تک تمام رسولوں کادین اسلام تھا،اس دین کی ابتداحضرت آدم سے ہوئی تھی،جس کی تکمیل خاتم پیغمبراں، وجہ کن فیکون ،سیدالانبیاء جناب محمدرسول اللہ ﷺ کی ذات پر ہوئی،،اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا،،(قرآن سورہ مائدہ ) آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔ (کنزالایمان)
چنانچہ کچھ کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہ السلام تھے،اور ابھی اوپر مذکور ہوگیاکہ ان کا دین،، اسلام ،،تھا،اور ان میں سے تقریباً تین سو تیرہ رسلان عظام پر کتب آسمانی بھی نازل ہوئیں،سابقہ امتیں ان کتب کی حفاظت نہ کرسکییں،تحریف وترمیم کردی،یا نابود ہوگئیں،اور یوں اصل دین اسلام سے اپناناطہ توڑ لیا،یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں مذاہب بکثرت پھیل گئیں،برتقدیر اگر سابقہ انبیاء علیہم السلام کی امتیں اپنے نبیوں کی برگزیدہ اسلامی شاہراہ سے نہ ہٹتی ،تو قطعی طور پر دنیابھر کے تمام انسانوں کا مذہب ایک ہی ہوتا۔جیسا کہ آدم سے لیکر ادریس تک اور حضرت نوح سے لیکر نمرود کی بت پرستی کے آغاز کرنے تک،یہ دوادوار ایک ہی ملت ،یعنی ملت اسلامی ،،پر گزری ہے،یوں ہی تمام انسان آج تک ایک ہی ملت پر ہوتے۔لیکن بہت سے مذہب وملت میں بٹنے کے باوجود ان میں بہت سی تعلیمات مشترک ہیں۔جن میں سے ایک قربانی کاتصور ہے،جو آسمانی کتابوں میں حذف واضافہ کے باوجود نہ مٹ سکا،اور متنوع صورت وشکل میں اقوام ومذاہب کے درمیان باقی رہ گئیں،جسے آج تک سرانجام دیتے ہوئےآرہے ہیں۔
لہذا اسلام میں قربانی کاتصور تو حضرت آدم کے زمانے سے موجود ہے،قصہ ہابل وقابل کاپس منظر شاہد عدل ہے،حضرت نوح علیہ السلام کی بارگاہ خداوندی میں شکرانے کی قربانی نذرگزارنے کی دلیل توریت میں موجود ہے،اسی طرح کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہم السلام نازل ہوئے ،ہر ایک نے دین اسلام پر قائم رہتے ہوئے قربانیاں دیں،لکن جس قربانی کو ہم سنت سمجھ کر آج تک انجام دیتے آئے،وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی نشانی ہے،،وَفَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ ،وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْآخِرِیْنَ ،،سَلٰمٌ عَلٰۤی اِبْرَاہِیْمَ(سورہ الصافات آیت107/108/109)اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے صدقہ میں دے کر اسے (اسماعیل کو)بچا لیا،اور ہم نے پچھلوں میں اس کی تعریف باقی رکھی ،سلام ہو ابراہیم پر(کنزالایمان)اورآقاعلیہ اسلام نے فرمایا،،سنت ابیکم ابراہیم،،(ابن ماجہ)
چنانچہ موسوی وعیسوی ،زردشتی ،سامی اور غیرسامی مذاہب کی کتب میں تغیروتبدل اور محرف ہونےکے باوجود قربانی کا تصور موجود ہے،وید ک دھرم جوکہ کسی قدیم آسمانی کتب کا اخذکردہ یاترمیم شدہ مذہب ہے،اس میں بھی قربانی کاذکر موجودہے، بلکہ یجروید کے چوبیس ویں ادھیائے جانوروں، چرندوں اور پرندوں کی قربانی کے لئے مختص ہے، کون سا جانور کس دیوتا کی قربانی کے لئے ہے،اس کی قدرتفصیل معلوم کرنے سے پیشتربھگوت گیتا کے تصدیقی اشلوک31/ 32
ملاحظہ
کیجئے۔
نایم لوکو ،ستییجنسیہ کتو ،نیع کرستم
ترجمہ ازکرشن کرپامورتی :اے کورو خاندان میں برگزیدہ ! بغیر قربانی کے کوئی اس سیارے پر یااس زندگی میں کبھی خوش نہیں رہ سکتا :تو پھر آئندہ کا کیا کہنا؟
ایوم بہہ ۔ودھا یجنا وتتا بر ہمنو مکھے
کرم ۔جان ودھ تان سروان ایوم جنا توا وموکشیشے
ترجمہ کرشن کرپامورتی: ویدوں میں ان تمام مختلف قسم کی قربانیوں کا بیان ہے،اور یہ تمام مختلف اقسام کے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔ان کے علم (وعمل)سے تم نجات پاجاؤگے۔ بھگوت گیتا اصلی صورت میں جلد اول ص 373
یجروید میں مختلف اقسام ورنگت کی گائے بیل مختلف دیوتا کے لئے مقرر ہے،نمونہ کے لئے ملاحظہ کیجئے۔منتر نمبر (1)میں ہے۔،،بغیربہار آئے ،،کے سانڈ سے جفتی کرکے حمل اسقاط کرنے والی گائے کا اور چھوٹے قد اور ٹیڑھے ترچھے اعضاءؤں والے پشوکا دیوتا وشنو ہے۔منتر نمبر (5)میں ہے۔نامعلوم بھیڑ اور دھارن کرنے کے لائق ایک ہی رنگ والی چھوٹی چھوٹی بچھڑیاں ودوانوں کی استریوں کے لئے جاننی چاہئے۔منتر نمبر (8)میں ہے۔چھوٹے قد والے بیلوں کا دیوتا سوم اور اگنی ہے۔بانجھ گائے کا دیوتا متر اور ورون ہے،ادھر ادھر سے ہاتھ لگی ہوئی گائے کا دیوتا متر ہے۔
(یجروید ادھیائے چوبیس 24 ،،سوامی دیانند کے بھاش سے،،مترجمہ غازی محموددھرمپال بی اے)
یجروید کے منتروں میں جومبہم طور پرمذکور ہے کہ فلاں پشو فلاں دیوتا کا ہے اس سے کسی بھی قسم کادھوکہ نہیں کھانا چاہئے،ورنہ گیتا کی تصدیق جھوٹی قرار پائے گی،اس کا مطلب قربانی کے لئے ہے۔مزید تسلی کے لئے سلطان المناظرین عبدالکبیر خان سابق دھرم ویر جی آریہ کی کتاب ،،یجروید کے درشن یعنی یجروید کا چوبیسواں ادھیائے ،،ملاحظہ کیجئے،ابتدائے کتاب ہی میں لکھتے ہیں ۔
واضح ہو کہ یہ رسالہ موسومہ ،، یجروید کے درشن،،اس غرض سے لکھاگیاہے،کہ ہم نے اپنے رسالہ ،،کیاقربانی فعل جدید ہے،،میں کے 24 ویں ادھیائے کاحوالہ دیا ہے،اور چونکہ یہ ادھیائے تمام وکمال قربانی کےمتعلق ہے،اس میں صاف اورواضح طور پر بتلایا گیا ہے کہ فلاں جانور فلاں دیوتاوالایا کے لئے (قربانی کرناچاہیئے،کبیر)سوامی دیانند نے ترجمہ کرتے ہوئے (لفظ والا )اور کے لئے کے ساتھ سےلفظ قربانی اڑاکر ترجمہ کو بے ربط اور بے معنی ومحاورہ کردیا،،تاہم اس میں سے قربانی اور کھانے کی جو قدرتی بات موجود ہےاس کو پڑھنے والے نہایت آسانی سے محسوس کر سکتے ہیں کہ درحقیقت ان منتروں میں ان جانوروں کو ان دیوتاؤں کے واسطے قربانی کئے جانے اور ان جانوروں کاگوشت ان لوگوں کے کھانے کے لئے بتلایا گیا ہے۔
ان کے علاوہ مہابھارت رماین وغیرہ کتب میں گائے سمیت دیگرجانوروں کی قربانی کا ذکر پایاجاتا ہے،سری کرشن اوررام جانوروں میں گائے بیل وغیرہ کو نہ صرف ذبح کرتے تھے،بلکہ وید پر عمل کرتے ہوئےان کےگوشت بھی لذاذت سےکھاتے تھے،غرض بارگاہ الٰہی میں جانوروں کی قربانی کامذہبی واعتقادی نظریہ جو کچھ بھی رہے ہوں مگر قربانی پیش کرنے کی روایت ہرمذہب کی بنیاد میں محفوظ ہے،اور نہایت قدیم زمانےسے چلی آرہی ہے،لہذاقربانی کےاس روایت کو اگر چہ علم برداران ویدک دھرم نےبند کردیا ہے،مگر اسلام نے اسے جاری رکھاہے،جسے موقوف کرنے کا مطلب بقول کرشن جی کے گنہ گار انسانوں کونجات حاصل کرنے سے روکنا ہوگا۔فقط