رہے ربط اپنا احد ! بانوے سے
مری عمر ہو مستند بانوے سے
خدایا ! دے توفیقِ مدحِ پیمبر
بڑھا دے مرا شعری قد بانوے سے
رہے چاندی عشقِ احمد کی دل میں
نکھر جائے ہستی کا خد بانوے سے
زباں پر رہے ورد ” صلِّ علیٰ ” کا
ہو جس دم منور لحد بانوے سے
ثنا خوانیِ شاہِ بطحا کے صدقے
ملی شاعری کی سند بانوے سے
عقیدہ و ایماں کا حاصل یہی ہے
محبت رہے تا ابد بانوے سے
مصیبت کے دریا میں ہے فوجِ امت
بہم پہنچے یا رب رسد بانوے سے
ہے اسمِ محمد سے جب اس کو نسبت
نہ ہو کیوں محبت عدد بانوے سے
نبی کرتے ہیں سب کی مشکل کشائی
بلا ساری ہوتی ہے رد بانوے سے
بنے گا جہنم کا ایندھن وہ و اللہ !
جو رکھے گا حقد و حسد بانوے سے
خزانے دو عالم کے بخشے ہیں رب نے
جو چاہو وہ مانگو مدد بانوے سے
ہیں جتنے بھی اہلِ خرد ان کو احمدؔ
ملا ہے شعور و خرد بانوے سے
نتیجۂ فکر: طفیل احمد مصباحی