آئیے آج دور حاضر میں مسلمانوں کی خستہ حالی اور پامالی کے تدارک کے اسباب سمجھنے اور انہیں بروئے کار لانے کے لیے ہم ماضی کے چند نقوش اپنی نگاہوں کے سامنے لاتے ہیں اور تقریباً ساڑھے چودہ سو سال قبل کے حالات و واقعات اپنے سامنے رکھتے ہیں جسے تاریخ میں زبان نبوت سے خیرالقرون کا درجہ ملا ، جس میں صبر و عزیمت کی کہانی بھی ہے ، عزم و استقلال کا قصہ بھی ہے ، حکمت و دانائی کا جلوہ بھی ہے اور سیاست و اقتدار کے ساتھ عظمت و سربلندی کا عنصر بھی ، یکے بعد دیگرے فتوحات کا سہرا ان کے سر سجتا گیا ، اکناف عالم پر ان کا تسلط قائم ہوتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے تقریباً آدھی دنیا پر وہ قابض ہو گئے اور وقت کے بڑے سے بڑے حکمران ان کے قدموں میں جھکتے چلے گئے۔
اب یہاں ایک لمحے کے لیے رکیں! اور سوچیں کہ آخر کون سی وہ طاقت تھی جس نے پوری دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ؟ آخر وہ کون سی شئ تھی جس نے انہیں ہر میدان میں کامیاب و کامران رکھا ؟ جب ہم قرآن سے ان تمام تر کامیابیوں کا راز پوچھتے ہیں تو قرآن ہمیں ان سارے سوالات کا بڑے مسکت انداز میں جواب دیتے ہوئے کہتا ہے "لاتھنوا ولا تحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم مومنین” یعنی گھبراؤ نہ، غم نہ کرو، تمہیں غالب رہو گے اگر مؤمن ہو! اب یہیں سے عقدہ کھلا اور یہ بات واضح ہوئی کہ عہد رفتہ کے مسلمانوں کی اصل طاقت ان کے ایمان کی مضبوطی تھی ، جادہء حق پر ثبات قدمی تھی اور اللہ و رسول کے فرامین کی پیروی اور اس کی اطاعت تھی،
مگر آج اس کسوٹی پر موجودہ دور کے مسلمانوں کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں محسوس ہوگا کہ آج ان کی ایمانی کمزوری ہی ان کے وجود کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے جس کے باعث یہ دن بدن عروج و ارتقاء کی نعمتیں یکسر کھوتے چلے جا رہے ہیں، مسلمانوں کو قرآن و حدیث کی صورت میں جو دستورِ حیات اور ایک پاکیزہ شریعت ملی تھی بد قسمتی سے اسے حرزِ جاں بنا کر رکھنے میں ناکام ثابت ہوئے اور گوناگوں فتنوں، اختلافات و انتشار ، تفرقہ بازیوں اور خانہ جنگیوں کے شکار ہوتے چلے گئے، دنیا کی محبت اپنے اعصاب پر سوار کر لیا، اور پر تعیش زندگی کی جانب متوجہ ہوگئے، ان کے اندر موت کا خوف اور اس کا ڈر پیدا ہوگیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی جان کے دشمن بھوکے خونخوار بھیڑیوں کی طرح ان پر ٹوٹ پر پڑے، موت کے خوف نے دشمنوں سے مقابلہ کرنے کی جرأت و ہمت کو اس طرح چھین لیا جیسے ایک جاندار چیز سے اس کی جان نکال کر اسے بے حس و حرکت چھوڑ دیا جائے، ہمارے لوگوں نے بزدلی کا چولا پہن لیا، ایک دور تھا جب مسلمان جرأت و بہادری کا استعارہ سمجھے جاتے تھے مگر آج دشمنوں کا رعب ان کے سینوں میں اس قدر بیٹھ گیا ہے کہ جرأت و بہادری سے وہ یکسر دور ہوتے چلے گئے اور ہماری اس زبوں حالی کا سب سے بڑا سبب دین سے بےرغبتی اور دنیا کی محبت میں انہماک رہنا ہے،
اس کے انسداد کی راہ ہموار کرنے کے لئے ایک ہی صورت نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ ہمیں دوبارہ اسی روش پر آنے کی ضرورت ہے، جس کو ہمارے اسلاف نے اپنی زندگی کی اساس و بنیاد بنا رکھا تھا ، پھر اسی دستور کے مطابق زندگی گزارنے کا تہیہ کرنا ہوگا ، جو ہمارے بزرگوں نے اپنی زندگی میں اپنایا تھا تاکہ زندگی کے نشیب و فراز ہموار ہو سکیں ، اور مسلمان ایک بار پھر افقِ عالم پر سرفراز و سربلند نظر آنے لگیں،
اسلاف کی تعلیمات سے دوری علاوہ ہماری زبوں حالی کی دوسری وجہ تعلیم سے بے رغبتی ہے، آج جس کا جو دل چاہتا ہے بولتا ہے ، جو دل چاہتا ہے کرتا ہے اور جس کا بھی دل چاہتا ہےمسلمانوں کو ڈھول کی طرح بجا کر چلا جاتا ہے، نہ پاسِ آئین ہے، نہ قانون داری کا کوئی لحاظ ہے بلکہ ہر جگہ مسلمانوں کو مشقِ ستم بنایا جارہا ہے، ا ن پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، دنیا خاموش، حکومتیں خاموش، دانشور خاموش، میڈیا خاموش، سیاست داں خاموش ، حتی کہ پڑوسی کو بھی اب پاسِ جوار نہ رہا، شاید اسی فراق میں اپنی زندگی میں بدمست ہیں کہ ہم پر پڑے گا تو دیکھا جائے گا۔ شاید انہیں یہ بات معلوم نہیں کہ،
لگے گی کی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
حد تو یہ ہے کہ اگر کوئی غیرت مند مسلمان صدائے حق بلند بھی کرتا ہے تو اس کو نذر زنداں کردیا جاتا ہے، اس کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے، اور اس پر دہشت گردی کا مہر ثبت کردیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ ہم بس ٹکٹکی باندھے ہوئے دیکھتے رہتے ہیں، ہم سے نہ کچھ ہو پاتا ہے ، نہ ہماری سنی جاتی ہے، آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ صرف اور صرف لا علمی اور آئین سے نا آشنائی، لا(Law) کی تعلیم ہمیں نہیں، نہ ہمارے دین کا علم ہمارے سینوں میں ہے، جب ہم مکمل علم سے عاری ہیں تو سوائے تماشہ بینی کے اور کر ہی کیا سکتے ہیں،
اس طرح کے فتنوں کے انسداد کی خاطر ہمیں ذہنی طور پر تیار اور تعلیم سے آراستہ و پیراستہ ہونا پڑے گا، دینی علوم کے ساتھ دنیاوی علوم میں بھی مہارت حاصل کرنی ہوگی، قانون کا علم بھی از حد ضروری ہے جو روز مرہ کی زندگی میں پیش آتے ہیں تاکہ کوئی ہمیں مشق ستم بنانے سے قبل سو مرتبہ ضرور غور و فکر کرے، کہتے ہیں کہ وہی سنگتیں تباہ ہوتی ہیں، جنہوں نے اپنے تعلیمی معیار کو کھو دیا اس لیے ہمارا دوسرا اقدام تعلیم کی طرف ہونا چاہیے،
ہماری تباہی و بربادی کی تیسری وجہ انتشار و اختلاف ہے، وہ حکومتیں مسمار ہوجایا کرتی ہیں، اور ان کا نام و نشان تک مٹ جایا کرتا ہے، جن میں خانہ جنگی اور آپسی اختلاف گھر کرجاتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اسلام کا لبادہ اوڑھے سوداگرانِ ایمان کے ساتھ آپ اتحاد و یکجہتی کرلیں، آپ ان سے بالکل دور و نفور رہیں لیکن جملہ اہل سنت وجماعت میں تو اتحاد ممکن امر ہے۔ مجھے حافظ دین و ملت کا قول یاد آتا ہے کہ۔ "اتحاد زندگی ہے اور اختلاف موت ہے ” فروعیات میں اختلاف اپنی جگہ، مگر جب قوم وملت کی بات ہو تو یکجہتی ضروری ہے۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے، کہ اتحاد کر کے زندہ رہنا ہےیا اختلاف کی زندگی میں گھٹ، گھٹ کر مرجانا ہے، ہمیں اپنی زبوں حالی کا شکوہ کرنے کے بجائے اپنے حصہ کا کام تو کرنا ہی چاہئےکیوں کہ شکوہ سے کوئی کام نہیں بنتا، اس کے لئے ہمیں میدان میں اترنا پڑے گا،
شکوہِ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
ہماری بربادی کی چوتھی وجہ ہے مصلحت، ہر کام مصلحت پر چھوڑ دینے کا نہیں ہوتا ہے، آج دانشورانِ قوم خاموش ہیں، سوال کرو تو مصلحت کی گولی دے کر چپ کرا دیا جاتا ہے۔ آخر کب یہ مصلحت کی گولی اور چورن اختتام کو پہونچے گا۔ ہر بار کی خاموشی نے دشمنانِ اسلام کو اتنا جری اور بے باک کردیا ہے کہ اگر آواز بھی اٹھائی جاتی ہے تو ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور حکومت بھی انہیں کی پشت پناہی کرتی ہے کیوں کہ انہیں ہماری قوم کا حال معلوم ہے، دس بارہ دن لڑ، بھڑ کر خاموش ہوجائیں گے اگر آواز بلند ہوئی تو ٹھیک ورنہ انہیں اس کی توقع بھی نہیں، سو مصلحت کی چادر اوڑھنے والے چادر پوشوں کو یہی کہوں گا، کہ خوابِ غفلت سے بیدار ہوں اور اٹھ کھڑے ہوں، اب جاگ جانے کا وقت آ گیا، غفلت کے سہارے اپنی قوم کو چھوڑا نہیں جا سکتا، اب سینہ سپر ہوکر مخالف قوتوں کے خلاف عملی کارروائی کرنے کا وقت آگیا، سو آنے والی نسلوں کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے اور ان کو بچانے کی خاطر جو کچھ کرنا ہے ہمیں کو کرنا ہوگا۔ شاعر اسکی عکاسی یوں کرتا ہے،
اب تو مقتل سے بہر حال گزرنا ہوگا
بچ گئے ہم تو کسی اور کو مرنا ہوگا
اگلی نسلوں کو تباہی سے بچانے کے لئے
جو بھی کرنا ہے اسی نسل کو کرنا ہوگا
ہماری خستہ حالی کی پانچویں وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی مستقل سوشل پلیٹ فارم نہیں جہاں خبر رسائی کا سلسلہ ہموار کیا جائے، ہمیں اس پر بھی کام کرنے کی حاجت ہے، کہ شدت پسند گروہ ہم سے خوف کھائیں۔ آج بہت تکلیف ہوتی ہے، کہ ہمارے خلاف کوئی خبر ہوتی ہے تو پوری دنیا میں نشر ہوجایا کرتی ہے مگر وہیں کسی مسلم دشمن سماج نے کچھ کیا تو بڑے سے بڑے صحافی اپنے قلم کو بند کر لیتے ہیں ان کے قلم کی سیاہی سوکھ جایا کرتی ہے اور حقیقت پسندوں کی زبانیں کٹ جایا کرتی ہیں،
