دکن کا علاقہ ناندیڑ کا صوبہ قندھار شریف اپنے زمانے میں علم کا سرمایہ رہا، جس میں سعادت رفاعیہ کے بزرگ حضرت حاجی سیاح سرورِ مخدوم رح اور حضرت شیخ علی الحسینی سانگڑے سلطان مُشکل آسان رح ہو یا حضرت محدّث قندہاری شیخ العرب والعجم حضرت شاہ رفیع الدین رح کے ذات با برکات ہو۔ ہر زمانے میں علم کے شناخت رکھنے والا صوبہ قندھار شریف ہے۔یہی سرمایہ علم قندھار شریف کے قاضی گھرانے سے تعلق رکھنے والی ذاتِ با برکات جو اُستاد الصلاتین ہو گئی، کئی ایک رہگزر کے رہنما ہو گئی۔ جن کو زمانہ عارف باللہ عاشق رسول اللہ شیخ الاسلام حضرت حافظ محمد انواراللہ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ(بانی جامعہ نظامیہ ) کی نام سے جانا گیا۔حضرت شیخ الاسلام کی ولادت باسعادت علاقہ ناندیڑ کے قصبہ قندہار شریف میں 4 ربیع الثانی 1264ھ میں ہوئی 5 سال گذر نے کے بعد حضرت مولانا سید شاہ بدیع الدین رفاعی قندھاری رحمۃ اللہ علیہ سے قرآن شریف ناظرہ کی تکمیل فرمائی اور سات سال کی عمر شریف میں حضرت مولانا حافظ امجد علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس قرآن مجید کاحفظ شروع فر مایا اور گیارہ سال کی عمر شریف میں حفظ قرآن مجید کی سعادت سے بہرہ اندوز ہوئے آپ نسبتاً فاروقی ہیں۔ سلسلہ نسب انچالیسویں پشت میں خلیفہ دوم امیر المومنین امام المجاہدین سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پر منتہی ہوتا ہے ۔آپ نے علوم و فنون کی تکمیل حضرت عبدالحلیم صاحب فر نگی محلی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا عبدالحی صاحب فرنگی محلی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا فیاض الدین اورنگ آبادی علیہ الرحمہ سے کی اور تفسیر و حدیث کا درس حضرت شیخ عبداللہ یمنی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی حاصل فرمایا آپ کی خداداد ذہانت واستعداد سے اساتذہ ھی دنگ تھے علوم شریعت کی تحصیل و تکمیل کے بعد آپ نے سلوک کی تکمیل اپنے والد ماجد شیخ الاسلام حضرت مولانا ابومحمد شجاع الدین بن القاضی سراج الدین صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ سے کی۔اور جملہ سلسلوں (قادریہ ،چشتیہ ، نقشبندیہ، رفاعیہ،وغیرہ) شیخ الاسلام کے والد بزرگوار حضرت محدث قندہاری شیخ العرب والعجم استاد مشایخین شیخ وقت شاہ محمد رفیع الدین قندہاری دكنی قدس سرہ کے خلیفہ اور داماد بھی رہے۔ دوران قیام مدینہ منورہ تشریف،مدینہ منورہ میں شیخ وقت حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی فاروقی قبلہ رحمۃ اللہ علیہ سے بھی استفادہ فرمائی۔ حضرت حاجی صاحب قبلہ علیہ الرحمۃ والرضوان نے بلا طلب خلعت خلافت سے سرفراز فرمایا۔
شیح الاسلام عارف باللہ حضرت مولانا حافظ محمد انواراللہ قبلہ فاروقی علیہ الرحمۃ الرضوان کی ذات بابرکات میں حبیب پاک سید المرسلین سید نا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ کردار، بلندی اخلاق ، حسن سلوک کے جلوے چمکتے تھے ۔ انسان میں بڑی چیزاس کی سیرت و کردار ہے تعلیم کا سب سے بڑ ا نصب العین پاکیزہ سیرت اور نیک کردار انسان بنانا ہے۔ ورنہ کھانا پینا اور افزائش نسل یہ تو جانوربھی کر تے ہیں انسانی طرۂ امتیاز جو تعلیم سے حاصل ہوتاہے ان کے اعلی کر دارپاکیزہ افعال واعمال اور بلندخیالات ہو تے ہیں ۔ اخلاقیات میں ہمدردی کا مقام بلند ہے ۔ مولانا انوار اللہ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ میں نہایت ہمددری ورحمدلی پا ئی جا تی تھی۔
اعلی سلاطین دكن حضرت آصف جاہ سابع اپنے شفیق استاد(بانی جامعہ نظامیہ علیہ الرحمۃ الرضوان) کیلئے نعمت کے خوان بھجواتے آپ رسیدپر وصولی کی دستخط فرماکر جامعہ نظامیہ روانہ کردیتے تھے خود کو نہیں آئندہ ملک اور قوم وملت کے نونہال خدمت گذاروں کو اس کا مستحق قرار دیتے تھے ۔ یہ سب کچھ کر کے نام نمود نہیں بلکہ رضاء الہی ڈھونڈ تے رہتے تھے ۔
مدینہ طیبہ کے زمانہ قیام 1305ھ یا 1307ھ میں کسی نے آپ سے آکر کہا فلاں صاحب فاقہ میں مٹی گھول کر پیا کرتے ہیں۔ یہ سنتے ہی آپ بےقرار ہوئے فرمائے ’’سبحان اللہ کیا لو گ ہیں فاقہ کی تکلیف دفع کرنے مٹی گھو ل کر پیتے ہیں مگر سوال نہیں کرتے ۔ اسی وقت امداد مساکین مدینہ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے انجمن بنائی کثیر رقم چندہ دیا اور احباب سے دلوائے جب تک رہے اسکے بعد بھی انکوبھو لے نہیں۔ اپنے تلمیذ خاص اعلٰحضرت آصفجاہ سابع سے فرما کر شیخ حمزہ خادم روضتہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تیس 30 روپئے اور ایسے کئی مستحقین کو ماہانہ وظائف جاری کر وائے ۔ آپ کی ہمدردی و رحم دلی اپنے ملک اور اہل ملک تک محدود نہیں۔
آپ کی زندگی مبارک رضاء الہی وخوشنودی خداوندی میں فر اخدلی کے ساتھ فیاضی جیسے پاکیزہ صفات سے آراستہ تھی۔ سلسلہ قادریہ میں منسلک بیعت و حلافت سے سرفر ازہو نے والے کیلئے بقول حضرت سیدناغوث اعظم دستگیر یہ ضروری تھاکہ مستحق غیر مستحق سب کو دے کہ اللہ تعالیٰ بغیر استحقاق کے تجھے بھی اپنے فضل سے زیادہ دے۔
مذکورہ واقعات کی روشنی میں دیکھا جائے تو فیاضی اور صلہ رحمی کا مادہ حضرت قبلہ علیہ الرحمۃ والرضوا ن میں انتہائی وسعت کے ساتھ ودیعت کیا گیا تھا ۔ یہی وجہ تھی آپ ملنے جلنے والے کی حاجت روائی کر تے، بیواؤں یتیموں کی امداد کر تے ۔ گھر،مساجد، درگاہوں ، خانقاہ کے تعمیر، فقیروں کا سوال رد نہ کرتے، متبر ک ایام میں زیادہ خیر و خیرات کرتے طلباء کی خاص طور پر اعانت فر ماتے یہاں تک ایک ہاتھ سے دیتے تو دوسرے ہاتھ کو خبر ہو نے نہیں دیتے۔ آپ کا دسترخوان وسیع، دل کا دروازہ کشادہ تھا ۔ سوپچاس عزیزاقارب غرباء ہمیشہ لگے رہتے ۔ سادہ مہانوں کیلئے پر تکلف پکوان کرواتے ۔ انکی خاطر تواضع میں کوئی کسر نہ رکھتے۔ جاتے وقت ضرورت پر انکی مدد بھی دل کھول کر کرتے۔ ہر ماہ رمضان المبارک میں کئی سو افراد کیلئے افطار و سحر کا انتظام کرواتے ،اتنا خر چ کرتے کہ مقروض ہو جاتے تھے اس پر اگر کو ئی توا ضعاً کہدیتا آپ بہت ثواب کماتے ہیں تو ناراض ہو جا تے ۔ آپ کی عادت تھی آمد و خرچ کاحساب ملاحظہ نہیں فر ماتے ساری تنخواہ اپنے باطمینا ن منشی مولوی عبدالرشید رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی تحویل میں کر دیتے ختم ماہ پر ۔۔۔ضروران سے پوچھ لیتے تمام روپیہ خرچ ہوجانے کی صورت میں خدا کا شکر ادا کرتے ورنہ ماباقی رقم کا رخیر میں صرف کرو ادیتے ۔ فیاضی جب حد سے بڑ ھ جاتی ہے تو ایثار و قربانی کہلاتی ہے ۔ حضر ت قبلہ علیہ الرحمۃ والرضوا ن کی فیاضی حد تمام پر پہونچکر ایثارو قربانی کا مقام حاصل کر چکی تھی ۔ حضرت کے والد بزرگوار اپنے حین حیات آپ کے نام منصب جاری کر وانا چاہتے تھے ۔ آپ اس وقت باوجود اہل وعیال رکھتے اور ان کے لئے مستقل ذاتی معاش نہ ہو نے کے سبب یہ منصب برادر خورد مولانا قاضی محمد امیر اللہ فاروقی قبلہ علیہ الرحمہ کے نام کروادی یہی نہیں اس سے زاید یہ ایثار فرمایا بلکہ آبائی قضائت قندہار شریف حضرت قبلہ علیہ الرحمۃ والرضوا ن نے ان ہی کو بحش دیا ۔ آپ اپنی کمائی کا زیادہ تر حصہ جامعہ نظامیہ اور اس میں علم دین حاصل کر نے والے طلباء پر صرف کر دیتے۔ اعلحضرت نظام الملک آصفجاہ سابع ہر سال عیدین میں بحیثیت مشفق استاذ جو اشرفیاں نذر دیتے تھے وہ بھی ایثار فرما دیتے۔ آپ کی حیات بابرکات کا سر ما یہ تو جامعہ نظامیہ تھا۔اس سے بڑھ کر ایثار و قربانی یہ تھی اپنے متروکہ میں ایک ثلث حصہ طالبان علم دین کیلئے آپ نے وصیت کے ذریعہ مختص فرما دیا۔جس کو مابعد آپ کے ورثاء جامعہ نظامیہ میں داخل کر دیتے ۔ علاوہ انکے ہزاورں روپئے کا غیر منقولہ کتب خانہ بھی آپ ہی کے وصیت نامہ کے مطابق جامعہ نظامیہ میں ’’انوار المعارف‘‘ کے نام سے محفوظ کر وادیا اور ساری صلاحیتوں کے ساتھ اپنی زندگی ملک و قوم کیلئے وقف کردی ۔ اس سے بڑھ کر ایثار و قربانی کیا ہو سکتی تھی اپنے بعد متروکہ میں بر ابر شریک ۔سر مایہ حیات، جامعہ نظامیہ کے نونہالان ملک وقوم کے استفادہ کی خاطر آپ نے وقف فرمادیا تھا۔ایسی عظمت والے عالم جلیل ولی کامل، اللہ پاک کے چہیتے و پیارے بندہ، اس کے شان ورفعت والے حبیب سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لاڈلے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارہ پر دکن تشریف لائے – روز پنجشنبہ 30/ جمادی الاولی 1336ھ میں وصال شریف فرمایا ۔ اناللہ واناالیہ راجعون !
آپ کا بابرکت گنبد شریف جامعہ نظامیہ کی زینت بن کر چمکتا رہتاہے اللہ پاک اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ و طفیل حضر ت قبلہ علیہ الرحمۃ والرضوان کے فیضان کو طلبائے کرام ، اہل دکن و جمیع اقطاع عالم پر ہمیشہ جاری رکھے آپ کی جامع و عظیم تصانیف سے ملت اسلامیہ اپنے دلوں کو روشن کرتے رہے۔
شیخ الاسلام کی زندگی بہ فیض حضرت حاجی سیاح سرورِ مخدوم قدس سرہ العزیز کی بےپناہ محبّت اور عقیدت تھی۔
حضرت شاہ رفیع الدین قندہاری قبلہ رح کے سلسلہ کا فیض کی شکل میں آج جامعہ نظامیہ ایک درخت کے مانند اپنے علمی خدمات انجام دے رہا ہے الحمدللہ
وَءَاخِرُ دَعۡوَىٰهُمۡ أَنِ ٱلۡحَمۡدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلۡعَٰلَمِينَ
وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا محمدو الہ واصحابہ اجمعین۔
از قلم: شاہ محمد رفیع الدین فاروقی قادری رفاعی
بسمت نگر، ہنگولی،مہاراشٹرا۔(خلیفہ حضرت قاری شاہ محمد تاج الدین فاروقی قبلہ)