حضور حافظ ملت

حضور حافظ ملت اور آپ کے علمی نقوش

چہار دانگ عالم میں کثیر الافراد جب کہ مال و دولت عیش و عشرت کو ہی اپنی عزت و وقعت تسلیم کرتے تھے اور دنیاوی رنگ و روغن میں ملوث ہو چکے تھے دین کا فقدان تو یوں تھا کہ کون ہے اپنا اور کون ہے غیر خط امتیاز کھینچنا بفرضِ محال تھا ایسے دور میں انقلابی علم نصب کرنے کی خاطر ایک ایسی شخصیت جلوہ افگن ہوئی جس نے میخانہ صدر الشریعہ بدر الطریقہ علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ والرضوان سے علمی جام پی کر ہزاروں تاریک دل کو روشن کی مزید برآں ایک ایسے علمی شجر کی بنیاد ڈالی جس سے جہالت کا رختِ سیاہ چھٹ جائے اور صبحِ قیامت تک سیاہ قلب منور ہوتے رہیں المختصر جسے زمانہ حافظ ملت و الدین حضرت علامہ عبد العزیز محدث مرادآبادی علیہ الرحمۃ والرضوان کے نامی اسم گرامی سے جانتا اور پہچانتا ہے۔

کون حافظ ملت وہ حافظ ملت جن کا نام رکھنے کا مقصد اصلی ہی یہی تھا کہ آپ جلیل القدر عالم دین بنیں آپ کے دادا حضور مولانا عبد الرحیم نور اللہ مرقدہ نے دہلی کے مشہور محدث شاہ عبد العزیز بن شاہ ولی اللہ کی نسبت سے آپ کا نام عبد العزیز رکھا اس امید پر کہ میرا یہ بچہ بھی عالم ربانی بنے اور الحمد للّٰہ ایسا ہی ہوا اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو قبول فرما کر وارثین انبیاء کی فہرست میں آپ کا نام درج فرما لیا جس کے سبب ہزاروں تشنگان علم سیراب ہوتے رہے اور تا قیامِ قیامت سیراب ہوتے رہیں گے ان شاء اللّٰه
راقم الحروف نے یوں عرض کیا

” ہوں خواہ عالم و فاضل یا پھر محدث ہوں "
” سبھوں کو ناز ہے تجھ پر اے حافظ ملت "

حضور حافظ ملت خزف سے کیمیا کیسے بنے کیا اس میں دولت و ثروت کا ہاتھ ہے یا پھر عصری علوم کا ! نہیں نہیں ہرگز نہیں ! صرف اور صرف خشیتِ الہیٰ عز وجل و عشق رسول ﷺ کی عظیم دولت ہے جس نے آپ کو عدم سے وجود بخشا اور آپ کی اپنے استاذ سے بے پناہ محبت و شیفتگی و والہانہ عقیدت اور انہی کی نگاہ کرم کا ثمرہ ہے جس کی وجہ سے عروج ثریّا کے منازل طے کیے اور خزف سے کیمیا بنے۔

حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے حضور حافظ ملت کو علم و فضل سے بھی نوازا تھا اور ان پر اپنے کردار و اعمال کا پورا پورا پرتو بھی ڈالا تھا اسی وجہ سے حضور حافظ ملت علم و عمل میں ثانی صدر الشریعہ بن گئے تھے استاذ مکرم سے آپ کی والہانہ عقیدت کا اظہار قدم بقدم ہوتا رہتا تھا ایک دفعہ خود فرمانے لگے کہ جب میں اجمیر شریف میں طالب علم تھا تو حضرت صدر الشریعہ نماز عصر کے بعد مجھے اور مولانا سردار احمد صاحب کو ایک کتاب (غالبا قطبی) کا درس دیتے تھے ہم لوگ حضرت کی درسگاہ سے نکل کر جب باہر ہونے لگتے تو ہم میں کا ہر ایک صدر الشریعہ کے نعلین درست کرنے میں سبقت کرتا حتیٰ کہ کبھی کبھی ہم لوگ ایک دوسرے سے لڑ پڑتے چنانچہ کچھ روز بعد آپس میں طے پایا کہ ہم دونوں ایک ایک پاؤں کا جوتا سیدھا کر دیا کریں تاکہ دونوں برابر فیض اٹھائیں اور کوئی محروم نہ رہے یہ وارفتگی شعور کی پختگی علم کی کاملیت کے ساتھ ہی پختہ ہوتی گئی۔

بلا مبالغہ جامعہ اشرفیہ کی بنیاد میں خون سرکار صدر الشریعہ شامل ہے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں کہ مبارک پور کی سرزمین پر اشرفیہ جیسا علمی مرکز بنانے میں حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کی کامل توجہ شامل حال تھی آپ حافظ ملت کو اپنا نائب مطلق تصور فرماتے تھے اس لیے اس وادئ پرخار میں علوم و عرفان کی چمن بندی کے لیے انہیں منتخب کیا اور روانہ فرمادیا۔ مبارک پور روانہ کرتے وقت فرمایا تھا کہ ” حافظ صاحب میں آپ کو اکھاڑے میں بھیج رہا ہوں“ اس پر حافظ ملت نے عرض کیا حضور اکھاڑے میں اترنے کے لیے کچھ داؤ پیچ بھی بتائیے۔ ارشاد ہوا خدا آپ کا حافظ و ناصر ہے۔

مبارک پور میں حافظ ملت کی آمد

حضور حافظ ملت مولانا شاہ عبدالعزیز علیہ الرحمۃ و الرضوان ۲/ذو القعده ۱۳۵۲ھ کو اپنے مربی و محسن استاذ معظم اور مرشد اجازت حضور صدر الشریعہ علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی نور اللہ مرقدہ کے حکم سے مبارک پور تشریف لائے ۔

آپ خود فرماتے ہیں:

شوال ۱۳۵۲ھ میں حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے خط بھیج کر مجھے وطن سے بریلی شریف بلایا خط میں کوئی تفصیل نہیں تھی وہاں پہونچا تو فرمانے لگے میرا ضلع بالکل خراب ہو گیا دیوبندیت بڑھ رہی ہے اس لیے میں آپ کو دین کی خدمت کے لیے بھیج رہا ہوں میں نے عرض کیا حضور ! میں ملازمت نہیں کرنا چاہتا۔ فرمایا: میں نے آپ سے ملازمت کے لیے کب کہا میں تو خدمت کے لیے کہہ رہا ہوں آپ ملازمت سمجھ کر جائیے بھی نہیں میں چپ ہو گیا تو فرمانے لگے: میں آپ کو دین کی خدمت کے لیے مبارک پور بھیجتا ہوں جائیے۔ میں چلا آیا۔

حافظ ملت اور مبارک پور کا پہلا علمی معرکہ

حضور حافظ ملت علیہ الرحمۃ والرضوان کے مبارک پور میں آنے سے سنیت کے خزاں رسیدہ چمن میں ایک بہار آگئی لیکن مجنونان لیلئ نجد، وہابیہ، دیوبندیہ کے سینوں میں جوالا بھڑک اٹھی ۔

حضور بحر العلوم علامہ مفتی عبدالمنان صاحب قبلہ اعظمی تحریر فرماتے ہیں: قیام و طعام کے انتظام اور طلبہ کے مشغلہ علمی کی وجہ سے پورے مبارک پور میں ایک علمی ہلچل پیدا ہوگئی جس کا اثر اشرفیہ کے حلقے سے باہر بھی محسوس کیا جانے لگا۔

اور میری تخیل نے برجستہ یہی کہا ہاں یہی سبب ہے کہ اس برق رفتار علمی اور دینی ترقی کا، جس کے نتیجے میں مبارک پور بے علمی و جہالت کی نچلی تہوں سے نکل کر شہرت و عروج کی اس بلند ترین سطح پر پہنچ گیا کہ بقول علامہ ارشد القادری "سارے ہندوستان میں جہاں سے چاہے مبارک پور کو دیکھ سکتے ہو”

آہستہ آہستہ مقررہ آیام اختتام پذیر ہونے والے ہیں جب عشاق کے پردۂ ذہن پر یہ سوالیہ نشان مثل مہر نصب ہوا کہ اب کون ہے جو اس منصب جلیلہ پر فائز ہوگا جو پرتو حضور حافظ ملت بنے گا سب کی نظر چہار دانگ عالم میں گردش کرنے لگی حاشا شہزادۂ حافظ ملت پر ہی آ رکی حضور حافظ ملت شدید علالت کی حالت میں تھے کہ جملہ عشاق صاحبزادہ گرامی حضرت مولانا عبد الحفیظ صاحب قبلہ (موجودہ سجادہ نشین و سربراہ اعلیٰ جامعہ اشرفیہ) کے متعلق جانشین نامزد کرنے پر پیہم اصرار کرنے لگے تو اس پر حضرت نے ارشاد فرمایا کہ : اگر وہ اس منصب کے لائق ہوں گے ان کی ذات میں ایسے اوصاف و محاسن پیدا ہوجائیں گے جو اس عہدۂ جلیلہ کے لیے درکار ہیں تو طالبان رشد وہدایت خود ہی ان کی جانب متوجہ ہوجائیں گے۔ ( حافظ ملت نمبر، ماہنامہ اشرفیہ ص ۲۱۰ از جناب ڈاکٹر شکیل گھوسوی)

حضور حافظ ملت کا وصال :

آہ ! کیا معلوم تھا کہ ۳۱/ مئی ۱۹۷۶ء کا آفتاب نہیں غروب ہو رہا ہے بلکہ وہ مہر درخشاں نگاہوں سے اوجھل ہونے والا ہے جس کی ضیا پاشی سے عالم اسلام کا گوشہ گوشہ نور بار تھا۔

جس کی تب و تاب اور توانائی سے علم وفضل کی کائنات میں روشنی اور حرارت برپا تھی ۔ آہ ! آج کا آسمانی سورج نہیں غروب ہو رہا ہے بلکہ کروڑوں اشخاص کے دل غم کے بحر نا پیدار میں غرقاب ہو رہے ہیں۔

مئی کا مہینہ گزر کر جون میں داخل ہونے والا تھا کہ خلاف امید یکم جمادی الاخری ۱۳۹۶ھ ۳۱/ مئی ۱۹۷۶ء بروز دوشنبه رات میں اا بج کر ۵۵ منٹ پر معمار قوم ، محافظ ملت سیدنا حافظ ملت اہل مبارکپور اور جہان سنیت کو روتا بلکتا چھوڑ کر مبارک پور کے باغ فردوس سے حقیقی باغ فردوس کی طرف روانہ ہو گئے ۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون )

ازقلم: محمد ارشد رضا امجدی فیضی
ممبر آف علماء کونسل نیپال ضلع نول پراسی نیپال

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے