حضور حافظ ملت

حضور حافظ ملت اکابرین کی نظر میں

حضرت حافظ ملت علیہ الرحمہ کی ذات بابرکت بڑی اہمیت کی حامل تھی. ذیل میں ان کے حوالے سے اکابرین کے تاثرات پیش کیے جارہے ہیں. پڑھیں اور ان کی خدمات پر خراج تحسین پیش کریں :

حضرت مفتی اعظم ہند شاہ مصطفیٰ رضا خاں بریلوی قدس سرہ العزیز:

جس وقت حافظ ملت علیہ الرحمہ کی وصال کی خبر حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کو ملی اس وقت ان پر کیا کیفیت طاری تھی اس حوالے سے ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی کی تحریر دیکھیں، آپ لکھتے ہیں: جب حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے وصال کی خبر مفتی اعظم ہند تک پہنچی تو چاند سا چمکتا ہوا نورانی چہرا ماند پڑ گیا اور تیرہ نصیبوں کی تقدیر سنوارنے والی آنکھوں سے آنسوؤں کی دھار پھوٹ نکلی، سرکار بلک بلک کر رو رہے تھے – خدمت اقدس میں حاضر خدام کے دل اس منظر سے پاش پا ش ہوتے جا رہے تھے اور حضرت کی شفقت ان کی عظمت و برتری کے ساتھ حضور حافظ ملت کی بزرگی عقیدت ان کے دلوں میں اور زیادہ ہو گئ – کافی دیر آنسوؤں کی موتی لٹانے کے بعد حضرت حالت اضطراب سے عالم سکون میں آئے تو دیر تک حافظ ملت علیہ الرحمہ کی پیاری باتیں کرتے رہے- ان کی جلالت علمی زہدوتقویٰ اور تقدس وبزرگی کے گن گاتے رہے اور آخیر میں فرمایا – اس دنیا سے جو لوگ چلے جاتے ہیں ان کی جگہ خالی رہتی ہے – خصوصاً مولوی عبدالعزیز علیہ الرحمہ جیسے جلیل القدر عالم، مرد مومن، مجاہد، عظیم المرتبت شخصیت اور ولی کی جگہ پر ہونا بہت مشکل ہے۔
(حیات حافظ ملت. ص:٨٢٣-٨٢٤)

سرکار کلاں حضرت مولانا سید مختار اشرف کچھوچھوی علیہ الرحمہ:

مولانا (حافظ ملت) مخلص، ایثار پسند، ہم درد تھے – ان کی خوبیاں تحریر سے باہر ہیں – (حیات حافظ ملت ص:٤٨٧)

صدرالشریعہ حضرت علامہ امجد علی اعظمی قدس سرہ
زندگی میں دو ہی باذوق پڑھنے والے ملے ایک مولوی سردار احمد(یعنی محدث اعظم پاکستان) اور دوسرے حافظ عبدالعزیز (یعنی حافظ ملت مولانا شاہ عبدالعزیز) –
(فیضان حافظ ملت، ص:٢٨)

برہان ملت حضرت علامہ برہان الحق قادری، جبل پوری قدس سرہ

حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی رحلت، عالم علم، عالم سنّیت اور عالمِ درس حدیث وحکمت کی موت ہے – موت العالمِ موت العالم-
ایسے مرجع عالم، مقبول عالم، منبع علم وکمال، افضل العلما، استاذالعلما کی موت، موت نہیں- حیات ابدی اور دار فنا سے داربقا کی طرف ارتحال ہے – حافظ ملت کی ذات دنیائے درس و تدریس وعلم وحکمت کے لیے نعمت عظمیٰ تھی.
(ماہنامہ اشرفیہ، اپریل ١٩٧٧)

احسن العلماء حضرت علامہ سید شاہ مصطفیٰ حیدر میاں برکاتی قدس سرہ:

حافظ ملت ایسی ذات گرامی کا نام ہے جس کے ادنیٰ خوشہ چیں حکمت و دانش اور علم و معرفت کی چلتی پھرتی یونیورسٹیاں ہیں کچھ لکھنا گویا امتحان ہے –
یاد آئی ١٩٣٧ء کو وہ صبح جب مارہرہ کی برکاتی خانقاہ میں حضرت صدرالشریعہ بدرالطریقہ علیہ الرحمہ کے ساتھ ساتھ پہلی بار حافظ ملت (علیہ الرحمہ) کی زیارت ہوئی تھی اور آل انڈیا سنی جمعیتہ العلماکی کانپور میں کانفرنس منعقدہ نومبر ١٩٦٣ء میں پہلی باراور”یوم شہیداعظم” ١٩٧١ءممبئ میں دوسری بار. ان کا مبارک بیان سننے کا موقع ملا. آخری بیان میں نے وہ سنا کہ دار العلوم برکاتی مگہر ضلع بستی کے سالانہ جلسئہ تقسیم اسناد کے موقع پر اپریل ١٩٧٦ء میں فرمایا تھا –
حافظ ملت نے ان تمام مواعظ حسنہ میں علم و حکمت کے موتی پروئے تھے – انداذ گفتگو میں نوجوانوں کی سی گھن گرج تھی – جو بات منہ سے نکلتی ایک میخ سے گڑ جاتی – علم و حکمت کا یہ درخشندہ آفتاب جس کی ضیاباری سے اقطار ہندو بیرون ہند منور، جس کی "شعائیں” دور دور تک بکھری ہوئی ہیں، جو یقیناً کھانے کے دسترخوان سے لے کر محراب ومبنر اور مسند درس و افتا سے تخت مشخیت تک حافظ ملت تھے – (سیدین نمبر،ص: ٥٨-٥٩، ماہنامہ اشرفیہ ،مبارک پور -)

حضرت علامہ فضل حق رام پوری
علامہ فضل حق نے اجمیر میں حافظ ملت کا امتحان لیا پہلی ہی کتاب میں بہت سے داخلی اور خارجی سوالات کیے جوابات سے مطمئن ہو کر کتاب بند کر کے ارشاد فرمایا –
"اب ہم ان کی کسی کتاب کا امتحان نہیں لیں گے، ان کی قابلیت درجۂ کمال کو پہنچی ہوئی ہے” –
(حیات حافظ ملت نمبر، ص:٨٢٥)

امين شریعت حضرت علامہ مفتی رفاقت حسین صاحب علیہ الرحمہ:

"حافظ ملت علیہ الرحمہ نے اپنی زندگی کو مجاہد و متحرک اسلاف کرام کے نقش قدم پر چلا کر اور نمایاں ملی خدمات انجام دے کر مسلمانوں کو موجودہ دور میں دینی خدمات کا جو اسلوب عطا کیا ہے وہ قابل تحسین اور قابل تقلید ہے” –
(حیات حافظ ملت ص:٨٢٦)

حضرت مولانا محمد سلیمان اشرفی بھاگل پوری :
حضرت حافظ ملت محنت کرنے والے بھی تھے، عمر بھر دینی خدمات میں اوقات گزارا – تقویٰ وطہارت بھی مکمل تھی-(حیات حافظ ملت ص:٨٢٧)

علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی :
یہ شرف میرے لیے باعث فخر ہے کہ الجامعۃ الاشرفیہ عربی یونیورسٹی مبارک پور کے بانی فضیلت مآب استاذ العلما حضرت مولانا الحاج حافظ عبدالعزيز صاحب قبلہ مرادآبادی اعلی اللّٰہ مقامہ میرے استاذ بھائی تھے لیکن وہ علوم و اعمال اور زہد و تقویٰ کے فضل و کمال میں مجھ سے بدرجہا بالاتر، بلند مرتبہ اور عظیم الشان عالم نبیل وفاضل جلیل تھے….. میری نگاہ نقدو نظر میں حافظ ملت کا فضل و کمال مراثی فضل وکمال نہیں – بلکہ یہ بالکل ذاتی فضل و کمال ہے جس کو انہوں نے اپنی دلدوز اور دماغ سوز محنتوں اور اپنی قوت بازو کے بل پر حاصل کیا – اور یہ حافظ ملت کی وہ خصوصیت ہے جو انہیں ان کے ہم عصر مشاہیر سے اس طرح ممتاز کر رہی ہے جس طرح چاند سورج کی روشنی ایک دوسرے سے ممتاز ہے کہ چاند دنیا میں سورج کی بخشی ہوئی روشنی کے بل پر چمک رہا ہے اور سورج خود اپنی روشنی سے عالم کو منور کررہا ہے –
(حیات حافظ ملت. ص: ٨٢٧)

حضرت مولانا شاہ سراج الہدیٰ صاحب بیت الانوار،، گیا :
"ایک بے آب و گیاہ ویرانہ، تاحد نظر علوم و معارف کے شاداب گلشن میں یوں ہی نہیں تبدیل ہو گیا ہے بلکہ اس کے مسکراتے ہوئے لالہ زاروں اور مہکتے ہوئے غنچوں کے پیچھے جہاں حافظ ملت کے پسینے کی خوشبو اور ان کے خون جگر کی سرخی کار فرما ہے وہیں ان کا بے مثال ایثار و اخلاص ناقابل تسخیر عظم و استقلال اور قلوب کو پگھلا دینے والا ان کا زہد و تقویٰ اور سفر و حضر میں خلوت میں جلوت میں، اندھیرے میں، اجالے میں، دیس میں، پردیس میں، صحرا میں، آبادی میں ملکوتیوں کی طرح ان کے کردار کا تقدس مبارک پور عظیم تاریخ کا نقطئہ اول بھی ہے”.
(حافظ ملت نمبر ص ١٠٣)

مولانا سید مظفر حسین کچھوچھوی سابق ایم پی:
جہاں تک قوم کے اندر نئی زندگی، نئ روح پیدا کرنے کا تعلق ہے وہ تو انہوں نے کر دکھایا- اب ہمارا کام یہ ہے کہ اس زندگی کو باقی رکھیں ان کی یادگاروں کو پروان چڑھائیں- یہ حقیقت ہے کہ دنیائے سنیت کے جتنے قلعے انہوں نے تعمیر کیےشاید اتنے قلعے کسی نے تعمیر نہیں کیے-
(حیات حافظ ملت نمبر ص:٨٢٩)

رئس القلم علامہ ارشد القادری :

١-"حافظ ملت کی زندگی کا سب سے نمایاں جو ہر اپنی تلامذہ کی پرسوز تربیت اور ان کی شخصیتوں کی تعمیر ہے- اپنے اس وصف خاص میں وہ اتنے منفرد ہے کہ دور دور تک کوئی ان کا شریک و سہیم نظر نہیں آتا” –
(حیات حافظ ملت نمبر. ص:٨٣٠)

ب – "تاج محل کی تعمیر آسان ہے لیکن شخصیتوں کی تعمیر کا کام بہت مشکل ہے- حافظ ملت کو اس کام سے عشق کی حد تک تعلق تھا – سفر میں، حضر میں، حلقئہ درس میں، مجلس خاص میں، جلسئہ عام میں کہیں بھی وہ ایک لمحے کے لیے اپنے فریضئہ عشق سے غافل نہیں رہتے” – (ایضاً)

شارح بخاری حضرت مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ :
١-"حضور حافظ ملت قدس سرہ کی تفسیر میں مہارت کا جو سرمایہ مل سکتا ہے وہ درس ہی سے مل سکتا ہے تو اگر میں یہ کہدوں کہ حافظ ملت ان کتب تفسیر کو بہت عمدہ پڑھاتے تھے تو اہل علم اس کے کھوکھلے پن پر ہنس دیں گے اس لیے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حافظ ملت قدس سرہ ان کتابوں کو خوب بہت خوب عمدہ اور بہت عمدہ تو پڑھاتے ہی تھے حافظ ملت کاکمال یہ تھا کہ ایک ذی استعداد طالب علم کو یہی کتابیں پڑھا کر مفسر بنا دیتے تھے”.
(حیات حافظ ملت ص:٨٣٢)
ب-"حافظ ملت قدس سرہ کے تلامذہ میں ایسے ایسے باکمال ہیں کہ آج اہل سنت کے اساطین میں شمار ہوتے ہیں "(ایضاً)

ج- حافظ ملت قدس سرہ العزیز ایک تاریخی ہی نہیں تاریخ ساز انقلاب آفریں شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر دنیائے سنیت میں نئ روح پھونک کر انقلاب عظیم بر پا کردیا ہے اور اہل سنت کے مردہ جسم میں نئ جان ڈالدی ہے” – (حافظ ملت افکار اور کارنامے)

بحرالعلوم مفتی عبدالمنان صاحب اعظمی :-

١- حافظ ملت میری نگاہ میں بہت عظیم عالم، بہت عظیم بزرگ اور بہت عظیم قائد و رہنما تھے اس لیے کہ ان تمام میدانوں میں ان کے کارنامے اظہر من الشّمس ہیں-
(حیات حافظ ملت نمبرص:٨٣١)

ب- حضور حافظ ملت سراپا عملی انسان تھے- آپ نے دن رات کے چوبیس گھنٹے میں ایک ساتھ اتنے کام کیے ہیں کہ آج سوچ کر آدمی کی عقل حیران ہو جائے-

از قلم: درخشاں فاطمہ غوثی. بانکا.

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے