حضور حافظ ملت

کرامات حضور حافظ ملت

حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی سب سے بڑی کرامت جامعہ اشرفیہ مبارک پور ہے. ان کے روحانی فرزندانِ اشرفیہ اور وہاں سے پروان چڑھ رہے علمی شعائیں ہیں. جو پوری دُنیائے سنیت کو معطر کر رہے ہیں۔۔۔

ذیل میں ہم حافظ ملت کے کچھ کرامات تحریر کر رہے ہیں:

جنات بارگاہ حافظ ملت میں

حضور حافظ ملت سے انسانوں کے علاوہ جن بھی مستفید ہوتے تھے- بلکہ جن میں حافظ ملت کا جو وقار و احترام تھا وہ وقعات ذیل سے ظاہر ہے، مختار احمد نامی ایک طالب علم نے دوران طالب علمی اپنے رفیق مولانا محمد اسلم گورکھپوری سے بیان کیا کہ آج تین راتیں ہو گئیں، دارالعلوم کے آنگن میں بارہ بجے شب کے بعد ڈراونی آوازیں آتی ہیں- مجھے تو بہت ڈر لگتا ہے چلو حضرت سے اس کا ذکر کیا جائے- دریافت کرنے پر کئی اور طلبہ نے بھی اس بات کی تصدیق کی – مولانا محمد اسلم مولوی مختار احمد کے ساتھ حافظ ملت کی خدمت میں حاضر ہوئے، ماجرہ بیان کیا اور عرض کیا کہ حضرت اس بات سے آوازیں سننے والے طلبہ سہمے ہوئے ہیں-
حضرت حافظ ملت نے پوری بات بغور سننے کے بعد فرمایا:” شرارت ہے جاؤ اب یہ آواز نہیں آئے گی” اس کے بعد سے کسی نے آواز نہیں سنی-
حافظ ملت کے عزیز ترین مترشد حضرت قاری عبدالحکیم صاحب گونڈوی کا بیان ہے- ایک صاحب کسی جنات زدہ کے لیے حافظ ملت سے دعا کیا ہوا لوبان اور تعویذ لے گئے- جتنے روزکا عمل تھا پورا کیا- مگر فائدہ نہیں ہوا، دوبارہ آکر بتایا کہ حضور! ابھی جنات نے نہیں چھوڑا- یہ سن کر حافظ ملت نے فرمایا-
” اب آئے تو اس سے کہہ دینا عبدالعزیز نے کہا ہے، بھلائی اسی میں ہے کہ چلے جاؤ-"
انہوں نے ایسا ہی کیا-اور مریض پر جب جنات آیا تو، حضرت کا فرمایا ہوا فقرہ دہرا دیا- جنات یہ سنتے ہی چلا گیا اور لوٹ کر پھر نہیں آیا
(حیات حافظ ملت ص:٥٨٢)

خواب میں اصلاح:
جھار سو گڑا (اڈیشا)کے ایک نوجوان کا واقعہ ہے کہ وہ نو عمری ہی سے پابند صوم و صلاۃ اور وظیفے وغیرہ پڑھاکرتا تھا- ایک بار کی بات ہے اپنے چند آزاد خیال دوستوں کے بہکاوے میں آکر نماز تراویح کے بعد سنیما دیکھنے چلا گیا، واپس آکر سویا تو خواب میں کیا دیکھتا ہے کہ دو آدمی اسے بلانے کے لیے آئیں ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں مقام پر تمہاری طلبی ہے وہ لوگ نوجوان کو لے کر ایسی جگہ پہنچے کہ وہاں سے حد نگاہ تک کانٹوں کا جنگل تھا- جس میں ایک مکان کا دروازہ کھلا ہوا تھا- ان دونوں نے نوجوان کو زور سے دھکا دیا- نوجوان گرتا پڑتا مکان کے دروازے میں داخل ہو گیا، کیا دیکھتا ہے کہ وہاں ایک بزرگ تشریف فرما ہیں- سرخمیدہ، ہاتھ میں عصا، نوجوان سے مخاطب ہو کر عالم جلال میں چھڑی سے دیوار کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو دیوار پر سینما کی تصاویر ابھرنے لگتی ہے فرماتے ہیں” وظیفہ کا اثر یہی ہے”؟
اتنا فرمانے کے بعد انہوں نے نوجوان کو اپنی چھڑی سے مارنا شروع کیا، نوجوان زود و کوب کی تکلیف سے ادھر ادھر ہونے لگا، خواب سے بیدار ہوا تو مار کھا کر تھکا ہوا تھا-
اس واقعہ کے بعد ایک جلسہ میں اس نے حافظ ملت کی زیارت کی تو اسے خواب میں چھڑی سے زود وکوب کرنے والے بزرگ کو پہچاننا مشکل نہ رہا- جلسہ کے بعد تخلیہ میں عرض حال کر کے غلامی میں داخل ہو گیا – اس طرح بیعت سے قبل ہی اصلاح باطن فرمانے والے مرشد کامل قلادۂ بیعت گردن میں ڈال کر ابو الفیض کے فیضان کے شامیانے تلے آ پہنچا – حضرت مولانا محمد اسلم عزیزی گورکھپوری بیان فرماتے ہیں کہ حافظ ملت جب جمشید پور کے سفر پر روانہ ہوتے تو وہ نوجوان جمشید پور اسٹیشن پر ہمیشہ موجود رہتا- اس سے طالب و مطلوب کے مابین ڈور کی روحانی مضبوطی کا اندازہ ہوتا ہے-(حیات حافظ ملت ص:٥٨٦)

ٹرین رک گئی:
لیلائے شب رخصت ہو رہی تھی، سپیدۂ سحر نمودار ہو رہا تھا، نسیم سحر ہول ہولے چل رہی تھی، ہجوم کی وہیں سابقہ حالت تھی کہ اندر سے باہر اور باہر سے اندر آنے جانے کی کوئی صورت ہی نظر نہ آتی لیکن حضرت نے( بغیر ماحول سے متاثر ہوئے) فرمایا کہ فجر کا وقت ہو گیا ہے نماز کے لیے وضو کرنا چاہیے ایسے وقت میں جبکہ باہر نکلنا اور اندر آنا دشوار ہو عام طور پر دل پر جو گزرتی ہے ہر شخص محسوس کرتا ہے باہر نکلنا تو بڑی بات قضائے حاجت کے لیے بھی ہمت نہ کرے گا، مگر حضرت ہے کہ باہر نکلنے اور وضو فرمانے کے لیے بالکل تیار، میرے دماغ نے ایک بوجھ محسوس کیا مگر سوے ادبی کے خیال سے خاموش رہا- آپ تشریف لے گئے وضو فرمایا اور پلیٹ فارم پر خالق کائنات کی یاد میں مشغول ہو گئے، ادھر ٹرین نے سیٹی دی اور چل پڑی ایسی حالت میں مجھ پر کیا گزری ان اضطرابوں کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنے کے قاصر ہوں، انتہائی بے بسی پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھتا رہا اور ورطۂ حیرت میں پڑھ کر روح فرسا موجوں کی چوٹ کھاتا رہا میری قوت فیصلہ نے بھی جواب دے دیا اگر زنجیر کھنیچتاہو تو ارباب سفر ہوش و خرد سے بیگانہ تصور کریں گے یہ خیال آتے ہی زنجیر کی طرف بڑھے ہوئے ہاتھ از خود دور ہٹ گئے ٹرین سنگل پار کر گئی اور دو میل آگے بڑھ کر اپنے بھرپور رفتار میں آگئی شان قدرت کی غیبی روحانی طاقت نے ایک بیک برق رفتار ٹرین میں بریک لگا دی گویا ایک قسم کا جمود طاری ہو گیا جو ٹس سے مس نہ ہو سکا ڈرائیور نے پوری قوت صرف کر دی ہر ممکن تراکیب استعمال کی لیکن گاڑی نے آگے بڑھنے کا نام نہ لیا آخر میں مجبور ہو کر ڈرائیور نے ٹرین کو بیک کیا اب ٹرین پیچھے کو چلنے لگی پلیٹ فارم پر واپس آگئی اور ٹھیک اسی جگہ ہماری بوگی لگی جہاں پہلے تھی میں نے دیکھا کہ حضرت تشہد میں بیٹھے ہوئے ہیں ادھر ٹرین کے گارڈ مع ڈرائیور اور دیگر عملہ گاڑی کا معائنہ کر رہے ہیں لیکن نہ گاڑی میں کوئی خرابی نظر آئی نہ لائن میں جب حضرت اپنے پروردگار کی بارگاہ میں سجدہ نیاز ادا کر کے نماز پوری کر لی تو اپنی مخصوص رفتار سے ٹرین میں تشریف لائے، سارے مسافرین حیرت زدہ ہو گئے اور چہ می گوئیاں ہونے لگیں کہ ٹرین کیوں رکی سبھوں نے ٹرین رکنے کا سبب دریافت کر لیا اور بے ساختہ پکار اٹھے کہ قربان تیرے، اے بڑھؤ تو گدڑی میں اتنا قیمتی لعل چھپا ہوا ہے – غیر مسلم ہم سفروں نے یہ کہا کہ یہ تو بابا کی پوجا کا اثر ہے اور دیر تک مدح و ستائش کے پھول برساتے رہے – بلا شبہ یہ حضرت کی ایک کھلی اور واضح کرامت ہے جس پر میرا ذاتی مشاہدہ ہے میری نگاہوں نے اس قسم کے بے شمار واقعات بذات خود دیکھے ہیں جسے انشاءاللہ مستقبل میں زیب قرطاس کروں گا-
(ماہ نامہ اشرفیہ کا حافظ ملت نمبر ص:٤٠)

بغیر کنکشن والے نل سے پانی کا نکلنا :
حافظ ملت جب دھروا (رانچی، ایک جلسہ میں) تشریف لائے تھے تو ایک خالی مکان میں آپ کو ٹھہرایا گیا تھا، ایک کمرہ میں رہائش تھی اور دوسرے کمرہ میں نماز وغیرہ کا انتظام تھا، جلسہ گاہ سے تقریباً ڈھائی بجے شب میں تشریف لائے تو استنجا کو تشریف لے گئے، بالٹا میں وضو کے لیے پانی نہ تھا، ایک صاحب دوڑ کر پانی لانے گئے، آپ استنجا خانہ سے آئے تو اس نل پر وضو کے لیے بیٹھ گئے جس کا ٹنکی سے کنکشن نہ تھا اور پانی وقت کے سرے آتا تھا، پانی آنے کا ٹائم ٥/بجے صبح تھا-
آپ نے نل کھولا تو پانی گرنے لگا، ہم تین آدمی جو حضرت کو جلسہ گاہ سے لے کر آئے تھے وہاں موجود تھے، نل کا یہ کرشمہ دیکھ کر حیران رہ گئے، جب آپ وضو سے فارغ ہو کر اٹھے تو آدمی بالٹا میں لے کر پہنچا، آپ نے بالٹا کی طرف دیکھ کر میٹھے بول میں فرمایا، پانی تو نل میں تھا، جب حضرت نماز پر کھڑے ہو گئے تو ہم نے نل کھول کر دیکھا کہیں پانی کا پتہ نہ تھا –
یہ کوئی بابا کی کرامت نہ تھی جو کسی کو رجھانے کے لیے ہوتی ہے، یہ ایک عابد شب زندہ دار کی تابندہ کرامت، ایک سنت کی ادائیگی کے لیے تھی اور بس –

زندگی جس کی نبی کی سنتوں سے دور ہے دور اس سے رحمت عالم کا داماں کیوں نہ ہوں
(آئینئہ حافظ ملت – ص١٠٢)

از قلم: ثانیہ فاطمہ غوثی بانکا. (متعلمہ:الجامعۃ الغوثیہ للبنات جھارکھنڈ)

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے