تاریخ کے دریچوں سے شاہان و شہسوران اسلام

دوران خلافت عباسیہ دولت بویہ دیلمی کا عروج و زوال!

شمالی ایران اور بحر کیسپیئن ( Caspian Sea) سے متصل ایک پہاڑی علاقہ ہے جسے دیلم کہا جاتا ہے۔ عباسی خلیفہ مقتدر باللہ( 932-908) کے دور خلافت میں  اطروش یعنی حسن بن علی بن حسین بن علی زین العابدین  نامی شخص اس خطہ ارض میں جاکر لوگوں کو اسلام کی دعوت دی اور تیرہ برس تک اس علاقہ کے لوگوں کو مسلمان بنایا۔  اطروش ایک زیدی شیعہ تھا اس لیے اس نے لوگوں کو شیعہ مسلمان بنایا۔ اس زمانے میں دیلم کا حکمران حسان نامی ایک شخص تھا۔ حسان نے اطروش کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکنے کی کوشش کی مگر اطروش ترقی پزیر ہی رہا۔ اس نے مسجدیں بنوائیں اور مسلمانوں سے عشر بھی وصول کرنا شروع کیا۔ پھر اطروش نے ان نو مسلموں کی ایک جمعیت مرتب و مسلح کرکے قزوین اور سالوس( ایرانی شہریں) وغیرہ سرحدی علاقوں پر حملہ کیا اور ان سب کو اسلام کی دعوت دیکر اسلام میں داخل کر لیا۔ اس کے بعد اطروش نے اہل دیلم کی ایک فوج مرتب کرکے طبرستان( شمالی ایران میں واقع بحر کیسپیئن کا ساحلی علاقہ) پر حملہ کیا اور وہاں کے سامانی عامل کو شکست دیکر طبرستان پر قابض ہو گیا۔  اطروش کے بعد اس کا داماد حسن بن قاسم اور اس کی اولاد طبرستان، جرجان، اور استرآباد پر قابض و متصرف ہویی مگر ان سب کے فوجی سردار  سپہ سالار دیلمی لوگ تھے۔ اہل دیلم  میں سے ایک نامور سردار اسفار بن شیرویہ دیلمی تھا جو سامانیوں سے دوستی کر لیا اور انکی طرف سے دیلمیوں کو شکست دیکر طبرستان اور جرجان پر حکمرانی کرنے لگا۔  اسفار بن شیرویہ کے سرداروں میں ایک شخص مرداویج (Mardavij) تھا ۔ اس نے سرداروں کو اپنے ساتھ شامل کرکے علم بغاوت بلند کیا اور اسفار کو قتل گر دیا اور ہمدان و اصفہان ( ایرانی خطے) وغیرہ کو فتح کرکے ایک وسیع ملک پر حکومت کرنے لگا۔ مرداویج نے سالانہ خراج  کے عوض میں تمام مفتوحہ و مقبوضہ ملک کی سند عباسی خلیفہ سے حاصل کرنی چاہی۔ چنانچہ اس نے دربار خلافت میں  درخواست بھیجی کہ مجھ کو ان علاقوں کی سند حکومت عطا فرمایی جایے۔ خلیفہ نے یہ  درخواست منظور کرکے سند بھیج دی اور اس طرح وہ حکومت کرنے لگا۔اس طرح وہ ایران کا بادشاہ ہوا اور شیراز اور اہواز بھی اس کے قبضے میں آگیا لیکن سال 935 میں  ترک غلاموں نے اس کا قتلِ کر دیا۔

مرداویج کی حکومت و سلطنت میں ابو شجاع بویہ نامی شخص  کے تین بیٹوں نے ملازمت سرداریاں حاصل کیں۔ ابو شجاع بویہ پیشہ سے ماہی گیر تھا۔ اس کے تین بیٹے تھے۔۔۔ علی، حسن اور احمد جو بعد میں بالترتیب عماد الدولہ، رکن الدولہ اور  معز الدولہ کے نام سے حکومت کی۔ مرداویج نے علی بن بویہ کو عراق کا ایک شہر کرخ کی حکومت پر مامور کیا  اور اس نے اصفہان اور شیراز پر چڑھائی کرکے اس پر قبضہ کیا اور اس طرح تمام صوبہ فارس اس کے قبضہ اور تصرف میں آ گیا اور اس نے سنہ 930 میں بویہ خاندان کی بنیاد ڈالی۔ جب خلیفہ راضی باللہ ( 940-934)  تخت نشیں ہوا تو تخت نشینی کے پہلے ہی سال میں علی بن بویہ نے درخواست بھیجی کہ صوبہ فارس کی سند حکومت مجھ کو عطا فرمایی جایے۔ خلیفہ نے سند اور خلعت پرچم روانہ کرکے علی بن بویہ کو عماد الدولہ  اور اس کے بھائی حسن کو رکن الدولہ اور احمد کو معز الدولہ کا خطاب عطا کیا۔ 

رکن الدولہ شمالی ایران میں واقع جبال کو فتح کیا اور سنہ 943 میں رے کو فتح کیا اور اسے دارالخلافہ بنایا۔ سنہ 945 میں معز الدولہ عراق فتح کیا اور بغداد کو دارالخلافہ بنایا۔اس طرح تینوں بھایئوں نے مختلف خطوں (فارس، بغداد اور ریے) میں بویہ خاندان کی بنیاد ڈالی۔اس طرح ایران کے مغرب میں امارات  بغداد،  جنوبی ایران میں  امارات شیراز اور شمالی ایران میں امارات رے قائم ہوا۔

 معز الدولہ جب بغداد پر قابض ہو گیا تو وہ خلیفہ مستکفی باللہ ( 946-944) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے معز الدولہ کو ملک کا خطاب دیا اور بڑے بھائی عماد الدولہ کو امیر العمرا کا خطاب دیا ۔اب یہ وہ زمانہ تھا جب خاص شہر بغداد میں خلیفہ کے احکام کی قدر و منزلت تھی اور وہ بغداد میں سب سے بڑی طاقت سمجھی جاتی تھی۔ خلیفہ کے ہاتھ میں طاقت اگر چہ کچھ نہ تھی پھر بھی اس کو تھوڑی بہت آزادی ضرور حاصل تھی اور ایک قسم کا رعب و جلال بھی باقی تھا۔ کسی شخص کو خطاب دینا ، کسی کو کوئی سند عطا فرمانا یہ سب خلیفہ کے ہاتھ سے ہوتا تھا  لیکن خلیفہ کے اختیار سے نہیں ہوتا تھا بلکہ ہر ایک کام میں اختیار ملک ہی کا ہوتا تھا۔  ملک خلیفہ  کی ایک تنخواہ مقرر کر دیتا تھا۔ یہ تنخواہ جب خلیفہ کو دیر سے ملتی تھی  یا نہیں ملتی تھی تو اسے مجبوراً اپنا سامان فروخت کرکے اپنی گزر کرنی پڑتی تھی۔

معز الدولہ نے اپنے نام کے سکے مسکوک کرایے اور بغداد پر پورے قہر و غلبہ کے ساتھ حکومت کرنے لگا۔ جب اسے یہ معلوم ہوا کہ خلیفہ  مستکفی اس کے خلاف سازش کر رہا ہے تو اس کے فرمان پر دیلمیوں نے خلیفہ کو تخت سے اتار دیا اور گرفتار کر لیا۔  پھر جب اسے معز الدولہ کے سامنے لایا گیا تو اس کی آنکھیں نکال کر قید خانہ میں ڈال دیا اور پھر بحالت قید فوت ہوا۔ خلیفہ مستکفی نے ایک برس چار مہینے برائے نام خلافت کی۔ 

تمام دیلمی شیعہ تھے۔ خلیفہ مستکفی کو ذلیل و معزول و مقید اور اندھا کر دینے کے بعد معز الدولہ نے کسی علوی کو تخت خلافت پر بیٹھانا چاہا لیکن اسے اس کے مشیر نے کہا کہ اگر آپ نے کسی علوی کو خلیفہ بنا دیا تو آپ کی قوم اس کو مستحق خلافت سمجھےگی، اس لیے وہ بجائے آپ کے اس علوی خلیفہ کی خدمت و اطاعت کو مقدم سمجھے گی اور دیلمیوں پر جو آپ کا اثر ہے یہ ہرگز باقی نہیں رہے گا اور نہ آپ کی یہ حکومت و شوکت برقرار رہے گی۔  لہزا مناسب یہ ہے کہ اسی عباسی خاندان سے کسی شخص کو تخت خلافت پر بیٹھایا جایے تاکہ تمام شیعہ اس کو غیر مستحق خلیفہ سمجھ کر آپ کی اطاعت و فرماںبردای کے لیے مستعد رہے اور اس طرح شیعیت بغداد میں قائم رہے۔ چنانچہ معز الدولہ نے ابو القاسم فضل بن مقتدر کو طلب کیا اور مطیع اللہ  کے لقب سے تخت خلافت پر بیٹھایا۔ اس کا دوران خلافت 946 سے 974 ہے۔ 

 فارس میں بویہ خاندان (1062-934) تک قائم رہی۔ شمالی مغربی طبرستان میں جو بویہ خاندان تھا وہاں حکومت 935 سے 1029 سال تک قائم رہی اور عراق میں بویہ خاندان 945 سے لیکر 1055سال تک قائم رہی۔  خلیج فارس سے متصل فارس میں بویہ خاندان کو سلجوق حکمران تغرل نے سنہ 1062 میں ختم کر دیا۔ شمالی مغربی بویہ خاندان کا آخری حکمران نے محمود غزنوی کو ایک بغاوت کی سرکوبی کے لیے دعوت دی ۔ وہ سال 1029 میں رے پہنچا اور بویہ حکمران کو تخت سے اتار دیا  ، شہر میں لوٹ مار مچائی اور بویہ خاندان کو ختم کر دیا۔ سال 1055 میں سلجوق سلطان تغرل بغداد سے ہوکر مکہ مکرمہ حج کے لیے جا رہا تھا اسی دوران اس نے بغداد کے آخری حکمران کو معزول کر دیا اور اس طرح بغداد سے بھی بویہ خاندان کا خاتمہ ہو گیا۔

چونکہ معز الدولہ شیعہ تھا اس لیے اس نے جامع مسجد بغداد کے دروازے پر حضرت معاویہ رض سے متعلق لعنتی کلمات لکھوایا۔ اس نے عید غدیر کی ایجاد کی۔ اس نے ۱۸ ذوالحجہ سنہ ۳۵۱ھ یعنی 963 عیسوی کو بغداد میں عید منانے کا حکم دیا اور اس عید کا نام عید غدیر رکھا۔ اسی تاریخ کو یعنی ۱۷ ذوالحجہ کوحضرت عثمان غنی رضی چونکہ شہید ہونے تھے اس لیے اس روز شیعوں کے لیے عید غدیر منانے کا دن تجویز کیا گیا۔

سنہ ۳۵۳ھ یعنی 964 عیسوی میں معز الدولہ نے حکم دیا کہ ۱۰/محرم کو حضرت حسین رض کی شہادت کے غم میں تمام دوکانیں بند کر دی جایے۔ خرید و فروخت بالکل موقوف رہے۔ تمام لوگ ماتمی لباس پہنیں اور علانیہ نوحہ کریں۔ عورتیں اپنے بال کھولے ہویے، چہروں کو سیاہ کیے ہوئے، کپڑوں کو پھاڑے ہویے سرکوں اور بازاروں میں مرثیے پڑھتی ہویی، منھ نوچتی ہویی اور چھاتیاں پیٹتی ہویی نکلیں۔ شیعوں نے اس حکم کو بخوشی تعمیل کی مگر اہل سنت خاموش رہے کیونکہ شیعوں کی حکومت تھی۔اس طرح معز الدولہ نے تعزیہ داری کی ایجاد کی اور  اس دن سے آج تک یہ رسم چلی آ رہی ہے۔

معز الدولہ نے مرتے وقت اپنے بیٹے بختیار کو ولی عہد بنایا تھا اور وہ عزالدولہ کا خطاب خلیفہ سے حاصل کرکے حکمرانی کرنے لگا۔ دیلمی لوگ اس قدر غالب و مسلط ہو گیے تھے کہ اصل حکمران وہی سمجھے جاتے تھے۔ ایک طرف خلیفہ اپنا ولی عہد مقرر کرتے تھے، دوسری طرف یہ حکمران اپنا ولی عہد مقرر کرتے تھے۔ خلیفہ کے ہاتھ میں کوئی حکومت نہ تھی۔ بلکہ وہ خود محکوم تھا اور ان سلطانوں کے ہاتھ میں حکومت و طاقت تھی۔ سنہ 974 میں عزالدولہ نے خلیفہ مطیع اللہ (974-946) کا نام خلیفہ سے نکال دیا اور اس کی تنخواہ بند کر دی۔ مجبوراً خلیفہ کو اپنے گھر کے قیمتی اثاث بیچ کر اپنی گزر کرنی پڑی۔

دولت بنی بویہ سو برس سے زیادہ عرصہ تک بغداد اور عراق و فارس پر قابض و متصرف رہے۔ یہ لوگ شیعہ تھے اس لیے سنیوں کو اس سو سال کے عرصہ میں بہت اذیتیں پہنچایی مگر ان کے دور حکومت میں علویوں کو کوئی خاص نفع نہیں پہنچا۔ انہوں نے کسی علوی کو طاقتور بنانے اور برسر حکومت لانے کی کوشش نہیں کی۔انہوں نے سو برس سے زیادہ عرصہ تک شیعہ سنیوں کو برسر جنگ رکھا اور مذہب اسلام میں شرکیہ مراسم جاری کیے۔ ان میں بعض شخص علم دوست بھی مشہور ہویے اور ان کے زمانے میں بعض مدارس  بھی جاری ہویے مگر ان سب پر مجوسیت غالب تھی اور انہوں نے حکومت عباسیہ کو مٹا کر اپنی قوم و خاندان کی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی۔ ان کے زمانے میں عربی سیادت کے تمام نقوش مٹ گیے۔ ان کی حکومت کا دائرہ فارس و عراق سے باہر تک نہیں پہنچا۔ خراسان و ماوراء النہر  پر ان کو حکومت کرنی نصیب نہیں ہویی۔ شام و حجاز بھی ان کے اثر سے پاک رہا۔ لہذا خاندان بویہ مسلمانوں کے لیے کوئی مبارک خاندان نہیں تھا۔ ان لوگوں نے مسلمانوں کے رعب و وقار اور اسلامی سلطنت کی عظمت برباد کرنے میں سب سے زیادہ کام کیا۔ بہرحال سنہ 447 ہجری میں اس خاندان کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور اس کی جگہ سلجوقیہ حکومت، قائم بامراللہ کے عہد خلافت میں قائم ہو گیی۔

تحریر: ریاض فردوسی، پٹنہ

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے