اولیا و صوفیا سیدنا احمد کبیر رفاعی

تذکرہ حضرت مفتی سید ابوالحسن شاہ جہاں المعروف نورالدین سیف اللہ رفاعی شافعی رحمتہ اللہ علیہ

ازقلم: سید حسام الدین ابن سید جمال الدین رفاعی
خانقاہ رفاعیہ بڑودہ گجرات
9978344822

یقینا خاندان نبوت کا ہر فرد نور ہی نہیں منبع نور ہواکرتا ہے، پھر اگر یہی منبع نور مصدر علم و حکمت بھی ہو جائے تو اس کی عظمت و جلالت کو جبین ثریا بھی جھک کر سلام کرتی ہے۔ خاندان رفاعی کے چشم و چراغ، مفتی رفاعیہ حضرت سید ابوالحسن شاہ جہاں المعروف سید نورالدین سیف اللہ رفاعی کی ذات ستودہ صفات محتاج تعارف نہیں ہے۔ خاندان رسالت سے منسوب ہونے کی بنا پر اگر ایک طرف آپ کے رخ انور پر سیادت کا نور چمکتا تھا تو ایک جید عالم دین اور عبقری فقیہ ہونے کے ناطے آپ کے سر پر علم و معرفت کا تاج زریں بھی دمکتا تھا۔ آپ بیک وقت صاحب نسبت پیر و مرشد، عالم باعمل، فقیہ بے بدل اور باکمال مفتی تھے۔ آپ علم و حکمت، سیادت و نجابت، تقوی ر طہارت، رشد و ہدایت اور خلوص و للہیت کا حسین سنگم تھے۔

نام و نسب

آپ کا اسم گرامی نورالدین،کنیت ابوالحسن،لقب سیف اللہ و شاہ جہاں، مشربا رفاعی اور مسلکا شافعی آپ کا تخلص نور ہے۔ والد گرامی کا نام نامی السید ابو النصر محمد امین اللہ الثانی المعروف سید حسام الدین الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ ہے، آپ رفاعی حسنی حسینی سید ہیں، 20 واسطوں آپ کا سلسلہ نسب صاحب سلسلہ حضرت سید احمد کبیر رفاعی رحمتہ اللہ علیہ سے جا ملتا ہے۔
آپ کا شجرہ نسب حسب ذیل ہے
(١) حضرت السید ابوالحسن شاہ جہاں المعروف سید نورالدین سیف اللہ رفاعی بن (٢) سید ابوالنصر محمد امین اللہ الثانی المعروف سید حسام الدین رفاعی بن (٣) سید بدرالدین ابو صالح محمد باقر المعروف سید شاہ جہاں رفاعی بن (۴) سید ابوالظفر صمصام الدین المعروف سید علی زین العابدین اسد اللہ الرفعت رفاعی بن (۵) سید عماد الدین احمد اللہ رفاعی بن (٦) سید رکن الدین المعروف یوسف سیف اللہ رفاعی بن (٧) سید نجم الدین المعروف عبدالرحیم رضوان اللہ رفاعی ثانی بن (٨) سید سراج الدین الموروف محمد امین محبت اللہ رفاعی بن (٩) سید فخرالدین المعروف صالح آفندی حامد اللہ رفاعی بن (١٠) سید علی رفاعی بن (١١) سید عبداللہ رفاعی بن (١٢) سید حسین رفاعی بن (١٣) سید قاسم شرف الدین بحر علوم اللہ رفاعی بن (١۴) سید ابوالمحامد یوسف تاج الدین ہیبت اللہ رفاعی بن (١۵) سید علی داغر صاحب الشباک رفاعی بن (١٦) سید ابوالعباس احمد حجت اللہ رفاعی بن (١٧) سید سیف الدین عبدالرحمن مختاراللہ رفاعی بن (١٨) سید عمر جیش اللہ رفاعی بن (١٩) سید رضی الدین ابراہیم کنز معرفت اللہ رفاعی بن (٢٠) سید محمد معدن اسراراللہ رفاعی بن (٢١) حضرت غوث الثقلین ابوالعلمین سید احمد کبیر رفاعی۔۔۔
آپ کا سلسلہ طریقت
آپ کا سلسلہ طریقت 21 واسطوں صاحب سلسلہ حضرت سید احمد کبیر رفاعی رحمتہ اللہ علیہ تک پہنچتا ہے جو حسب ذیل ہے:
(١) حضرت کامل و مکمل مولانا مفتی السید ابوالحسن شاہ جہاں المعروف سید نورالدین سیف اللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ نے اس طریقے کی نعمت کو تمام سلسلوں سے اپنے والد ماجد (٢) حضرت السید ابوالنصر محمد امین اللہ الثانی المعروف سید حسام الدین الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ اور آپ نے اپنے والد (٣) حضرت کامل مکمل مولانا السید بدرالدین ابو صالح محمد باقر المعروف سید شاہ جہاں الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ سے اور آپ نے اپنے والد (۴) حضرت السید ابوالظفر صمصام الدین المعروف سید علی زین العابدین اسد اللہ الرفعت الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ سے اور آپ نے اپنے چچا حضور (۵) حضرت السید محی الدین سلیم اللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ سے اور آپ نے اپنے والد (٦) حضرت السید رکن الدین المعروف یوسف سیف اللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ سے اور آپ نے اپنے والد (٧) حضرت الشیخ عارف العالم الکامل الفاضل الشریف السید نجم الدین المعروف عبدالرحیم رضوان اللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی قدس اللہ سرہ سے (مزار مبارک خانقاہ رفاعیہ وریاوی بھاگل،سورت گجرات) اور آپ نے اپنے والد (٨) حضرت الشیخ السید سراج الدین المعروف محمد امین محبت اللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ سے اور آپ نے اپنے والد (٩) حضرت الشیخ السید فخرالدین المعروف سید صالح آفندی حامد اللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ سے اور آپ نے اپنے والد (١٠) حضرت الشیخ السید علی الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ سے اور آپ نے اپنے والد (١١) حضرت الشیخ السید عبداللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ سے اور آپ نے اپنے والد (١٢) حضرت الشیخ السید حسین الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ سے اور آپ نے اپنے والد (١٣) حضرت الشیخ السید قاسم شرف الدین بحرعلوم اللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ سے اور آپ نے اپنے والد (١۴) حضرت الشیخ السید ابوالمحامد یوسف تاج الدین ہیبت اللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ سے اور آپ نے اپنے والد (١۵) حضرت الشیخ السید علی داغر صاحب الشباک الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ سے اور آپ نے اپنے والد (١٦) حضرت الشیخ السید ابوالعباس احمد حجت اللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ سے اور آپ نے اپنے والد (١٧) حضرت الشیخ السید سیف الدین عبدالرحمن مختاراللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ سے اور آپ نے اپنے والد (١٨) حضرت الشیخ السید عمر جیش اللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ سے اور آپ نے اپنے والد (١٩) حضرت الشیخ السید رضی الدین ابراہیم کنز معرفت اللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ سے اور آپ نے اپنے والد (٢٠) حضرت الشیخ غوث الافاق شمس العراق السید محمد معدن اسراراللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ سے اور آپ نے اپنے والد ماجد (٢١) حضرت الشیخ غوث الثقلین ابوالعلمین سلطان العارفین محی الحق و الشرع والدین سید احمد کبیر معشوق اللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی قدس اللہ سرہ العزیز سے حاصل کیا،۔۔۔یہاں سے آپ کا سلسلہ طریقت سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ کی کتب سیر میں موجود ہیں۔
ولادت
آپ کی ولادت با سعادت یکم صفر المظفر 1271ھ میں ہندوستان کی اقتصادی و صنعتی راجدھانی عروس البلاد ممبئی میں ہوئی۔
تعلیم و تربیت
آپ کی اکثر و بیشتر تعلیم ممبئی میں ہوئی۔ عربی ناظرہ، صرف و نحو اور فقہ و حدیث کی ابتدائی تعلیم حضرت مولانا نصیرالدین صاحب سے حاصل کی،زبان فارسی کی تعلیم حضرت مولانا حاجی سید احمد صاحب قادری مدراسی سے حاصل کی، اس کی تکمیل حضرت مولانا نظام الدین صاحب صدر مدرس مدرسہ کمو سیٹھ سے کی۔ منطق، علم معانی اصول فقہ اور اصول تفسیر جیسے اہم علوم کی ابتدائی تعلیم بھی حضرت مولانا نظام الدین صاحب سے حاصل کی پھر ان تمام علوم و فنون کی تکمیل حضرت مولانا عبیداللہ صاحب صدر مدرس مدرسہ جامع مسجد ممبئی کے یہاں فرمائی۔
حصول تعلیم کے دوران اپنے دور کے عالم با عمل اور صوفی کامل حضرت سید حفیظ الدین قادری علیہ الرحمہ کی خدمت میں زانوے تلمذ تہ کیا۔ صوفی صاحب قبلہ کی صحبت نے آپ کو عالم کے ساتھ بہترین عامل بنا دیا۔ اس طرح سے علم و حکمت کا یہ آفتاب عالمتاب تعلیم و تربیت کی کسوٹی پر گھس کر کندن بن گیا اور عمر کے مختصر سے حصے میں حکمت و دانائی فہم و فراست اور تقویٰ و طہارت کا پیکر جمیل بن گیا۔
ایں سعادت بزور بازونیست
تانہ بخشد خداے بخشندہ

اجازت و خلافت:
آپ نے جب ظاہری علوم و فنون کی تکمیل کرلی تو باطنی علوم کے حصول کی طرف توجہ دی۔ اس کے لیے آپ کو کہی دور جانے کی ضرورت نہیں تھی آپ کا گھر خود ہی باطنی علوم اور روحانی تعلیم و تربیت کا سرچشمہ تھا، آپ کے والد گرامی اس وقت کے سلسلہ رفاعیہ کے صاحب سجادہ اور مسند نشین تھے۔ باپ سے بہترین بیٹے کی تربیت کون کر سکتا ہے؟ چنانچہ آپ کے والدگرامی حضرت السید ابوالنصر محمد امین اللہ الثانی المعروف سید حسام الدین رفاعی علیہ الرحمہ(ممبئی) نے آپ کو اپنی تربیت میں لے لیا، ریاضت و مجاہدہ کرایا، پھر جب آپ کے اندر اہلیت کا احساس ہوا تو آپ کے والد ماجد نے ١١/ شوال المکرم ١٢٨۴ھ میں بمقام شہر راجہ پور (رتنا گیری، مہاراشٹر) میں بہت سارے خلفاء،چاوش اور مریدین کے سامنے مجمع عام میں سلسلہ رفاعیہ کی دستار خلافت و مشیخت سے نوازا اور اپنا خلیفہ بناکر لوگوں کی رشد و ہدایت اور ان کو بیعت کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ اس طرح کل تیرہ (13) سال کی عمر میں آپ کے نازک کندھوں پر اتنی بڑی ذمہ داری کا بوجھ رکھ دیا گیا اور اس ننھی سی عمر میں آپ کو اتنے عظیم منصب سے سرفراز کردیاگیا۔
سلسلہ رفاعیہ کے بزرگوں میں آپ کو یہ انفرادی اور امتیازی شان حاصل ہے کہ سلسلہ رفاعیہ کی اجازت و خلافت کے ساتھ مشہور سلاسل قادریہ، نقشبندیہ، سہروردیہ اور چشتیہ کی بھی اجازت و خلافت حاصل تھی۔ چنانچہ دوران تعلیم ہی آپ کے استاذ و مربی حضرت مولانا سید حفیظ الدین قادری علیہ الرحمہ نے آپ کو سلسلہ عالیہ قادریہ، نقشبندیہ، سہروردیہ اور چشتیہ کی اجازت و خلافت سے نواز دیا تھا۔ اس طرح سے آپ سلسلہ رفاعیہ کے ساتھ معروف سلاسل اربعہ کا سنگم بن گئے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے اندر ہر سلسلہ کی جھلک پائی جاتی تھی۔ اور آپ یکساں طور سے ہر سلسلہ کا احترام بھی بجالاتے تھے۔ آج کے مرشدان طریقت اور پیران عظام کے لیے نمونہ عمل اور مکمل آئیڈیل ہیں۔

*مسند رشد و ہدایت پر:* خانقاہ رفاعیہ بڑودہ( گجرات) میں حضرت مولانا سید احمداللہ رفاعی بن مولانا سید عبدالرحیم المعروف دادامیاں رفاعی بن مولانا سید فخرالدین غلام حسین المعروف امیرمیاں رفاعی بڑودہ میں مسند سجادگی پر رونق افروز تھے، آپ کے کوئی صاحبزادے نہ تھے صرف بچیاں تھیں،اس لیے جب 1301ھ میں آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ اپنا سجادہ نشین کس کو بنائیں۔ اس وقت مولانا مفتی سید ابوالحسن شاہ جہاں المعروف نورالدین سیف اللہ رفاعی ممبئی میں تھے۔ حضرت سید احمداللہ رفاعی علیہ الرحمہ کی عقابی نگاہ نے بہت پہلے دیکھ لیا تھا کہ میری جانشینی کا صحیح حقدار اس وقت سید نورالدین رفاعی کے علاوہ کوئی نہیں۔ چنانچہ قبل وفات آپ نے تمام تبرکات اور اپنا جبہ ،عمامہ اور تسبیح وغیرہ میر عظیم الدین خاں صاحب بخشی سورت کے پاس اس تحریر کے ساتھ بھیج دیا کہ میری وفات کے بعد یہ ساری امانتیں حضرت سید ابوالحسن شاہ جہاں المعروف نورالدین سیف اللہ رفاعی کو ممبئی سے بلا کر ان کے حوالے کردی جائیں گی اور تمام فقراء و مشائخ کی موجودگی میں انھیں میرا جانشین نامزد کرکے میری سب سے بڑی بچی کے ساتھ آپ کا عقد کردیا جائے گا۔ چنانچہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی تحریری وصیت کے مطابق جناب میر عظیم الدین خان نے حضرت کو ممبئی سے بلا کر ان سارے تبرکات کو آپ کے حوالے کردیا اور 20/ ذیقعدہ 1301ھ کو تمام علما و مشائخ کی موجودگی میں آپ کو حضرت سید احمداللہ رفاعی کا جانشین اور سلسلہ رفاعیہ کا سجادہ نشین مقرر کیا۔ ساتھ ہی ساتھ حسینہ بیگم دختر نیک اختر حضرت سید احمداللہ رفاعی علیہ الرحمہ کے ساتھ آپ کا عقد بھی کر دیا۔ جن کے بطن سے آپ کے فرزند ارجمند سید ابوالعباس محمد فیض اللہ المعروف سید بدرالدین رفاعی(10 / رمضان المبارک، 1302ھ ) کا تولد ہوا۔ اس واقعہ کی پوری تفصیل "حقیقت السورت” میں درج عبارت میں موجود ہے۔ *”اما سید احمد اللہ رفاعی مذکور بعد از پدر بر سجادہ مشیخت مدتی بودہ سہ دخترگزاشتہ بتاریخ چہارم ذیقعدہ 1301ھ انتقال فرمود نزد جدش امیرمیاں در بڑودہ بخانقاہ رفاعیہ مدفون شدہ اند سید احمد اللہ مذکور قبل وفات تبرکات سجادگی جبہ و عمامہ و سبح خود نزد عظیم الدین خان بخشی سورت و فقیران وغیرہ جانشین من قراردادہ بادختر کلاں من منسوب سازند۔ چنانچہ بموجب تحریرشان سید نورالدین رفاعی مذکور را بتاریخ بستم ماہ ذیقعدہ 1301ھ بحضور مشائخین وغیرہ تبرکات سجادگی بخشی صاحب موصوف دادہ بر سجادہ مشخیت نشانند۔ ونیز حسینی بیگم دختر کلاں سید احمد اللہ رفاعی رادر عقد نکاح شان دادند”

(📚 ص ٧، مطبوء شہابی ممبئی)
مسند رشد و ہدایت پر جلوہ افروز ہونے کے بعد آپ نے اپنا میدان عمل گجرات، مہاراشٹر، کوکن، گوا، دکن ،کرناٹک ،ملبار وغیرہ کے علاقوں کو بنایا۔ کافی مہنت و مشقت اور خلوص و للہیت کے ساتھ دعوت و تبلیغ اور ارشاد و ہدایت کا فریضہ انجام دیا، ہزاروں لوگ داخل سلسلہ ہوے۔ آخری عمر تک اس فریضے کی ادائیگی کرتے رہے۔ خود بھی عبادت و ریاضت اور مجاہدہ و مراقبہ کے عادی تھے اور یہی صفات اپنے مریدین و متوسلین کے اندر بھی پیدا کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ آپ کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں بے راہ رو لوگ راہ راست پر آگئے اور بے شمار عصیاں شعار اپنی عصیاں شعاری سے تائب ہوکر مرد مومن بن گئے۔
اخلاق عالیہ و اوصاف حمیدہ
آپ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ اخلاق نبوت کا پیکر مجسم تھے۔ ہر حرکت و ادا سنت رسول کے مطابق ہواکرتی تھی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادات و اطوار کے عکس عیاں اور آپ کے اوصاف و خصائل کا آئینہ درخشاں تھے۔
آپ کی زندگی کا مشاہدہ کرنے والوں کا بیان ہے کہ آپ کے اندر ایک درد مند دل تھا۔ جو ہمیشہ قوم مسلم کی خیر خواہی میں دھڑکتا رہتا۔ کہی سے مسلمانوں کی کامیابی کی خبر سنتے تو چہک اٹھتے، ان کی پریشانی اور زوال کی خبر سنتے تو حسرت و الم کا مجسمہ بن جاتے، کسی بیمار کی خبر سنتے عیادت میں دیر نہیں لگاتے، کسی پریشان حال کو دیکھتے اس کی پریشاں حالی کو دور کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتے، گھر میں ہوں یا باہر اپنا کام خود انجام دیتے، تواضع و فروتنی کا نمونہ تھے، چھوٹے پر شفقت اور بڑے کی عزت کرتے، علماء کو دیکھتے تو ان کی دست بوسی و قدم بوسی کر لیتے، معاصرانہ چپقلش اور حسد و تعصب سے یکسر پاک تھے، تمام بزرگوں کا احترام کرتے خواہ وہ کسی بھی سلسلے کے ہوں، عبادت و ریاضت میں یکتاے روزگار تھے۔ مردہ دل قوم کی مسیحائی اوڑھنا بچھونا تھا۔ رشد و ہدایت زندگی کا اصل مقصود تھا، دعوت و تبلیغ شب و روز کا معمول تھا۔
عشق رفاعی
اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے آل و اصحاب کے بعد ایک انسان پر لازم ہے کہ وہ سب سے زیادہ اپنے پیرومرشد سے محبت کرے، چنانچہ سلوک طریقت کے جادہ پیما کے لیے اولین شرط محبت مرشد ہے۔ اس کے بغیر وہ اپنی منزل تک پہنچ ہی نہیں سکتا ہے۔
حضرت ابوالحسن شاہ جہاں المعروف نورالدین سیف اللہ رفاعی کی کتاب حیات کا ایک ایک ورق محبت مرشد اور بالخصوص محبت رفاعی سے تابندہ ہے۔ حضرت رفاعی سے آپ کو غایت درجے کی محبت تھی۔ آپ سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار آپ نے مختلف انداز میں فرماتے ہے۔ اپنے اخلاق و کردار سے بھی اور تحریر و تقریر سے بھی۔
حضرت رفاعی قدس سرہ سے آپ کی عقیدت کا عالم یہ ہے کہ ایک جگہ اپنے ایک قصیدے میں فرماتے ہیں:
نہ ٹھہروں گا میسر گر نہ ہو پا بوسی حضرت
جہاں میں، خلد میں، فردوس میں گلزار رضواں میں
حضرت رفاعی کے نام کو حرزجاں بنانے کے لیے بارگاہ الہی میں یوں دعا گو ہیں:
الہی حرز جاں ہو نام احمد تا رہوں خرم
جہاں میں قبر میں فردوس میں محشر کے میداں میں
آپ کے روضہ کی عظمت شان ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
نہ ٹھہرے ایک لحظہ جو تیرے روضہ کو دیکھ آوے
حویلی میں مکانوں میں محل میں قصر و ایواں میں
آپ کے رخ انور پر اپنی جان چھڑکتے ہوے ایک جگہ فرماتے ہیں:
اے دل و جانم فداے روے تو
قبلہ حاجت خم ابروے تو
سنبل جنت خجل از موے تو
یا رفاعی غوث اعظم دستگیر
اس طرح کے آپ کے بہت سارے اقوال و اشعار ہیں جن سے آپ کے عشق رفاعی کا اظہار ہوتا ہے۔
تبحر علمی
حضرت مولانا مفتی سید ابوالحسن شاہ جہاں المعروف نورالدین سیف اللہ رفاعی علیہ الرحمہ منفردالمثال پیرومرشد ہونے کے ساتھ ایک جید عالم دین، عبقری فقیہ اور بے نظیر مفتی بھی تھے۔ علمی گہرائی و گیرائی، فکری صلابت، تحقیقی لیاقت اور تصنیفی صلاحیت کے لحاظ سے آپ امتیازی شان کے حامل تھے۔ منطق و فلسفہ علم معانی و بلاغت،اصول فقہ و تفسیر اور علم نحو و صرف میں کامل درک رکھتے تھے۔
ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی تجلیات رفاعی کے عرض مرتب لکھتے ہیں:
"آپ کی علمی صلاحیت بہت اچھی تھی، عربی اور فارسی زبان میں آسانی سے بات چیت کر لیا کرتے تھے ساتھ ہی ساتھ آپ خوش بیان مقرر اور عربی و فارسی اور اردو کے خوش خط کاتب بھی تھے۔ حضرت کی علمی صلاحیت و لیاقت ہی کے ناتے آپ کے دور کے بہت سارے علماء عظام و مفتیان کرام علمی معاملات میں آپ سے رجوع کرتے، عوام آپ سے استفتاء کرتے اور آپ ان کا شافی جواب تحریر فرماتے۔ اپنے دور کے مناظروں میں آپ کی شرکت متعدد تاریخی حوالوں سے ثابت ہے۔
چنانچہ دمن کے ایک مناظرہ میں آپ نے بھی شرکت کی، دمن میں آپ سے سلسلہ رفاعیہ میں مرید تھے، دمن، جو شہر سورت کے پاس ایک جزیرہ ہے۔ جہاں مچھیرے اور کچھ کاروباری بھی آباد ہیں۔ یہ 1915ء کی بات ہے،یہاں مسجد اور عیدگاہ تھی۔ لوگ سب سنی صحیح العقیدہ تھے۔ دو چار جو ہواے کھاے تھے، بربنا نفسانیت دوسری عیدگاہ قائم کرنے کی ٹھان لی۔ عام اکثریت نے ڈھیروں سمجھایا، مگر نہ ماننا تھی، نہ مانے۔ استفتا کی صورت میں یہ معاملہ امام اہلسنت امام
احمد رضا خان علیہ الرحمہ کے دارالافتاء میں پہنچا۔امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے شرعی دلیلوں کی روشنی میں فہمائش کی۔ اس فتویٰ پر جہاں اجلہ علماء ہندوستان کی تائیدات و دستخط ہیں، وہیں خانقاہ رفاعیہ،بڑودہ گجرات کے ایک ذی علم بزرگ عالی مرتبت شیخ طریقت مفتی سید ابوالحسن شاہ جہاں نورالدین سیف اللہ رفاعی علیہ الرحمہ نے بھی تائید و دستخط کیے ہے۔ یہ حوالہ "فتاویٰ علماء زمن در دفع فساد اہل دمن” میں دیکھا جا سکتا ہے،جو کتاب مطبع تحفہ حنفیہ،پٹنہ سے 1919ء میں چھپی ہے۔”( تجلیات امام رفاعی ص: 10 )
ظاہر ہے مناظرے میں بحیثیت مناظر معمولی صلاحیت کا انسان نہیں شریک ہوتا ہے۔
تصنیف و تالیف
حضرت سید ابوالحسن شاہ جہاں المعروف نورالدین سیف اللہ رفاعی صرف زبان ہی کے نہیں قلم کے بھی دھنی تھے۔ آپ کے نوک قلم سے متعدد تحریریں وجود میں آہیں۔کافی تلاش و تحقیق کے باوجود آپ کی صرف دو مطبوعہ کتابیں دستیاب ہوسکیں۔ ان میں سے ایک کا نام "طریقہ شریعت” ہے جو فقہی احکام و مسائل پر مشتمل ہے جسے انجمن احباب ممبئی نے 1299ھ میں شائح کیا تھا۔ یہ رسالہ کل 19 صفحات پر مشتمل ہے، نماز،روزہ، حج اور رکوة کے فضائل و مسائل،طریقت وشریعت کا صحیح مفہوم، ذکر الہی کے فوائد و فضائل،احکام شریعت سے تمسخر کرنے والوں کی تردید، بزرگان سلف کی کتابوں میں مذکور شراب و ساقی اور پیمانہ جیسے الفاظ کی واضح تشریح، شراب نوشی کی مذمّت اور جاہل پیروں اور نام نہاد صوفیوں کی نقاب کشائی جیسے اہم موضوعات کے حوالے سے اس کتاب میں بڑی نفیس بحث پیش کی گئی ہے۔ اس سے مصنف علیہ الرحمہ کی صلاحیت و صلابت کا پتہ چلتا ہے۔
دوسری کتاب تاریخی نام "تحقیقات النور الملقب بہ تحفہ رفاعیہ” کے نام سے معروف ہے۔ 1306ھ میں اس کی تصنیف ہوئی ہے، سلسلہ رفاعیہ کے خانقاہی رسوم و رواج اور اہل سنت و جماعت کے عقائد و نظریات کے تعلق سے بارہ (١٢) سوالات مصنف علیہ الرحمہ کی خدمت میں پیش کئےگئے تھے، جن کا آپ نے نہایت تفصیلی جواب لکھا۔ قرآن و حدیث، اقوال علما و ائمہ، فقہی و تفسیری عبارات اور عقلی دلائل سے مزین یہ جوابات ہیں اور مصنف کے ہم عصر متعدد علما و مشائخ کے دستخط و مواہیر سے مزین ہے جس سے اس کتاب کے اعتبار و اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے جس کو آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
ذوق شعر و سخن:
حضرت رفاعی رضی اللہ عنہ کی شان میں منقبت کے یہ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
*نمایاں ہے تمہارا جلوہ انوار انساں میں
جگر میں سینے میں پہلو میں دل میں جسم میں جاں میں

*تمہارے ناخن پا کا کہاں ہے حسن خوباں میں
ملک میں حور میں غلماں میں اور جن و انساں میں

*تمہارے حسن کا چرچاہے شاہا چار سو ہر دم
عرب میں ہند میں اور روم میں اقلیم ایراں میں

*ضیا کب ہے مثال روۓ احمد بلکہ ایک شمہ
ستاروں میں ثوابت میں قمر میں مہر رخشاں میں

*پڑے پھرتے ہیں شیدا آپ کے ہر لحظہ سر گرداں
چمن میں شہر میں کہسار میں دشت و بیاباں میں
ایک دوسری جگہ حضرت نور ذکر خدا کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
*یہا ذکر خدا ہوتا ہے آئے جس کا جی چاہے
کھلا دروازہ جنت ہے جائے جس کا جی چاہے

*بغیر از زر کے حاصل ہوتا ہے بازار دنیا میں
یہ سودا آخرت کا ہے کماے جس کا جی چاہے

*یہ بزم ذکر یزداں ہے کھلے ہیں راز عرفاں کے
خفی کا جہر سے کل رمز پاے جس کا جی چاہے

ایک دوسری جگہ حضرت نور حضرت رفاعی رضی اللہ عنہ کی شان میں اس طرح سے زمزمہ سنجی کررہے ہیں:
*شاہنشہ ہر دو جہاں حضرت رفاعی پیر ہیں
اور والی کُل انس و جاں حضرت رفاعی پیر ہیں

*وہ گوہر بحر سخا وہ معدن لطف و عطا
وہ منبع صدق و صفا حضرت رفاعی پیر ہیں
*مسند نشیں لا مکاں اور پیشواے سالکاں
وقف زاسرار نہاں حضرت رفاعی پیر ہیں

*سرتاج دار اصفیا سلطان کُلُّ الاولیا
سب اولیا کے پیشوا حضرت رفاعی پیر ہیں

*چشم و چراغ مصطفٰے نور و ضیاء مرتضٰے
جان و دل خیرالنساء حضرت رفاعی پیر ہیں

*فرزند شاہ کربلا دلبند حسنُ المجتبیٰ
معشوق رب کبریا حضرت رفاعی پیر ہیں

ایک دوسری منقبت میں اس طرح سے نغمہ ریز ہیں:

*جان و دل عشق رفاعی میں بہم دے دیں گے ہم
تحفہ ناچیز ہے گر ایک قلم دے دیں گے ہم

*عرض کیجو آپ کا خادم تڑپتا ہے یہاں
بھول مت جانا صبا رب کی قسم دے دیں گے ہم

*ہم وہ شیدا ہیں رفاعی کے نہ پھر آویں کبھی
کوچہ غوث الوریٰ میں اپنا دم دے دیں گے ہم
ایک اور منقبت کے اشعار ملاحظہ ہوں:
*بغیر از رفاعی سہارا نہیں ہے
بدوں از تیرے در گزارا نہیں ہے

*کہاں روے انور کی اس میں تجلی
مقابل تیرے چاند تارا نہیں ہے

*بلا لیجئے اپنی خدمت میں شاہا
کہ فرقت کا صدمہ گوارا نہیں ہے

*رفاعی ہے غوث الوریٰ قطب عال
ولی کوئی ثانی تمہارا نہیں ہے

*جہاں میں اور عقبیٰ میں حضرت رفاعی
سوا کوئی حامی ہمارا نہیں ہے

*ولی گرچہ صدہا مقرب ہیں لیکن
بجز آپ کے مسند یارا نہیں ہے
ایک جگہ مزید فرماتے ہیں:
*بچشم باطن نظر جماکر جمال خیرالوریٰ کو دیکھو
تو من رآنی کا رمز پاوٙ نبی کو دیکھو خدا کو دیکھو

*جمال مرشد میں محو ہوکر خودی کو اپنی فنا کرو تب
فنا کے اندر بقاء ہو حاصل تو پھر فنا میں بقا کو دیکھو

ایک جگہ حمد الہی بجا لاتے ہوے فرماتے ہیں:

*سر نہیں نشہ الفت میں جو مخمور نہیں
دل نہیں جو کہ تیرے عشق سے معمور نہیں

*نحن اقرب سے ہوا رمزخفی کا ظاہر
آپ نزدیک ہی میرے ہیں کہی دور نہیں

*نہیں اترے ہیں خمار از سر مستان الست
مئے توحید ہیں یہ بادہ انگور نہیں
*فارسی شاعری*
حضرت نور علیہ الرحمہ فارسی زبان میں بھی اچھی شاعری کرتے تھے۔ برجستگی روانی سلاست عام فہم زبان کا استعمال یہ سب آپ کی فارسی شاعری کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ فارسی اشعار کے چند نمونے حاضر ہیں:
*لطف فرما سید احمد کبیر
یا رفاعی غوث اعظم دستگیر
دستگیری کن بروز دارو گیر
یا رفاعی غوث اعظم دستگیر

*سیدی بہر خدا شود دستگیر
کن رہا از بند غم پیران پیر
دل شود پر نور اے روشن ضمیر
یا رفاعی غوث اعظم دستگیر

چند سوزم در فراقت اے شہا
از وصال خویش شاداں کن مرا
روز و شب ایں است از تو التجا
یا رفاعی غوث اعظم دستگیر

*اے دل و جانم فداے روے تو
قبلہ حاجت خمِ ابروے تو
سنبل جنت خجل از موے تو
یا رفاعی غوث اعظم دستگیر

*در حساب اولیا اوّل شدی
در چہار اقطاب تو افضل شدی
وز ہما اعلٰی تر و اکمل شدی
یا رفاعی غوث اعظم دستگیر

*در گروہ اولیا تو سروری
غوثیت وز قطبیت افزوں تری
آنچہ میگویم ازاں بالا تری
یا رفاعی غوث اعظم دستگیری

پرتو مہرت بزّرہ می کند بدر منیر
لطف فرما بر پریشانی حالم اے شہا
👆 یہ شعر کی وضاحت کرتے ہوے حضرت سید بدرالدین محبت اسراراللہ رفاعی صاحب کراچی پاکستان اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں، واضح رہے کہ یہ تحریر آپ نے راقم کے استفسار پر قلم بند فرمائی تھی:
شاہ من سلطان عالم سید احمد کبیر ،خاطر من جمع کن یا غوث اعظم دستگیر یہ شعر ہندوستان میں بہت قدیم الایام سے حضرت سیدی احمدالکبیر معشوق اللہ الرفاعی کی شان میں پڑھا جاتا ہے، "الجوھر الفرید” میں حضرت مولانا سید محمد کمال الدین صوفی الحسینی الرفاعی استنبولی (ترکی) لکھتے ہیں کہ یہ ایک ندا،صدا، پکار اور ورد ہیں، مرید عقیدت و محبت میں وجد کے عالم میں اپنے مرشد اعظم پیر کبیر السید احمد الکبیر معشوق اللہ الرفاعی کو بے خودی اور جذبات میں والہانہ پکارتا ہے، آواز دیتا ہے، تاکہ حضرت غوث الرفاعی اس پر نظر کرم فرمائیں اور اس مرید کی رہبری و رہنمائی ہو،یعنی ھدایت،علم و حکمت،احکامات خداوندی اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع حصل ہو، ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات اور مشکلات سے نجات اور نفع حاصل ہو، ہمارے جد امجد مرشد اعظم شاہ من سلطان عالم پیر کبیر السید احمد کبیر معشوق اللہ نے اپنی پوری حیات جاوِداں صرف سنت اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں بسر کی اور آپ سرخرو و سرفراز ہوے، اس طرح کہ آپ حضرت والا غوث الرفاعی کو عظیم تر اعزاز و اکرام سے نوازہ گیا۔ یہ واقعہ نورانی پوری دنیا خوب جانتی ہے اور بڑے بڑے جید و نامور علماءاکرام نے اپنی کتابوں میں بڑے مفصل انداز میں اس عظیم واقعہ بے مثال و لاثانی کا ذکر کیا ہے۔ مختصر یہ کہ یہ شعر اولاد رفاعی اور دیگر مریدان و عقیدت مندان رفاعی کے ورد میں شامل ہے اور ہمارے دادا حضور حضرت سید ابوالحسن شاہ جہاں المعروف سید نورالدین سیف اللہ رفاعی نے اس شعر سے متاثر ہوکر اس پر رباعی لکھی ہے، اور اس پر ایک پورا قصیدہ جو کتاب راتب رفاعیہ میں داداجان نورالدین رفاعی نے لکھا ہے۔
اس پوری رباعی یعنی چار مصرع کا پڑھنا باعث اطمینان قلب اور توجہ مرشد اعظم ہے۔ ۔۔۔تقریبا دو صدیاں سے یہ بیت شہرہ آفاق ہیں، اور بزرگان رفاعی اس کو پڑھتے آے ہیں،مرشد اعظم شیخ السید احمد الکبیر الرفاعی کے نام نامی اسم گرامی کی یاد قلب میں تازہ رکھنے کے لیے یہ شعر ہمیشہ پڑھا جا سکتا ہے۔
شاہ من سلطان عالم سید احمد کبیر
پرتوے مہرت بزّرہ می کند بدر منیر
لطف فرما بر پریشانی حالم اے شہا
خاطر من جمع کن یا غوث اعظم دستگیر
عربی شاعری
دوسری زبانوں کی طرح حضرت نور علیہ الرحمہ عربی میں بھی بلا تکلف شاعری فرماتے تھے۔ فصاحت و بلاغت شیرینی و سلاست بر جستگی و روانی آپ کی عربی شاعری کی خصوصیات ہیں:
ذیل میں ایک قصیدہ سے ماخوذ چند عربی اشعار ملاحظہ ہوں۔
*شیاً للہ یا ابن الرفاعی
شیاً للہ یا خیر داعی
شیاً للہ یا ذا لارتقاعی
المدد یا ابن الرفاعی

*یا مزلل السباعی
قاطم سم الافاعی
کن معینی فی الدواعی
المدد یا ابن الرفاعی

*صاحب الفخر المخلد
بالنبی الھادی الممجد
التجینا بک یا جد
المدد یا ابن الرفاعی

*یا سراج العارفین
یا امام المتقین
کن معین الخادمین
المدد یا ابن الرفاعی

*نالہ کل المواھب
والمقاصد والمطالب
من ینادی فی النوائب
المدد یا ابن الرفاعی

*ساکن ام عبیدہ
ذوالمناقب الحمید
جاء نور بالقصیدہ
المدد یا ابن الرفاعی


کشف و کرامت
ایک مومن کامل کی سب سے بڑی کرامت عبادت الہی اور اتباع سنت نبو ہے۔ اس سے بڑھکر کوئی کرامت نہیں۔ ہوا میں اڑنا، پانی میں چلنا، درندوں کو مسخر کر لینا یہ ولایت کے لوازم و خصائص نہیں ہیں، ہاں اگر رب تعالیٰ اپنے فضل خاص سے اپنے کسی محبوب بندے کو تقویٰ و طہارت اور اتباع سنت کی توفیق دینے کے ساتھ ان خارق عادت امور سے بھی نوازدے تو کوئی حرج نہیں۔
حضرت سید ابوالحسن شاہ جہاں المعروف سید نورالدین سیف اللہ رفاعی علیہ الرحمہ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اطاعت خداوندی اور اتباع سنت مصطفوی سے معمور تھا، یہی آپ کی سب سے بڑی کرامت تھی۔ آپ نے نہ تو اظہار کرامت کے شائق تھے اور نہ اس کو پسند فرماتے تھے۔ تاہم کہی کسی منکر کے انکار کو روکنے کے لیے یا کسی کے وہم و وسوسے کو دور کرنے کے لیے خارق عادت امور کو اظہار بھی فرمایا ہے۔ اس کے پیچھے آپ ذاتی یا ریاکاری کار فرما نہیں تھی۔ محض منکرین کے انکار یا وہم کرنے والوں کے وہم کا ازالہ مقصود تھا۔
ذیل میں ہم چند کرامتوں کا ذکر کرتے ہیں۔
ناگرواڑہ بڑودہ میں آپ ایک مجلس میں درس حدیث دے رہے تھے۔ دوران درس آپ نے ایک ایسی حدیث کا ذکر فرمایا کہ جس کا مفہوم یہ تھا کہ سادات کو آگ نہیں جلاتی ہے۔ کسی کے دل میں اس حدیث کو لیکر کے وہم نہ پیدا ہو اس لیے آپ نے وہیں پر دعوی حدیث کی دلیل بھی فراہم کردی ،چنانچہ آپ نے اپنے دونوں ہاتھ جلتے ہوے مشعل پر رکھ دیا اور اختتام مجلس تک رکھے رہے،عینی مشاہدین کے مطابق آپ کے ہاتھ کو کوئی نقصان یا تکلیف نہیں پہونچی۔

سچ ہے:
آج بھی ہو جو براھیم سا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

ایک دن خانقاہ رفاعیہ بڑودہ شریف میں آپ تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی "مانک” (Ruby) لے کر حاضر خدمت ہوا اور خدمت میں پیش کرکے عرض گزار ہوا کہ حضور اس کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمالیں۔ اسی وقت اسے قضاے حاجت کی ضرورت محسوس ہوئی،وہ مانک وہیں پر رکھ کر استنجا خانے میں چلا گیا۔ وہاں اتفاق سے پانی نہیں تھا ضرورت کے تحت کچھ ڈھیلے رکھے ہوے تھے۔ اس آدمی نے سوچا کہ ڈھیلوں سے ہی طہارت حاصل کر لوں، قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ جس ڈھیلے کو ہاتھ لگاتا وہ مانک بن جاتا۔ قضاءحاجت سے فارغ ہوکر حضرت کے قدموں میں گرگیا اور عرض کیاکہ حضور معلوم نہیں تھا کہ جس قیمتی مانک کو لیکر میں بڑے فخر سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا،وہ آپ کے استنجا خانے میں پڑے رہتے ہیں۔

نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
حضرت کے عہد میمون تک یہ معمول تھا کہ عرس رفاعی کے موقع سے اگر کسی کو اجازت و خلافت دی جاتی تھی تو اس کا سر کاٹ کر الگ کر دیا جاتا تھا، پھر مخصوص دعاوں کو پڑھتے ہوے سر پر عمامہ شریف باندھ کر اسے جوڑ دیا جاتا تھا۔
یقینا یہ آپ کی اور آپ کے اسلاف کی بہت بڑی کرامت ہے جس سے آپ کی عظمت شان کا اندازہ ہوتا ہے۔
وفات
آپ کا ابر کرم برسوں تک ملت اسلامیہ کی سوکھی کھیتیوں پر برستا رہا، اور آپ کی شمع حیات مذہب اسلام کو روشنی دیتے ہوے پگلتی رہی آخر ایک دن علم و حکمت کا یہ آفتاب عالم تاب روپوش ہوگیا، 3 / ربیع الاول 1335ھ کا دن آپ کے عقیدت مندوں کے لیے بڑا تاریک دن رہا جب آپ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
آپ کو اپنے بزرگوں کے سایہ رحمت میں خانقاہ رفاعیہ ڈانڈیا بازا بڑودہ میں حضرت مولانا سید فخرالدین غلام حسین المعروف امیرمیاں رفاعی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار اقدس کے احاطہ میں دفن کیاگیا، مزار مبارک مرجع خلائق ہے۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے