"کیا ہوا تمہارے ساتھ” ؟
"کچھ تو نہیں” اکبر نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
"نہیں کچھ تو ہے” جلال نے زور دیتے ہوئے ایک بار پھر اسے مخاطب کیا۔
"ایسا کچھ بھی نہیں” اکبر کے لہجے میں ناراضی کا عنصر عیاں تھا۔ اب کے بار اس کی طرف خشمگیں نگاہوں سے اکبر نے دیکھا تھا۔
جلال نے کچھ کہے بغیر خاموشی اختیار کرنے ہی میں عافیت سمجھا۔ ایک مرتبہ پھر خاموشی کا سماں بندھ گیا دونوں قدرے وقفے تک ایک دوسرے کو تکے بغیر چپ رہے۔
اب کے مرتبہ اکبر نے خاموشی کو توڑ کر مجلس گویائی کے رئیسی کا سہرا اپنے سروں باندھا۔ "تم کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ میرے ساتھ کوئی معاملہ ہے”۔
"کچھ دنوں سے افسردگی تمہارے چہرے، مہرے سے عیاں ہے۔ اور ایسی تو کوئی بات نہیں، اسی لئے تم سے میں نے سوال بھی کر لیا” جلال نے کہا۔
اچھا،،، اکبر قدرے اطمینان کے ساتھ کہتے ہوئے۔ خیر ایسی کوئی بات نہیں جو تم سمجھ رہے ہو۔
"اثرات تو یوں ہی مرتب نہیں ہوتے، رنگ تو ایسے ہی زرد نہیں پڑتے چہروں کے” جلال نے قدرے آہستہ دبے ہونٹ کہا۔
"ٹھیک ہے لو پھر سنو کیا ہوا” اکبر کے چہرے پر اب کے بار قدرے سنجیدگی کے اثرات نمایاں تھے۔
"سناؤ پھر کیا سنانی ہے، میں بھی کان دھرے ہوئے ہوں” جلال نے یک بارگی کہا۔
"ہاں دراصل وقت کو لے کر بڑا پریشان ہوں” اکبر بولا
"کیا مطلب وقت کو لیکر پریشان کچھ سمجھا نہیں” جلال اکبر کی بات کاٹتے ہوئے تحیرانہ انداز میں بولا۔
"ارے مطلب یہ ہے کہ وقت کی پابندی نہیں ہوپارہی ہے” اکبر نے دوٹوک میں پوری بات کر دی۔
"اچھا،،،،” جلال کو جیسے تشفی بخش جواب مل گیا ہو، وہ بے نیازی کے عالم میں بولا۔ خیر یہ مسئلہ تو سب کو ہی در پیش رہتا ہے۔ اب بندہ کرے تو کیا کرے اس کے لئے کوشش ہی ایک راہ ہے۔ مگر کوشش بھی تو کوشش ہی ہے، کوشش ہی کی حد تک رہے گی وہ۔ سو اب دھیان بس کوشش پر دو اور خود کو ہلکان نہ کرو۔
"عمدہ مشورہ ہے عمل کرنے کی کوشش کروں گا” اکبر نے جلال سے اطمینان اور پرسکون ہوتے ہوئے کہا۔
اسکول کی گھنٹی بجی انٹرول ختم ہوا اور سب اپنے اپنے کلاس روم کی طرف لوٹ گئے۔ دراصل دونوں انٹرول کے وقت لنچ کرتے ہوئے ایک دوسرے باتیں کررہے تھے۔ اب وہ دونوں خوشی، خوشی اپنے کلاس میں چلے گئے۔ اکبر ایک بار پھر پہلے کی طرح اپنی لائف انجوائے کرنے لگا، کبھی خوشی کبھی غم کا فلسفہ تو درپیش تھا ہی۔ ہاں اب پہلے کے مقابل تھوڑا محتاط سا ہوگیا تھا۔
خیر کہنا یہ ہے کہ بہت سارے لوگ اسی خرد برد میں پڑے، پڑے سوچتے ہی رہتے ہیں کہ وقت کی پابندی کیسے کی جائے۔ حالانکہ سوچنے اور خود کو ہلکان کرنے سے کچھ ہونے والا نہیں۔ اس کے لئے کوشاں ہونا پڑے گا، اور کوشش ہی کی جاسکتی ہے۔ سوچ کر کچھ، ذہن کو تھکا کر کچھ نہیں ہوتا۔ الٹا اور وقت کا ضیاع ہوتا ہے ساتھ ہی ذہنی دباؤ بھی۔ بسا اوقات تو یہ ڈپریشن کی صورت بھی اختیار کر جاتا ہے۔
سو کوشش کریں !!!
نوٹ:- یہ ایک مفروضی کہانی ہے۔ میں نے اپنے تخیلات کی خاکہ نگاری کرنے کوشش کی ہے۔
راقم الحروف: محمد اختر رضا امجدی
متعلم جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو