حضور حافظ ملت

حضور حافظ ملت قرطاس و قلم کے آئینے میں

تحریر كى اہمیت و افادیت بہت زیادہ ہے اس سے کوئی بھی پڑھا لکھا آدمی انکار نہیں کر سکتا – تقریر کے ذریعے تو وقتی طور پر لوگوں کے درمیان جوش و جنوں پیدا کیا جا سکتا ہے. لیکن تحریر دیرپا چیز ہوتی ہے اور محفوظ بھی رہتی ہے جس کی واضح مثال ہمارے سامنے بہت ساری ہیں جیسے جتنی بھی مستند کتابیں آج ہمارے پاس موجود ہیں وہ تحریری طور پر یکجا ہیں اگر ان کتابوں کے مصنفین نے اسے سپرد قرطاس نہ کیا ہوتا اور صرف ان کے سینے میں یہ علم رہتا تو یہ خزانے ہمارے سامنے نہیں ہوتی – ان کتابوں کے مصنفین کے گزرے ہوئے ایک عرصہ ہو گیا لیکن وہ آج بھی اپنی تحریری خدمات کی بنیاد پر یاد کیے جاتے ہیں.
اب میں حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی تصنیفی خدمات پر مختصر روشنی ڈالنے کی کوشش کر رہی ہوں اس سے پہلے ان کی زبانی تصنیف و تالیف کی اہمیت نظر قارئین کر رہی ہوں : حضور حافظ ملت فرماتے ہیں :”حقیقت تو یہ ہے کہ تقریر سب سے آسان ہے پھر اس سے مشکل تدریس پھر اس سے بھی مشکل تصنیف”.
(مختصرسوانح حافظ ملت-ص: ٧٢)

اب تو ماشاء اللہ موجودہ دور میں اہل سنت و جماعت میں لکھنے والوں کی ایک عظیم جماعت ہے – لیکن ان کے دور میں قلم کے حوالے بہت کمی تھی اس کا اندازہ حافظ ملت کے شاگرد رشید حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کی اس تحریر سے بخوبی واضح ہوتا ہے. علامہ لکھتے ہیں: "ایک عرصہ سے چیخ رہا ہوں کہ زندہ رہنا ہے تو سوچنے اور برتنے کا اندازا بدلنا ہوگا – فولاد کی تلوار کا زمانہ ختم ہو گیا اب قلم کی تلوار سے معر کے سر کیے جارہے ہیں – پہلے کسی محدود رقبے میں کفر وضلالت کی اشاعت کے لیے سالہا سال کی مدت درکار ہوتی تھی اور اب پریس کی بدولت صرف چند گھنٹوں میں شقاوتوں کا ایک عالمگیر سیلاب امنڈ سکتا ہے- ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھئیے! آج ہندوستان کا ہر فرقہ قلم کی توانائی اور پریس کے وسائل سے کتنا مسلح ہو چکا ہے، اتنا مسلح کہ اس کی یلغار سے ہمارے دین کی سلامتی خطرے سے دوچار ہوتی جارہی ہے- بلکہ میں بعض ایسی بھی جماعتوں کی نشاندہی کر سکتا ہوں جن کے وجود کا کوئی سر رشتہ ماضی میں نہیں ملتا – لیکن اس اجنبیت کے باوجود صرف قلم کے وسائل کے بل پر وہ روئے زمین پر طوفان کی طرح پھیلتی جارہی ہیں- اور ان کا اجنبی لڑیچر سینکڑوں برس کی قابل اعتماد تصنیفات کو نہایت تیزی کے ساتھ پیچھے چھوڑتا جارہا ہے- فکری مزاج کی تعمیر میں قلم کو جو اہمیت حاصل ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ فکری استحکام کے بغیر کوئی جماعت بھی طوفانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی – پریس ہی کا یہ کرشمہ ہے فتنہ صبح کو جنم لیتا ہے دوپہر تکے جوان ہو جاتا ہے اور شام ہوتے ہوتے آبادیوں کے لیے ایک دردناک آزار بن جاتا ہے(دینی دعوت. بیک ٹائٹل)-

اب حافظ ملت کی تحریری خدمات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.
آپ تحریر کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے، اس لیے آپ نے کتابیں بھی تحریر فرمائی. حالاں کہ آپ کا قلم برق رفتاری سے چلتا تھا، چوں کہ تصنیفی کاموں کے لیے انسان کو پرسکون ماحول اور ذہنی اعتبار سے بالکل آزادی چاہیے لیکن آپ کے ذمہ اور بھی بڑے بڑے کام تھے جس کی وجہ سے آپ کی تصنیفات کی تعداد کم ہے اس کا اظہار افسوس آپ نے کیا ہے :”مجھے لوگوں نے کسی کام کا نہ رکھا. غیر ضروری کاموں میں مجھے ایسا الجھا دیا کہ لکھنے کا خاطر خواہ کام نہ ہو سکا جس کا مجھے افسوس ہے- حالاں کہ اوائل عمر میں میرا قلم نہایت برق رفتار تھا اور اب نہ وہ قوت دماغ ہے اور نہ ہی فرصت – اس لیے اب میرا مطمح نظر اور میری زندگی کا مقصد صرف اور صرف جامعہ اشرفہ کی تکمیل ہے-
(حافظ ملت نمبر، ماہ نامہ اشرفہ، ص ٤١٢)

صدر العلما حضرت علامہ محمد احمد مصباحی[سابق پرنسپل جامعہ اشرفیہ] سے حضور حافظ ملت نے فر مایا تھا:”بفضلہ تعالیٰ تصنیفی صلاحیت مجھے ضرور ملی اور قلم کی قوت بھی. پھر فرمایا :کیا کہوں! بہر حال مجھے لکھنے پر قدرت تھی جس کا نمونہ الصباح الجدید، ارشادالقرآن، معارف حدیث وغیرہ ہیں لیکن قوت تصنیف کی باوجود ہمیشہ عوائق و موانع در پیش رہے اور مصروفیات نے گھیر رکھا جس کے باعث میں کچھ نہ لکھ سکا(حیات حافظ ملت. ص-٤٣٠)

حافظ ملت کی تصنیفات پر اختصار کے ساتھ تعارف و تبصرہ نظر قارئین کر رہی ہوں ملاحظہ فرمائیں:

ارشاد القرآن: یہ کتاب حضور حافظ ملت نے ١٩٤٧ء میں تقسیم ہند کے وقت لکھی جب مسلمانان ہند غوروفکر کیے بغیر ترک وطن کر رہے تھے اور پاکستان میں بود و باش کی تیاری کر رہے تھے – اس ماحول میں حضور حافظ ملت نے یہ کتاب تحریر فرمائی اور لوگوں کی صحیح رہ نمائی فرمائی. آپ کی یہ کتا بچہ مبارک پور میں تقسیم ہوئی جس کا اثر یہ ہوا کہ ایک بھی مسلمان نے ترک وطن نہیں کیا-

الارشاد: یہ بھی ١٩٤٧کے ہنگامے میں لکھی گئی تحریر ہے.حضور حافظ ملت محب وطن تھے اور ترک وطن کو بالکل بھی پسند نہیں کرتے تھے. یہ رسالہ مسلم لیگ کے رد میں لکھی گئی.

معارف حدیث: یہ کتاب احادیث کریمہ کا ترجمہ اور اس کا بہت ہی عمدہ اور عالمانہ تشریح پر مشتمل ہے. اس کتاب کے حوالے سے حضرت علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں :”سندر کوزے میں بھرنے کی کہاوت سنتے تھے لیکن” معارف حدیث” اس کی جیتی جاگتی زندہ مثال ہے حدیث کے ترجمے کے ساتھ اس پر عالمانہ و عارفانہ نکتہ آفرینی یہ صرف استاذ العلما جیسی بلند شخصیت کا کام ہے – ( کلمات عقیدت از معارف حدیث ص:٣مطبوعہ پاسبان آلہ آباد)

المصباح الجديد معروف بہ عقائد علماے دیوبند: یہ رسالہ مرادآباد سے آئے ہوئے استفتا کا جواب ہے جس میں دیوبندی عقائد سے متعلق ٣٠ / سوالوں کا جواب، جو ان ہی کی معتبر کتابوں کے حوالوں سے درج ہیں.
چونکہ ایک عام، سیدھا سادھا مسلمان، دیوبندیوں سے ان کے نماز، روزے اور تبلیغ سے متاثر ہوجاتے ہیں، جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ ان کے عقائد بہت خراب ہیں لہٰذا اس کتاب کا مطالعہ بہت مفید ہے اور اس کے ذریعے سیدھے سادھے مسلمانوں تک یہ باتیں پہنچائی جائے تاکہ سیدھے سادھے مسلمانوں کو اس کا علم ہو اور گمراہ ہونے سے بچیں.

العذاب الشدید: یہ کتاب المصباح الجدید کے جواب میں مقامع الحدید کا جواب حافظ ملت علیہ الرحمہ نے تحریر فرمایا ہے.
المصباح الجديد جب حافظ ملت نے لکھا تو اس کے جواب میں ایک کتاب لکھی گئی جس نام مقامع الحدید ہے.
حافظ ملت نے اس کا بھی جواب لکھا. اسے آپ کے شاگرد رشید مولانا محبوب صاحب اشرفی نے مرتب کر کے کتاب کا نام "العذاب الشديد” لصاحب مقامع الحديد” رکھا. یہ کتاب ایک مقدمہ اور دو باب پر مشتمل ہے.

انباء الغیب : علم غیب مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے عنوان پر ایک بہترین رسالہ آپ نے لکھا ہے.
یہ کتاب ایک دیوبندی مولوی کا علم غیب پر سوال کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا ہے.
اس مختصر رسالے کے مطالعے سے حافظ ملت علیہ الرحمہ کے علمی جلالت اور طرز استدلال کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے.

فرقہء ناجیہ: یہ ایک استفتا کے جواب میں آپ نے قلمبند فرمایا ہے.
اس رسالہ میں حضرت حافظ ملت نے یہ ثابت کیا ہے کہ امت کے جو ٧٣/فرقے ہوں گے ان میں ناجی فرقہ سواد اعظم اہل سنت ہے، باقی ٧٢/فرقے ناری ہیں.

فتاویٰ حافظ ملت: شروعاتی دور میں دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور کے دارالافتاء سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات جو آپ نے لکھی ہے اس کا مجموعہ ہے. یہ ضخیم مجموعہ پہلی مرتبہ ٢٠٢٠ء میں چھپ کر منظر عام پر آئی ہے.
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.
آمین ثم آمین.

ازقلم: عالیہ آفرین غوثی.( ہزاری باغ).

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے