قریب 60 سالوں سے مڈل ایسٹ تختہ مشق بنا ہوا ہے، کہیں عرب اسرائیل جنگ تو کہیں عراق، کویت، عراق امریکا، سیریا، فلسطین، لبنان، ،یمن وغیرہ وغیرہ فی الحال ٹرنیڈنگ میں ہیں، مڈل ایسٹ میں کروڑوں لوگ ان جنگوں سے متاثر ہوے ہیں لیکن جنگ ہے کہ رہنے کا نام ہی نہیں لے رہی، ایک علاقے میں جنگ ختم ہوتے ہی دوسرا علاقہ سلگ اٹھتا ہے، پچھلے پندرہ بیس سالوں میں سیریا کچھ زیادہ ہی تختہ مشق رہا ہے، کہنے کو تو اس ملک میں حکومت قائم ہے لیکن اصل یہ ہے کہ یہ حکومت بھی بہادر شاہ ظفر کے آخری ایام کی طرح ہے، کہنے کو مغل حکم راں پوری سلطنت کے مالک تھے لیکن اصل میں دہلی و اطراف کے علاقہ کے علاوہ کسی جگہ کنٹرول نہیں تھا، بشار الاسد کا بھی یہی حال ہے ، کئی ملک اسے خوب استعمال کرتے ہیں، آدھے سے زیادہ سیریا کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے لاکھوں لوگ ملک چھوڑ چکے ہیں، ایک 30 کلو میٹر چوڑی اور چار سو کلو میٹر لمبی پٹی ترکی کے بھی قبضے میں ہے، اقوام متحدہ کا ایک جوہری ہتھیاروں سے لیس ذخیرہ بھی یہاں رہا ہے جس پر اب ترکی کا قبضہ ہے، اکثر ترکی بھی یہاں کرد لڑاکوں پر زمینی اور ہوائی کارروائی کرتا رہتا ہے، القاعدہ کا مرکز بھی سیریا میں رہا ہے، امریکی حمایت یافتہ مسلح گروہ بھی یہاں حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرتے رہے ہیں، روس، ایران بھی یہاں حملے کرتے رہتے ہیں حالاں کہ روس اور ایران حکومت کے سپورٹ میں رہتے ہیں، لیکن یہاں اسرائیل بھی ایرانی اور لبننای گروہوں پر حملے کرتا رہتا ہے، یعنی ہر ملک اپنے بنائے ہوے ہتھیاروں کی ٹیسٹنگ سیریائی عوام پر کرتا ہے، روس، ایران، ترکی، اسرائیل، امریکا سبھی کی مشق اسی زمین پر ہوتی ہے ۔
اتنا سب کچھ جاننے کے بعد آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر یہ ملک ہے یا کسی "غریب کی لُگائی (عورت) جسے ہر ایک اپنی بھابھی سمجھ کر مذاق کرتا رہتا ہے ، شام کی بشار الاسد کی حکومت نے سنی مسلمانوں پر خوب ظلم کیا ہے، جس طرح اسرائیل فلسطین پر ظلم کی انتہا کر رہا ہے ویسے ہی یہاں کا بھی حال رہا ہے، اور اس کام میں ایران کا فل سپورٹ رہا ہے، ایران نے سیریائی حکومت کو ہتھیار سے لے کر مسلح لڑاکے تک فراہم کیے ہیں ۔ فی الحال روس یوکرین کے ساتھ بزی ہے، حزب اللہ اسرائیل کے ساتھ، اکیلا ایران بہت کچھ کرنے کی صورت میں نہیں ہے اس لیے مسلح باغیوں کو موقع اچھا ملا اور انھوں نے شہر پر حملہ کردیا، یہ شام کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے، حلب پر صدر بشار الاسد کے مخالف مسلح گروپوں کے تیزی کے ساتھ کیے جانے والے حملوں کے بعد یہ شہر شامی حکم ران کی فوج کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے۔ شامی فوج نے تسلیم کیا ہے کہ باغی حلب کے ’بڑے حصوں‘ میں داخل ہو گئے ہیں۔ مسلح گروہ بنیادی طور پر تحریر الشام اور دیگر مسلح گروہوں کے رکن ہیں اور یہ 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اس شہر پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ آٹھ سال قبل جب شامی فوج نے حلب پر قبضہ کیا تھا تو یہاں کے شہریوں نے بشارالاسد کی فوج کی حمایت کی تھی۔ کیوں کہ اس وقت القاعدہ کے لڑاکے یہاں گند پھیلائے ہوے تھے، 2016 میں بشار الاسد پوری طرح سے اس علاقے پر قابض ہو گئے تھے اور تیرہ سالہ خانہ جنگی کو ختم کیا تھا، یہاں تیرہ برسوں سے خانہ جنگی جاری ہے جس میں پانچ لاکھ سے بھی زیادہ افراد اب تک ہلاک ہو چکے ہیں اور تقریباً سوا کروڑ شامی باشندے، یعنی ملک کی تقریبا نصف آبادی اس خانہ جنگی کی وجہ سے بے گھر ہو چکی ہے اور بیرون ملک بطور پناہ گزین رہنے پر مجبور ہیں۔ لیکن آج یہ علاقہ بشار الاسد کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے ۔
مسلح گروپ کا اچانک حملہ کچھ سوالات کھڑے کرتا ہے
فی الحال جو حالات مشرق وسطیٰ کے ہیں انھیں دیکھ کر اندھا بھی بتا سکتا ہے کہ یہ حملہ امریکا اور اسرائیل کے بغیر نہیں ہو سکتا، یہاں امریکا بازی لے گیا ہے یہ وہی مسلح گروہ ہیں جن کو ماضی میں امریکا مکمل سپورٹ کرتا رہا ہے، امریکا نے یہاں ایک تیر سے کئی نشانے سادھے ہیں، پہلے تو اسرائیل کو لبنانی حملوں سے بچایا، پھر ایران کو اسرائیل پر حملوں سے روکا اور اب ایران کو بڑا دھچکا دیتے ہوئے اس کے مضبوط پہلو پر وار کرکے بازو کو دھڑ سے الگ کر دیا ہے، اس پراکسی وار میں ایران منہ کی کھا گیا ہے، یہ ایران کے لیے بڑی مصیبت ہے، اب امریکا مسلح گروپس کی مدد سے سیریا کو سپلائی ہونے والی ایرانی مدد کو بیچ میں ہی روک دے گا، اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا بہت جلد سیریا کے راستے سیریا اور لبنان دونوں کی مدد روک دے گا جس سے شام، لبنان دونوں کمزور ہوں گے اور ہو سکتا ہے کہ چند سالوں میں امریکا سیریا میں کٹھ پتلی حکومت لے آئے –
جیسا امریکا چاہتا ہے ویسا ہی ہو یہ ضروری نہیں
جس گروہ کی امریکا مدد کر رہا ہے ضروری نہیں کہ چند سالوں بعد وہ اس کے اشاروں پر ناچے، ہم ماضی میں اس کی بے شمار مثالیں دیکھ چکے ہیں، سیریا میں القاعدہ کو مضبوط امریکا نے کیا، پھر جب القاعدہ نے تیل سپلائی میں خاصی خورد برد کی اور اپنا حق مانگا تو امریکا نے ان پر حملہ کیا، پھر جب القاعدہ اور امریکا کی ڈیل ہوئی تو اخیر وقت میں امریکا انھیں بچانا چاہتا تھا جسے ترکی نے قبول نہ کیا، ترکی کی مسلح کارروائی کے درمیان امریکا اور ترکی کی زبانی جنگ اس کا ثبوت رہی ہے، لیکن ترکی نے امریکا کی نہ سنی اور مسلح گروپس کو ختم کر دیا ۔ یوں ہی افغانستان کے طالبان کو امریکا نے روس کے خلاف 1980 سے 1988 تک خوب مدد کی، جب طالبان اپنا حق مانگنے لگے تو امریکا نے ان پر حملہ کرکے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، بہرحال بیس سال بعد افغانستان آزاد ہوگیا اور امریکا نے عزتی کا ٹوکرا لیے گھر لوٹ گیا، سیریا میں اگر مسلح گروہ مکمل کنٹرول کر لیتا ہے تو سنی اکثریت والے سیریا میں شیعہ حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا، یہ وہاں سنی عوام کے حق میں ایک بہتر چیز ہوگی، فوری راحت بھی یہی ہوگی سیریائی عوام کے لیے، لیکن آگے چل کر خود مختاری کو لے کر اسے امریکا اور اس کے اتحادیوں سے جنگ لڑنا پڑ سکتی ہے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تیل اور گیس معاہدہ کے ساتھ سیریا اپنے آپ کو بھی مضبوط کر لے اور مضبوط ہونے کے بعد اپنی شرائط پر امریکا کو رکھ سکے، فی الحال یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ حملہ 99 فی صد امریکا نواز ہے، ذریعہ بھلے ہی کچھ دکھائی دے لیکن منشا امریکی کار فرما ہے، اس حملے سے اگر شامیوں کی زندگی بہتر ہوتی ہے تو یہ حملہ سیریا کی عوام کے لیے نئی زندگی ثابت ہو گا۔
تحریر: محمد زاہد علی مرکزی
چیئرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ
2/12/2024
29/5/1446