تحریر: اے رضویہ ممبئی
جامعہ نظامیہ صالحات کرلا
شیخ احمد سرہندی فاروقی نقشبندی المعروف بہ حضرت مجدد الف ثانی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ(28 صفر ا034) اور امام احمد رضا خان سنی حنفی قادری برکاتی محدث بریلوی المعروف بہ اعلٰیحضرت امام اہلسنت فاضل بریلوی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ( 25 صفر) برصغیر جنوبی ایشیا کی وہ دو عظیم ہستیاں ہیں جنکی علمی دینی اور روحانی کانامے آج عالم اسلام کے کروڑوں مسلمانوں کو صراط مستقیم پر گامزن رکھے ہوۓ ہیں۔ ان مصلحین نے اپنے اپنے دور میں اسلام کے دشمن قوتوں کا اپنے قلم سے زبردست جہاد کیا اور اسلام۔کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا اور ان دونوں مفکروں نے اپنے دورحیات میں ایسے عظیم الشان تجدیدی کارنامے انجام دیے ہیں کہ جس کی وجہ سے یہ اپنے نام سے زیادہ اپنے منصب سے پہچانے جاتے ہیں۔
حضرت مجدد الف ثانی کی ولادت مبارکہ جمعۃ المبارک 14 شوال971 ھ (یہی خواجہ باقی باللہ کا سال ولادت ہے عجیب اتصال روحانی)بمطابق 26 مئی 1564ء کو نصف شب کے بعد سرہند شریف ہندوستان میں ہوئی۔
آپ کا سلسلئہ نصب حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے ملتا ہے آپ کے والد شیخ عبد الاحد ایک ممتاز عالم دین تھے اور صوفی تھے۔ کم سنی میں ہی قرآن حفظ کر کے اپنے والد سے علوم متداولہ حاصل کیے پھر سیالکوٹ جا کر مولانا کمال الدیّن کشمیری سے معقولات کی تکمیل کی اور اکابر محدثّین سے فن حدیث حاصل کیا۔ آپ سترہ سال کی عمر میں تمام مراحل تعلیم سے فارغ ہو کر درس و تدریس میں مشغول ہو گئے۔ تصوف میں سلسلہ چشتیہ کی تعلیم اپنے والد سے پائی، سلسلہ قادریہ کی اور سلسلہ نقشبندیہ کی تعلیم دہلی جاکر خواجہ باقی باللہ سے حاصل کی۔ 1599ء میں آپ نے خواجہ باقی باللہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ کے علم و بزرگی کی شہرت اس قدر پھیلی کہ روم، شام، ماوراء النہر اور افغانستان وغیرہ تمام عالم اسلام کے مشائخ علما اور ارادتمند آکر آپ سے مستفید و مستفیض ہوتے۔ یہاں تک کہ وہ ’’مجدد الف ثانی ‘‘ کے خطاب سے یاد کیے جانے لگے۔ یہ خطاب سب سے پہلے آپ کے لیے ’’عبدالحکیم سیالکوٹی‘‘ نے استعمال کیا۔ طریقت کے ساتھ وہ شریعت کے بھی سخت پابند تھے۔ آپ کو مرشد کی وفات (نومبر 1603ء) کے بعد سلسلہ نقشبندیہ کی سربراہی کا شرف حاصل ہوا اور آخری عمر تک دعوت وارشاد سے متعلق رہے۔
قید خانے میں قیدیوں کو دعوتِ اسلام: مجدد الف ثانی کو اپنے مشن کی تکمیل کے لیے دور ابتلا سے بھی گزرنا پڑا۔ بعض اُمرا نے مغل بادشاہ جہانگیر کو آپ کے خلاف بھڑکایا اور یقین دلایا کہ آپ باغی ہیں اور اس کی نشانی یہ بتائی کہ آپ بادشاہ کو تعظیمی سجدہ کرنے کے قائل نہیں ہیں، چنانچہ آپ کو دربار میں طلب کیا جائے۔ جہانگیر نے مجدد الف ثانی کو دربار میں طلب کر لیا۔ آپ نے بادشاہ کو تعظیمی سجدہ نہ کیا۔ جب بادشاہ نے وجہ پوچھی تو آپ نے کہا:
”سجدہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے جائز نہیں ہے۔ یہ اللہ کا حق ہے جو اس کے کسی بندے کو نہیں دیا جا سکتا۔“
بادشاہ نے ہر ممکن کوشش کی کہ شیخ جھک جائیں لیکن مجدد الف ثانی اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ بعض اُمرا نے بادشاہ کو آپ کے قتل کا مشورہ دیا۔ غیر معمولی اثر و رسوخ یعنی لوگوں میں آپ کی مقبولیت اور چاہت کی وجہ سے یہ تو نہ ہو سکا البتہ آپ کو گوالیار کے قلعے میں نظر بند کر دیا گیا۔ آپ نے قلعے کے اندر ہی تبلیغ شروع کر دی اور وہاں کئی غیر مسلم مسلمان ہو گئے۔ قلعہ میں متعین فوج میں بھی آپ کو کافی اثر و رسوخ حاصل ہو گیا۔ بالآخر جہانگیر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور آپ کو رہا کر دیا۔ رہائی کے بعد جہانگیر نے آپ کو اپنے لشکر کے ساتھ ہی رکھا۔ اس طرح مورخین بتاتے ہیں کہ دو بار آپ قید کئے گئے مگر رہا ہوۓ اس دوران آپ نے سیکڑوں غیر مسلم قیدیوں کومسلمان بنایا۔ سبحان اللّٰہ۔
کہا جاتا ہے کہ۔۔
”اگر حضرت مجدد الف ثانی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کفر و الحاد کا راستہ نہ روکتے تو شاید پاکستان نہ بن سکتا۔
سرہند میں بروز سہ شنبہ 28 صفرالمظفر 1034ھ بعمر 62 سال اور کچھ ماہ وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئے۔
انا للّٰہ و انا الیہ راجعون