اسی لئے ہمیں سوشل میڈیا پر ایک فلیٹ فارم ہموار کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہر عیاں نہاں کو عوام کے سامنے واشگاف کیا جاسکے، اس سے ہوگا یہ کہ نقب زن خوف کھائیں گے اور دن تو دور کی بات ہے رات میں بھی ان کو رہزنی کی ہمت نہ ہوگی، ساتھ ہی صحافت کے میدان کو مزید وسیع کرنے کی ضرورت ہے، بے باک اور جری صحافی پیدا کرکے تاکہ سماج کا کالا چٹھا عالمی سطح پر پیش کیا جاسکے اسی میں ہمارے بحالی کی راہ ہے،
ہماری زبوں حالی کا چھٹا سبب سرکاری عہدوں سے بیزاری اور اغماض نظری ہے، ہمیں چاہئے کہ ہر شعبہ میں اپنے لوگوں کو اتاریں کہ وقت پر وہ ہمارے لئے ممدد ثابت ہوں حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ابھی کچھ دنوں قبل "سرکاری سلیکشن” کی ایک لسٹ نگاہوں سے گزری، جس میں کہیں کوئی ہماری قوم و برادری کا بندہ نہیں تھا۔ یہاں بھی ہمارے ہاتھوں کچھ نہ آیا سوائے محرومی کے۔ سو اس پر بھی ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ معاشرہ پراگندگی کا شکار نہ ہو، اور امن و امان کی راہ دراز ہو،
ہماری زبوں حالی کا ساتواں سبب(Politics) یعنی سیاست ہے، کب تک ہم غیر مسلم سیاست دانوں کا ناگوار بوجھ اپنے سروں پر برداشت کریں گے اب ہمیں ایک مسلم لیڈر چننے اور میدانِ سیاست میں مسلم قائدین کو اتارنے کی حاجت ہے، کفار سے تو ہمیں پہلے ہی کوئی توقع نہیں تھی، اب رہا سہا اعتماد بھی ٹوٹ گیا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالتِ زار بھیڑ اور بکریوں کی طرح ہے، جس طرح ایک کے ذبح کے بعد دوسرا اپنی باری کا انتظار کرتا ہے، ایسے ہی ہندوستان کے مسلمان شکار ہونے کے لئے اپنی اپنی باری کا انتطار کر رہے ہیں، یکے بعد دیگرے سانحات رونما ہورہے ہیں۔ ہماری مسجدوں کو مندر بتا کر ان پر غاصبانہ قبضہ کیا جارہا ہے، اور دفاع کی صورت میں گولیاں بھی چلائی جارہی ہیں، مزے کی بات تو یہ ہے کہ پولیس بھی ہماری پروپرٹیز کو نظرِ آتش کرنے والوں کا بھرپور تعاون کر رہی ہے، اور ہم اگر صدائے حق بلند کردیں، ظلم کو ظلم کہہ دیں تو ہمیں گولی مار کر خاموش کر دیا جاتا ہے،
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
پس پردہ یہ سارا کھیل سیاست و اقتدار کا ہے۔ جب کرسی گرم کرنے والے ان کے ہیں، تو انہیں کون کیا کہہ سکتا ہے، ہر ایسا قانون جو ظالم کی حمایت کرے میں اس کی مخالفت کرتا ہوں محض ان پانچ مصرعوں کے ساتھ،
میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
جہل کی بات کو ظلم کی رات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
مختصر یہ کہ ہمیں بھی اب سیاست میں پیش قدمی کرنی ہوگی، اور اپنی مستقل ایک پارٹی آرگنائز (organize) کرنی ہوگی، تمام تر تجویزات پر عمل در آمد ہونا ہوگا تب جا کر کہیں ہماری زبوں حالی میں سدھار کا امکان پیدا ہوسکتا ہے، ایک شعر کہہ کر رخصت ہوتا ہوں۔
تم سنو یا نہ سنو ہاتھ بڑھاؤ نہ بڑھاؤ
ڈوبتے ڈوبتے اک بار پکاریں گے تمہیں
راقم الحروف: محمد اختر رضا امجدی
متعلم: جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو