تحریر : محمد رضوان احمد مصباحی
ادراگوڑی ٹھاکر گنج ،کشن گنج ،بہار
نزیل حال: جھاپا نیپال
جلالۃ العلم استاد العلماء حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مُرادآبادی ثم مبارک پوری چودھویں صدی کے ایک ایسی عظیم اور تاریخ ساز شخصیت کا نام ہے جن کے علم کا فیض نہ صرف ہند و پاک میں بٹ رہا ہے بلکہ مختلف ملکوں میں آپ کے فیض کا دریا جاری و ساری ہے- مبداء فیض نے حضور حافظ ملت کو بے پناہ فضائل و کمالات سے نوازا تھا- جہاں آپ بیک وقت عالم، فاضل، محدث، مبلغ، مدرس، مفکر اور محقق تھے وہیں آپ اپنے دور کے ایک عظیم مناظر بھی تھے ۔ اگر چہ حضور حافظ ملت کو مختلف علوم و فنون پر عبور حاصل تھا- مگر علم مناظرہ میں بھی آپ کی ایک الگ ہی شان تھی آپ اس میدان میں بھی باکمال نظر آتے تھے ۔ عقائد و نظریات، معمولات اہل سنت اور دیگر دینی مسائل میں کسی سے مناظرہ کرنا اتنا آسان نہیں کیوں کہ مناظرہ کا میدان نہ تو صرف درس وتدریس کی مہارت سے فتح کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی محض خطابت اور الفاظ کے زیر وبم سے سر کیا جا سکتا ہے بلکہ ایک کامیاب مناظر کے لیے ضروری ہے کہ وہ مختلف علوم و فنون پر مکمل دسترس رکھتا ہو، وسیع المطالعہ و قوی الحافظہ ہو، ذہین و حاضر دماغ ہو، معقولات و منقولات پر مہارت رکھتا ہو، مد مقابل کو تحقیقی اور الزامی جواب دینے پر قادر ہو، زبان و بیان پر قدرت رکھتا ہو اور علم مناظرہ کے بنیادی اصول، شرائط اور آداب وضوابط سے صحیح طور پر آگاہ ہو ۔ ذکر کردہ صفات کے تناظر میں جب ہم حضور حافظ ملت کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو پورے طور سے حضور حافظ ملت اس کے حامل اور مصداق نظر آتے ہیں ۔ العذاب الشدید جس کی بین دلیل ہے ۔
اب ذیل میں حضور حافظ ملت کے مناظرے کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں :
زمانہ طالب علمی میں ایک پر لطف استدلال
علامہ بدر القادری ہالینڈ لکھتے ہیں:
حضور حافظ ملت نے زمانہ طالب علمی سے ہی فن مناظرہ میں اپنی مہارت، محکم گرفت اور قوت استدلال کا مظاہرہ شروع کر دیا تھا ۔ چنانچہ حضور حافظ ملت نے اپنے دور طالب علمی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ایک بار فرمایا : گرمی کے موسم میں نانیہال گیا ہوا تھا۔ ایک دن دو پہر کے وقت باغیچہ میں ایک درخت کے سائے میں بیٹھاتھا۔ گاؤں کے کچھ لوگ ایک مولوی صورت انسان کے ساتھ میرے پاس آئے اور کہا : یہ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ نماز میں امام کے پیچھے مقتدی کے لیے بھی سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے ورنہ نماز نہیں ہوگی ۔
حضرت حافظ ملت نے ان سے پوچھا : یہ کس کتاب میں لکھا ہوا ہے؟
انہوں نے کہا : "اثم ماجہ” میں یہ مسئلہ لکھا ہوا ہے،
پھر حضرت نے پوچھا "اثم ماجہ” ” س” سے ہے یا "ث” سے؟
تو جواب دیا : "ث” سے "اثم ماجہ” ہے ۔
پھر حضرت حافظ ملت نے پوچھا : "ث” سے اثم کے معنی کیا ہیں؟
تو مولوی صاحب نے جواب دیا : "اثم” کے معنی گناہ ہیں،
اب حضرت حافظ ملت نے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا: مولوی صاحب بتا رہے ہیں اثم کے معنی گناہ ہیں، تو سورہ فاتحہ امام کے پیچھے پڑھنے کا حکم گناہ کی کتاب میں ہے اور جو حکم گناہ کی کتاب میں ہو وہ ماننے کے لائق ہرگز نہیں ہو سکتا۔ مولوی صاحب تو مبہوت ہی ہو گئے اور سب لوگ مطمئن ہوکر چلے گئے ۔ حضور حافظ ملت اگر اس مسئلے کا فقہی اور اصولی استدلال فرمایا ہوتا تو مولوی صاحب کو مبہوت ہونا ہی پڑتا۔ اور وہ علمی استدلال کے اہل تو تھے نہیں جیساکہ ان کے لفظ اثم ماجہ سے واضح ہے۔ مگر ساتھ میں آنے والے لوگوں کی سمجھ میں شاید پوری بات نہیں آتی ۔
(حیات حافظ ملت ص: 399، تصنیف از علامہ بدر القادری مصباحی ہالینڈ)
علم غیب پر پر لطف استدلال
حافظ ملت نے فرمایا کہ اجمیر شریف دار الخیر میں قیام کے دوران ایک رئیس صاحب جو میرے شناسا تھے کے پاس ایک مولوی صاحب پہنچے اور انہیں سمجھایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب نہیں تھا، رئیس صاحب نے فوراً ایک شخص کو میرے پاس بھیجا تاکہ اصل بات واضح ہو جائے ۔ میں پہنچا ۔ گفتگو شروع ہوئی تو ثبوت علم غیب میں، میں نے چوتھے پارے کی آیت کریمہ پڑھی :
"وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَیْبِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِهٖ مَنْ یَّشَآء”
ترجمہ : اے عام لوگو! تمہیں غیب کا علم دے دے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے ۔
(سورہ آل عمران آیت نمبر :179، پارہ :4)
اس کے جواب میں اس شخص نے نویں پارے کی آیت پڑھی : "وَ لَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَا سْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِۚۛ”
ترجمہ : اور اگر میں غیب جان لیا کرتا تومیں بہت سی بھلائی جمع کرلیتا ۔
(سورہ اعراف آیت نمبر :188،پارہ نمبر :8)
اور کہا کہ چوتھے پارے میں اگر علم غیب کا ثبوت ہے تو نویں پارے میں علم غیب کی نفی ہے ۔ مزید کہا کہ اس طرح نویں پارے کی آیت سے چوتھے پارے کی آیت منسوخ ہو جاتی ہے ۔
یہ سننے کے بعد مجھ پر اس کی جہالت کھل چکی تھی ۔ میرا اب اس سے پوچھنا فضول تھا کہ نسخ اخبار کا ہوتا ہے یا احکام کا؟؟
اس لئے میں نے اب اس کی سطح پر اتر کر جواب دیا : کہ اگر بقول تمہارے نویں پارے کی آیت سے چوتھے پارے کی آیت منسوخ ہوجائے گی، تو لو سنو!! تیسویں پارے میں خدائے ذو الجلال کا ارشاد ہے :
"وَ مَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍۚ
ترجمہ : اور یہ نبی غیب بتانے پر ہر گز بخیل نہیں ۔
(سورہ تکویر آیت نمبر :24، پارہ :30)
اس آیت مبارکہ میں بتایا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب کی باتیں بتانے میں بخیل نہیں اور اس پارے کے بعد تو کوئی پارہ نہیں جس سے یہ آیت منسوخ ہو ۔ اس طرح وہ منکرعلم غیب رسول صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گیا۔
(حیات حافظ ملت ص:400)
ایسے ہی حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے کتنے بھٹکے ہوؤں کو راہ راست کی جانب رہنمائی فرمائی اور ان کے دین ودنیا کو بدل ڈالا اور کتنے مناظرے کو فتح کیا ۔ ایک مرتبہ خود آپ سے سوال ہوا کہ حضور آپ مناظر کی حیثیت سے کہاں کہاں تشریف لے گئے ؟؟
تو آپ نے مختصراً فرمایا تھا : بسڈیلہ، ضلع بستی ۔ لیکن میرے جانے سے پہلے ہی دیوبندی مناظر فرار ہو چکے تھے، مناظرہ کی نوبت نہ آئ۔ بھدرسہ ضلع بستی میں بھی یہی ہوا ۔ (سابق)
نہ صرف آپ مناظر تھے بلکہ مناظر ساز بھی تھے جو قلعہ آپ نے الجامعۃ الاشرفیہ کی شکل میں قائم کیا ہے اس سے سیکڑوں مناظر تیار ہوئے جو آج بھی باطل فرقے کا دندان شکن جواب دے رہے ہیں اور ان شاء اللہ العزیز یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ۔جامعہ اشرفیہ زندہ باد، پائندہ باد
اللہ تعالیٰ حضور ملت کے درجات کو بلند فرمائے اور ہم سب کو ان کے مشن پر عمل کرنے اور ان کی ترویج اشاعت کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔
زمانہ آج بھی اور کل بھی ان سے فیض پائے گا
مثال چشمئہ آب رواں ہیں حافظ ملت