تاریخ کے دریچوں سے صحت و طب

علم طب کی مختصر تاریخ

ازقلم: عبد اللطیف رضوی، استاذ مدرسہ اسلامیہ سنت العلوم قصبہ شہاب پور،بارہ بنکی

علم طب ایسا علم ہے جس سے انسان کے اعضائے ظاہری واعضائے باطنی کی صحت و حفاظت کے اصول اور ان کی باہمی ترکیب اور اس کے اثرات معلوم ہوتے ہیں۔اس کا موضوع بدن انسانی ہے۔ غرض و غایت حفظ صحت کے اصول اور امراض سے شفا حاصل کرنے کی تدابیر معلوم کرنا ہے۔
علم طب دیگر فنون کی بنسبت اعلی واشرف اور منفعت بخش ہے، صحف آسمانی اور احکام شرعیہ میں اس کی عظمت کا تذکرہ آیا ہے۔
چنانچہ علم الابدان کو علم الادیان کے شانہ بشانہ رکھا گیا۔ نیز حکماء کہتے ہیں:زندگی کے مقاصد دو ہی ہیں: خیر اور لذت اور دونوں کا حصول انسانوں کے لئے صحت پر منحصر ہے کیوں کہ دنیا سے مطلوبہ لذت اور آخری اور آخرت میں خیر و صلاح کی خوش امیدی تک پہنچنے کا دار و مدار خود اس پر ہے کہ انسان کی صحت برقرار اور جسمانی ساخت طاقت ور رہے یہ بات محض طب کے فن ہی سے پایہ تکمیل تک پہنچ سکتی ہے۔ (عیون الانبا،ج: 1،ص:19،20)

فن طب کا منبع اور سرچشمہ وحی و الہام ہے کیوں کہ وہی ربانی حصول سعادت دارین کا ذریعہ ہے، جس سے ادیان اور ابدان کی صحت مقصود ہوتی ہے۔
شیخ موفق الدین نے اپنی کتاب "بستان الاطباء وروضۃ الالباء”میں ابو جابرمغربی سے روایت کرتے ہوئے لکھا ہے:
"اس فن کے وجود کا سبب وحی والہام ہے،دلیل یہ ہے کہ اس کا موضوع لوگوں کے جسم پر توجہ بایں طور صرف کرنا ہے کہ ان کی صحت زائلہ کا اعادہ اور صحت حاصلہ کی حفاظت ہو ( ایضاً،ص: 25)

صحت اور بیماری کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا انسان کا ماضی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بیماری کو بھی پیدا کیا۔ بیماری کے ساتھ اس کی دوا بھی پیدا کی۔ اسی لیے یہ حدیث پاک مشہور ہے: ’’لکل داءٍ دواء‘‘ ہر مرض کے لئے دوا ہے۔

یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ پہلی مرتبہ کون سا انسان کب اور کہاں بیمار ہوا؟ البتہ قرآن مجید میں بیماری اور شفا کے حوالے سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ ملتا ہے۔ آپ نے فرمایا:

’’وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ‘‘(الشعراء:80/26)

’’جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو اللہ مجھے شفا عطا کر دیتا ہے۔
کسی بھی بیماری کا علاج اللہ تعالی نے کہاں رکھا ہے اور کیا ہے اس بات کا کھوج لگانا انسان کی ذمہ داری ہے۔ یہ کھوج علم، جہد مسلسل، تجربہ اور علم کیمیا میں مہارت کا رہین منت ہے۔

فن طب لوگوں کے لیے ہر جگہ اور ہر زمانے میں ایک ضروری امر رہا ہے یہ ضرورت بہر حال اس سے ہمیشہ وابستہ رہی ہے۔
انسان جب خاندان گیتی پر آباد ہوا تو اعذار واسقام کے دفاع کے لئے دوا اور تدبیر صحت کی ضرورت محسوس ہوئی اور یہی ضرورت طب کی ایجاد کا محرک ہے۔
اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح انسانوں نے زندگی کا شعور حضرت آدم اور بعد کے انبیاء کرام علیہم السلام سے حاصل کیا اسی طرح جسمانی اصلاح اور مفاسد بدنیہ کے انسداد کے لیے طب کی تعلیم بھی انہیں انبیاء و رسل کے ذریعہ حاصل کی۔

فرقہ صابیہ کے لوگ کہتے ہیں کہ شیث ابن آدم علیہما السلام نے طب کا فن ظاہر کیا، جسے انہوں نے حضرت آدم علیہ السلام سے وراثت میں پایا تھا۔
بعض یہودی کہتے ہیں کہ حضرت موسی علیہ السلام پر شفاوں کا دستر خوان نازل کیا تھا، پیغمبروں کو تائید الٰہی کا تمغۂ امتیاز حاصل تھا۔

ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ سلیمان علیہ السلام جب نماز پڑھتے تو سامنے ایک پودا اگا ہوا دیکھتے، اس سے پوچھتے تمہارا کیا نام ہے اگر وہ شجر کاری کا ہوتا تو نصب کر دیا جاتا اور دوا کا ہوتا تو نام لکھ دیاجاتا۔
فن طب کی ابتدا وآغاز کے بارے میں قدرے اختلافات پائے جاتے ہیں جن کی تفصیل یہاں ضروری نہیں۔
انسانوں کی آبادی دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیلی ہوئی ہے ۔آب وہوا کے تغیر نے امراض کی مختلف صورتیں اختیار کیں۔تو وہاں کے اطباء نے اطبائے ما سبق کی طبی معلومات کی روشنی میں مزید طبی تحقیقات کی طرف قدم اٹھایا۔اس طرح اس فن نے ایک مستقل فن کی حیثیت اختیار کرلی۔
اس فن طب کے مرکز اولین کے بارے میں محققین کے درمیان اختلاف آرا ہے کسی نے مصر، کسی نے فونوس، کسی نے یمن کے کلدانیوں،کسی نے بابل،کسی نے ہندوستان کو اولین مرکز طب قرار دیا۔

اسی طرح منضبط فن طب کے بانی کے بارے میں بھی قدرے اختلافات پائے جاتے ہیں،لیکن قدما کی اکثریت اسقلیبوس کے طبیب اول ہونے پر متفق ہے، جو یونان کا باشندہ اور حضرت ادریس علیہ السلام کا شاگرد تھا۔

اسقلیبوس سے لیکر جالینوس تک آٹھ مشہور اطبا کا تذکرہ ملتا ہے: (1) غورس (2)مینس (3) برمانیدس (4) افلاطون الطبیب (5) اسقلیبیوس دوم (6) بقراط (7)جالینوس

عہد جاہلی کے بعد عہد رسالت میں بھی علم طب کو بہت فروغ حاصل ہوا۔

طب نبوی جس کی تعلیم قرآن وحدیث سے ماخوذ ہے اس کا اثر عہد جاہلی کی طب پر بھی پڑا۔طب نبوی کی تفصیلات بے حد اہمیت کی حامل ہیں اور ان میں سے اکثر روز بروز ہونے والی سائنٹیفک تحقیقات سے درست ثابت ہو رہی ہیں۔
اس حیثیت سے طب نبوی کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔

بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ مکہ میں بیمار ہوئےتو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی عیادت کے لیے تشریف لائے آپ نے فرمایا: حارث بن کلدہ کو بلاؤ کیوں کہ وہ معالج ہے حارث آیا تو اس نے حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ کو بغور دیکھا اور کہا کوئی بات نہیں ہے،کچھ عجوہ اور حلیہ(میتھی) پکاکر انہیں چٹائیں ،اس پر عمل کرنے سے وہ صحت یاب ہو گئے۔
( عیون الانباء،ج:1،ص:217)

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت عمر نے حارث بن کلدہ سے دریافت کیا کہ دوا کیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ ازم یعنی پرہیز۔
علم طب کی ہر زمانے میں ایک تاریخ رہی ہے۔ ادوار ماضیہ سے لے کر اب تک یہ علم روز بروز ترقی پر ہے۔

قارئین محترم! یہ علم طب کی بہت ہی مختصر تاریخ ہوئی۔
رب قدیر کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں اپنی تاریخ کو پڑھنے اور اس کو محفوظ کرنے کی توفیق بخشے آمین ثم آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے