پچاس سالہ عرس حافظ ملت کی مناسبت سے
اواخر چودہویں صدی ہجری میں ہندوستان کے سہپر علم و فضل پر جن عظیم علمی شخصیتوں نے مہروماہ بن کر اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ان میں استاذ العلماجلالۃ العلم حضور حافظ علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی ثم مبارک پوری علیہ الرحمۃوالرضوان کا نام نامی ہندوستان کی علمی تاریخ میں ایک عظیم اور نمایاں باب کی حیثیت رکھتا ہے۔
حافظ ملت کی سادہ مگر سر تا پا دین میں ڈوبی ہوئی مقدس ذات ایک ایسا ابر کرم تھی جس کی فیض بخشیوں نے صرف سرزمین مبارک پور ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی بیشتر کشت زار علم کو سیراب کر کے سرسبز و شاداب بنا دیا، جس نے مبارک پور میں برکت علم کا ایک ایسا دریا جاری فرمایا جس کی مبارک نہریں اس وقت ملک کے بہت سے خطوں میں تشنہ کامانِ علم کی پیاس بجھا رہی ہیں اور جس کا اثر اب صرف ہندوستان ہی تک نہیں محدود رہا بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اس کے فیضان علم کا چرچہ عام ہے۔
حافظ ملت کی شخصیت ایک مرکزی اوراصولی شخصیت تھی،آپ نے اپنے مشن کا اصل نشانہ ایسی چیزوں کو بنایا جس کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔آپ صرف نہروں پر اکتفا کرنے والے نہ تھے بلکہ دریا و سمندر کو اپنے کمند علم و فن کا نخچیر بنانا مقصد حیات تصور کرتےتھے اور رنگ برنگے پھولوں، شاخوں اور ڈالیوں پر فریفتہ ہونا آپ کا مسلک نہ تھا بلکہ بزور و اصول کو اپنے کارناموں کا محور بنانا اور اپنی کاوشوں کا مرکز بنانا اپنے مقصد کی معراج سمجھتے تھے اکثر فرمایا؎
مسجد بنانا ثواب، سرائے بنانا ثواب ،یتیم خانہ بنانا بھی یقینا ًثواب مگر مدرسہ سب کی بنیادی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ اگر علمانہ پیدا ہوں گے تو ان سب کو کون آباد کرے گا، ان سب کی کون حفاظت کرے گا، میں نے مدرسے کو بہت سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے۔
ایک مرتبہ چند مخلصین نے عرض کیا’’ حضور اب عمر کا تقاضاہے کہ کچھ آرام کر لیا جائے تو فرمایا اونچ نیچ عقل والوں کو سمجھایا جاتا ہے، میں تو اب عقل کی سرحد پار کر کے جنون کی سرحد میں داخل ہو چکا ہوں،اس لیے مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔یہ الفاظ حضرت کی زبان سے خود میں نے سنے ہیں۔
واللہ کتنی تڑپ ہے اور کس بلا کا سوز ہے ان الفاظ میں ،جو کسی نوجوان مرد مجاہد کے لبوں سے نہیں نکلے ہیں بلکہ ایک 80 سالہ بوڑھے مرد مجاہد کے بستر علالت سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حافظ ملت کے سینے میں ملت اسلامیہ کی فلاح و بہبود اور علوم اسلامیہ کی ترویج و اشاعت کا کیسا جذبہ صادق پنہاں تھا۔
مولانا بدر القادری صاحب کو جامعہ اشرفیہ کے سنگ بنیاد کے چند ماہ بعد ایک مکتوب میں لکھتے ہیں :’’عربی یونیورسٹی سے میرا منشا ایسے طلبہ تیار کرنا ہے جو انگریزی،عربی، ہندی تینوں زبانوں پر قابو یافتہ ہوں، تینوں زبانوں میں قلمی ولسانی خدمات دے سکیں۔ (مکتوب۔تاریخ 14؍ 8؍ 1976ء)
اس مکتوب کے ذریعے عربی یونیورسٹی سے حافظ ملت کا کون سا حسین مقصد متعلق تھا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، مقصد بڑا ہی عظیم، نرالا اور مرکزی حیثیت کا حامل ہے، اسی لیے تو اس مقصد کی تکمیل کے لیے حضرت نے عظیم جدوجہد فرمائی اور اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو اس کی نظر فرمایا ایک مرتبہ ارشاد فرمایا : ’’میں اشرفیہ کے لیے اپنی جان کھپا سکتا ہوں، مگر اس کی پستی کو آخر دم تک برداشت نہیں کر سکتا‘‘۔
ایک مرتبہ اشرفیہ کے لیے اپنی جدوجہد کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا :’’میں نے اشرفیہ کو اپنا پسینہ نہیں خون پلایا ہے میں اشرفیہ کے لیے جان دے دوں گا‘‘۔
اور یہ حقیقت بھی ہے ،اس لیے کہ اشرفیہ کے متعلق حضرت کی خدمات اور جدوجہد کا سلسلہ جیسے جیسے دراز ہوتا جاتا تھا حضرت کی صحت برابر گرتی جاتی تھی۔
اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا حضرت گلشن اشرفیہ کو برابر اپنے خون سے سینچ رہے ہیں، چنانچہ حضرت کے دیکھنے والے اور حاضر باش حضرات اس کے شاہد ہیں کہ جامعہ کے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے سے قبل حضرت کی جسمانی حالت بہت اچھی تھی مگر جوں ہی اس کا تعمیری پروگرام شروع ہوا اور حضرت نے اس کے لیے اپنی مساعی شاقہ کو پیش فرمایا تیزی کے ساتھ صحت گھٹتی گئی اور آخر عمر میں جس شدیدعلالت و نقاہت کا سامنا کرنا پڑا اس سے دیکھنے والے بخوبی واقف ہیں اگرچہ شدید علالت و مرض کے دوران بھی حضرت نے اپنی کوششوں اور تعمیری و تبلیغی دوروں کا سلسلہ ٹوٹنے نہیں دیا، آخر میں ایک دشوار کن تبلیغی دورے ہی نے اس قدر متاثر کیا کی جانبر نہ ہو سکے مگر جذبہ خدمت دین کا یہ عظیم کارنامہ بھی ملاحظہ کیجیے کہ آخر وقت تک اپنے مشن کی تکمیل سے غافل نہیں رہے اور عین اس روز بھی درس بخاری کا سلسلہ جاری رکھا جس کی شب میں اپنی جان جا ں آفریں کے سپرد فرمائی۔
آج کے اس انحطاطی دور میں اکثر دیکھا گیا کہ لوگوں نے دین کے نام پر ادارہ بناتے ہیں اور پھر اس سے اپنی سستی شہرت و دنیاوی منفعت اور کنبہ پروری وغیرہ جیسے گھٹیا مقاصد کو وابستہ کر لیتے ہیں، پھر انھیں مقاصد کے پیچھے اپنی کوششوں کا سلسلہ دراز کرتے جاتے ہیں مگر واہ رے! حافظ ملت کا اخلاص فی الدین اور جذبہ للہیت کہ عمر بھر ایک دینی ادارے سے وابستہ رہے مگر کسی طرح اس سے اپنے ذاتی مفاد کو متعلق نہیں کیا۔
آپ کے اخلاص ہی کی کار فرمائی ہے کہ پوری عمر درس دیتے رہے کسی بھی اضافہ تنخواہ کی درخواست نہ دی، جب کہ آپ کی مقررہ تنخواہ سے کئی گناہ تنخواہ کی جگہیں آئیں مگر آپ نے انہیں قبول نہ فرمایا، اس لیے کہ تدریس سے آپ کا مقصد صرف خدمت دین تھا جلب منافع کو کبھی اپنا مقصد نہیں بنایا، ایک مرتبہ فرمایا:
’’حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے مجھے مبارک پور دین کی خدمت کے لیے بھیجا ہے اور بھیجتے وقت حضرت نے فرمایا تھا: ’’دین کی خدمت کرنا اور یہ مت دیکھنا کہ کیا ملتا ہے، لہٰذا میں نے آج تک یہ نہیں دیکھا کہ مجھے کیا ملتا ہے ،جو ملا لے لیا، کبھی اضافہ تنخواہ کی درخواست نہیں دی اور اب تو کئی سال سے ایک پیسہ بھی مدرسہ سے نہیں لیتا پھر بھی اللہ کا فضل ہے کہ مجھ میں کچھ فرق نہیں آیا اور اور سارا کام بدستور چل رہا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو کہ اللہ کا وعدہ ہے ’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ یَنْصُرْكُمْ وَ یُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ۔(سورہ محمد47، آیت 7)اے ایمان والو اگر تم دینِ خدا کی مدد کرو گے اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمادے گا‘‘۔
بعض لوگوں کے عادت ہوتی ہے کہ بلکہ آج کا ماحول ہی یہی ہے کہ جب ہم کوئی کام کرتے ہیں تو اس کی ستائش وصلہ اور شہرت کی فکر ہو جاتی ہے اور زیادہ سے زیادہ اپنا نام اجاگر کرنا چاہتے ہیں مگر حافظ ملت نے کبھی اشارے کنایے میں بھی اس کی خواہش نہیں کی، آپ اکثر فرمایا کرتے:
’’آدمی کو کام کرنا چاہیے ،شہرت اور ناموری کی فکر میں نہیں پڑنا چاہیے، کام کرو کام، خود ہی اس کے صدقے میں شہرت ہو جائے گی، جو شہرت کی فکر میں پڑتا ہے وہ کام نہیں کرتا، آدمی کو منصب اور عہدے کی خواہش نہیں کرنی چاہیے بلکہ اخلاص کے ساتھ کام کرنا چاہیے، منصب اور عہدے خود اس کا قدم چومیں گے، میں ایک زمانے سے صدر مدرس ہوں مگر کبھی خود کو سوچا بھی نہیں کہ میں صدر ہوں اور ہمیشہ سب مدرسین سے یکساں سلوک برتا یہی وجہ ہے کہ ہمارے مدرسین مخلص ہیں اور اصل میں یہی ہمارے مدرسے کی کامیابی کا سبب ہے‘‘۔
اس سے یہ بھی بخوبی معلوم ہو گیا کہ عام طور سے دینی اداروں کے مدرسین و ملازمین اور صدر ناظم وغیرہ عہدہ داروں میں اختلاف کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ صدر ناظم وغیرہ دوسروں کو اپنا ملازم و نوکر تصور کر کے ان پر پورے طور سے حکومت کرتے ہیں نتیجتاً جو ماتحت ہوتا ہے اپنی خودداری کے خلاف سمجھ کر مخالفت و بغاوت یا کم از کم علاحدگی اختیار کر لیتا ہے، کاش کہ آج کے منتظمین و صدورِ مدرسہ حافظ ملت کےاس حکمت افروز ارشاد سے فائدہ اٹھائیں تو انہیں بھی عروج نصیب ہو سکتا ہے۔
حضرت حافظ ملت علیہ الرحمہ کے اخلاص کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ نے کبھی مدرسے کے نام کو اپنے نام پر نہیں رکھا، جب کہ بعض لوگ کرتے ہیں۔ حضرت نے کبھی اس کو سوچا بھی نہیں یہاں تک کہ بعض معتقدین اگر حضرت کی طرف نسبت کرتے ہوئے کسی مدرسے کا نام عزیز العلوم یا مدرسہ عزیزیہ وغیرہ رکھتے اور حضرت کو خبر ہوتی تو سخت ناراض ہوتے اور فرماتے نام سے کیا ہوتا ہے کام کرنا چاہیے۔یہاں تک کہ بعض لوگوں نے اشرفیہ کے نئے نام کے طور پر الجامعۃالعزیزیہ کی تجویز رکھی تو حضرت نے قبول نہیں کیا اور فرمایا اس کا نام الجامعۃ الاشرفیہ ہوگا۔
حافظ ملت کی پوری حیات شاہد ہے کہ آپ نے کبھی بھی مدرسے کو کنبہ پروری کا ذریعے نہیں بنایا اور نہ آخر عمر تک اس سلسلے میں کوئی وصیت فرمائی حد تو یہ ہے کہ اپنے صاحبزادہ ٔاکبر مولانا عبدالحفیظ صاحب قبلہ کو بیت و اجازت سے بھی سرفراز نہیں فرمایا کہ اس سے مبادا کوئی جانشینی کی طرف اشارہ پاتا اور نہ ہی اپنے گھر والوں میں سے کسی کے لیے کسی طرح کی وصیت فرمائی ۔آخر میں قائد اہل سنت خلیفہ اعلیٰ حضرت علامہ برہان الحق جبل پوری علیہ الرحمہ کا ایک تاثر پیش کر کے اپنی بات ختم کرتا ہوں،وہ ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں :
’’حافظ ملت جس پایے کے عالم ہیں مزاج اور انداز میں بھی اتنی ہی سادگی اور انکساری ہے، میں نے آپ کی تعریفیں سنی تھیں مگر جب کانپور میں پہلی بار ملاقات کی تو آپ کی سادگی اور کسر نفسی دیکھ کر حیرت میں پڑ گیا، اتباع شریعت میں سرشار آپ کی زندگی دیکھ کر مجھے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی یاد آتی ہے اور ان کا نقشہ آنکھوں میں پھر جاتا ہے۔ ( برہان ملت سے ایک انٹرویو ،بموقع عرس رضوی 1392ھ)
از: مفتی محمد عبدالمبین نعمانی قادری
بانی رکن المجمع الاسلامی مبارک پور اعظم گڑھ
9838189592