تحریر: محمد منصور عالم نوری مصباحی
حال مقیم: پوسد ایوت محل مہاراشٹر
یوں تو دنیا میں نہ جانے کتنی عظیم شخصیات جنم لی ہیں جن کی تابندہ زندگیوں کی روشنیوں سے دنیا جگمگ کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی لیکن ماضی قریب میں دنیا نے ایک ایسی نابغہ روزگار عبقری شخصیت کو دیکھی ہے جو مجمع کمالات تھے جن کے اندر قوم کی رہنمائی کر نے کی پوری صلاحیت موجود تھی جن کی زندگی کے اوراق شاہد ہیں کہ آپ ایک خدا ترس شب زندہ دار بزرگ تھے اور گفتار سے زیادہ کردار و عمل کے غازی تھے جو بیک وقت متقی ،محدث ، مفتی، مدرس ، مقرر ،مفکر ، مدبر ، منتظم ،مشفق ، مربی ، معمار قوم وملت اور انقلاب آفریں شخصیت تھے جن کے نقوش قدم قوم مسلم کے لئے شب تار میں ھدایت و رہنمائی کے روشن چراغ کی طرح ہیں جن کی زندگی کا کوئی بھی گوشہ مطالعہ کیجئے بے داغ منزہ و مصفہ نظر آئے گا جن کی متاثر کن شخصیت کو جس نے قریب سے دیکھا وہ تو گرویدہ ہوا ہی ہے اور جس نے سنا اور پڑھا وہ بھی دیوانہ و شیدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکا اس کی وجہ فروغ دین وملت کے لئے آپ کی بے انتہا و بے لوث جد وجہد اوردین کے کام کے لئے خلوص، محبت، ایثارو قربانی کے ساتھ ساتھ مجسم اخلاق و کردار ہونا بھی ہے۔ حافظ ملت کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، بولنا چالنا، دیکھنا سننا، اڑھنا پہننا،کھانا پینا، سونا جاگنا، بولنا مسکرانا، پڑھانا لکھانا الغرض سب کام سنت و شریعت کے مطابق تھا اللہ و رسول کے دوستوں سے دوستی اور اللہ و رسول کے دشمنوں سے دشمنی آپ کا طرہ امتیاز تھا آپ نے الجامعة الاشرفیہ کو پانی سے نہیں بلکہ خون جگر سے سینچا تھا جو آج عالم اسلام کی ایک عظیم درسگاہ ہے جہاں قال اللہ وقال الرسول کی صداؤں سےفضا مہک اٹھتی ہے۔ حضور سیدنا اعلیحضرت امام احمد رضاخان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ والرضوان نےجس مسلک و مذہب کے تحفظ وبقا کے لئے ایک ہزار سے زائد کتابیں تحریر فرماکر قوم و ملت کے حوالہ کی تھی ان عظیم سرمایہ کتب کے تحفظ و بقا اور نشر واشاعت کے لئے آپ نے الجامعة الاشرفیہ کو عظیم قلعہ بنایا اور حضورسیدنا، ملجانا و ماوانا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمة الله عليه سے اور خانوادہ اشرفیہ سے آپ کو بہت محبت اور لگاؤ تھا اور حضور سیدنا قطب ربانی اشرفی میاں علیہ الرحمہ کے تو مرید تھے ، اس محبت و عقیدت کاجیتا جاگتا ثبوت الجامعة الاشرفيه کا نام اپنے مقتدٰی وپیشوا کی طرف منسوب کیاجاناہے نیز آپ ایک ایسی سنگمی شخصیت کے مالک تھے جس میں اشرفیت کی چمک تھی تو رضویت کی مہک بھی تھی اور آپ علیہ الرحمہ اعلیحضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمت والرضوان کے افکار ونظریات کی عملی تفسیر تھے تو مصنف بہار شریعت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کے خوابوں کی سچی تعبیر وتشریح بھی تھے۔
آئیئے آپ علیہ الرحمہ کے اخلاق کریمانہ کی کچھ جھلکیا سنیں اور عش عش ہوجائیں۔
سید ولی الدین رضوی چیف ایڈیٹر ماہنامہ نور مصطفی پٹنہ کا تاثر سماعت کریں ۔لکھتے ہیں ” آپ کی صحبت بافیض سے شرف پانے والے خوش نصیبوں کی اجتماعی رائے یہ ہے کہ آپ کا سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ آپ سے ملنے والا ہر شخص یہ گمان کرتا تھا کہ آپ سب سے زیادہ اسے چاہتے ہیں ۔۔۔اس سے بڑھ کر کوئی بھی آپ سے قریب نہیں اور یہ کم بات نہیں ہے ۔بیک وقت اپنے تمام ماتحتوں اور ملنے والوں کو خوش رکھنا اور یہ تاثر دینا کہ ہم تم سے بڑھ کسی کو نہیں چاہتے ۔میرے خیال میں ایک ایسا امر ہے کہ اگر کوئی انسان اس کی ادا کاری بھی کرناچاہے تو وہ اس میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکتا ۔۔۔مگر وہ حافظ ملت کی ذات تھی جن کے اخلاقی جوہر کا یہ رنگ ہر خاص وعام نے ملاحظہ کیا۔ (حافظ ملت ،افکار وکارنامے ص ۹۵۔)
حضرت حافظ وقاری عبد الحکیم عزیزی مصباحی جو آٹھ سال تک دارالعلوم اشرفیہ کے شعبہ حفظ و قرات کی تدریسی خدمات پر مامور تھے ایک مقالہ (حافظ ملت کے اخلاق عالیہ کی جھلکیاں) کے اندر لکھتے ہیں کہ میں نے اس طویل مدت میں حضور کا کوئی بھی عمل خلاف سنت نہیں پایا ۔
مزید آگے تفصیل کے ساتھ کچھ اوصاف حمیدہ کو قلمبند کرتے ہیں کہ
سادگی:۔ حضرت کی پوری زندگی بالکل سادہ اور درویشانہ طرز پر گزری ہے ، لباس جو زیب تن فرماتے تھے وہ موٹا سوتی کپڑے کا ہوتا تھا ، کرتا لمبا ، پائجامہ شرعی ، ٹوپی دوپلیہ ، عمامہ ہر موسم میں ، شیروانی بھی ہمیشہ ، جوتا ناگرہ، عصا بھی اپنے دست مبارک میں لیکر چلتے تھے ، چلتے وقت، نگاہ نیچی رکھتے، تیز چلتے اور چلنے کا انداز یہ ہوتا کہ جیسے فراز سے نشیب کی طرف آرہے ہوں ۔مدرسہ قدیم جہاں حضرت سکون پذیر تھے مکان کھپریل ، کسی آرائش و زیبائش کا نام تک نہیں تھا الیکٹریک (بجلی) کابھی انتظام نہیں تھا حالانکہ حضرت کے جانثاروں نے ہر چند کوشش کی کہ الیکٹرک کا انتظام کر دیا جائے لیکن حضرت نے پسند نہیں فرمایا ، گھر کے اندر چند مٹی کے برتن ، معمولی بوسیدہ دری ، جاڑوں میں نصف چارپائی تک بچھنے والا گدا ، گھر کا یہی سارا اثاثہ تھا اس کے علاوہ کرو فر کا کوئی سامان نظر نہیں آتا تھا۔ ( کہتے ہیں سادگی میں حسن ہے یہ حافظ ملت کا وہ حسن تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی پاکیزہ زندگی کو یاد دلاتی ہے)
مہمانوں کا اعزاز :۔ جب بھی کوئی مہمان آجاتا تو حضرت خود چولھا جلاتے اور چائے کا اہتمام فرماتے ، پانی پینے کے لئے میٹھائی رکھتے ، آنے والے سے انتہائی خندہ پیشانی کے ساتھ حالات اور خیریت دریافت فرماتے ، آنے والے مہمانوں میں ہر قسم کے لوگ ہوتے، مثلا معاصرین ، تلامذہ اور مریدین و متوسلین مگر میزبانی اور بشاشت کا معاملہ سب کے ساتھ ایک جیسا ہوتا تھا ، بعض تلامذہ کے آجانے پر حضرت کے خوشی کاعالم دیکھنے کے لائق ہوتا
اس درجہ شفقت فرماتے کہ آنے والا محو حیرت رہ جاتا،کبھی کبھی اس حد تک اعزاز فرماتے کہ حضرت کھڑے ہوجاتے اور اپنی جگہ پر بیٹھانے کی کوشش کرتے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کہیں باہر سے کچھ مہمان آگئے ۔، میں خود بھی اس موقع پر موجود تھا میں نے دیکھا کہ حضرت خود چولھا پھونک پھونک کر چائے تیار کررہے ہیں میری یاآنے والےمہمانوں کی جرأت نہ تھی کہ حضرت کے اس کام میں ہاتھ بٹاتے۔
اسراف سے پرہیز :۔
عزیز محترم جناب مولانا نصیر الدین صاحب پلاموئ (جو اس زمانہ میں متوسطات کے طالب علم تھے جو بعد میں الجامعة الاشرفيه کے مؤقر استاذ بنے)اندر آگئے میں نے اشارہ کیاکہ چائے تیار کیجئے چولہے میں حضرت نےگنّے کے جتنی کھوئی لگائی تھی ، مولانا کچھ زیادہ مقدار میں لگادی اس پر فرمایا کہ” میاں اتنے میں چائے بن جائے گی یہ اسراف ہے "
دوسرا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ میں عشاء کی نماز کے بعد حضرت کی بارگاہ میں ضرورت سے حاضر ہوا ٹین کاچراغ جس کو ہمارے گونڈہ میں بستی کی زبان میں ” ڈھبری ” کہتے ہیں جل رہاتھا پہونچتے ہی میں نے چراغ کی لو تیز کردی حضرت نے فورًا لو کم کردی اور فرمایا ” قاری صاحب ! اللہ تعالی کا فضل ہے کہ اس روشنی میں ،میں متن کی عبارت کے ساتھ حاشیہ بھی پڑھ لیتاہوں ۔۔۔اسی کو اسراف کہتے ہیں اس کا حساب دینا پڑے گا ۔
حضرات قارئین کرام ! غور فرمائیں بظاہر یہ کتنا معمولی واقعہ ہے مگر حضرت تقویٰ کے کتنے عظیم مرتبہ پر فائز تھے ، اس طرح کے واقعات سلف صالحین اور بزرگان دین سے متعلق کتابوں میں بس پڑھے گئے تھے ، دیکھنے میں نہیں آئے تھے واقعہ تو یہ ہے اس صدی کے لوگوں میں اس طرح کی باتوں کا فقدان نظر آتا ہے۔
بچوں پر شفقت اور مریضوں کی مزاج پرسی
کسی کے گھر تشریف لے جاتے تو چھوٹے بچوں کو پیسے دیتے اور ان کے سروں پر شفقت کا ہاتھ پھیرتے ، پیار کرتے اور درازئ عمر کی دعافرماتے ، مریض کو تسلی دیتے اور دعائے صحت فرماتے ، اسی طرح کسی کے انتقال کی خبر سنتے تو تعزیت کے لئے جاتے، اہل خانہ کو صبر کی تلقین فرماتے اور میت کے لئے دعائے مغفرت بھی کرتے،ایک مرتبہ سنہ 1964ء میں مبارکپور کے زمانۂ قیام میرے شکم میں شدید درد پیدا ہوا ، جب حضرت کو خبر ہوئی تشریف لائے ، کچھ پڑھ کر مجھے دم کیا مگر افاقہ نہ ہوا تو گھر کے اندر تشریف لے گئے دوا لائے اور پینے کا تعویذ بھی دیئے ، اور باربار آکر خیریت معلوم کرتے رہے ،آپ کے چہرے سے بڑی پریشانی کے آثار نظر آرہے تھے ، کچھ دیر بعد مجھے افاقہ ہوا توحضرت مطمئن ہوئے۔ یہ درد مجھے باربار ہوا کرتا تھا اس کے ازالہ کے لئے حضرت نے مجھے معوذتین پڑھنے کی ھدایت فرمائی جس کا میں نے ہر نماز کے بعد التزام کیا بحمد اللہ اس مرض سے مجھے نجات مل گئی ۔
جانوروں اور پرندوں کا خیال
حضرت کے دروازے پر ایک کتا رہتاتھا صبح و شام اسے روٹی دیتے ، جب کبھی باہر تشریف لے جاتے تو اپنے پڑوسی حاجی سلامت اللہ صاحب سے بتاکید کہ جاتے کہ ” حاجی صاحب ! کتے کو روٹی دے دیاکریں گے” گھر کے آنگن میں چڑیوں کو روزانہ صبح وشام چاول ڈال دیتے اور پیالہ میں پانی ڈال دیتے ، باہر تشریف لے جاتے تو کسی طالب علم کو گھر کی چابی دیکر ارشاد فرماتے کہ ” ٹھیلئے سے چاول نکال کر چڑیوں کے لئے چاول ڈال دینا اور پانی بھی رکھ دینا ” واقعہ یہ ہے کہ میرے حضرت انسانیت کے عظیم مرتبہ پر فائز تھے جو انسانوں کے ساتھ بے زبان جانداروں کا بھی از حد خیال رکھتے تھے۔
صحیحین کی ایک حدیث میں کتے کو پانی پلانے کے متعلق ایک واقعہ کے تحت حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ ارشاد رسالت مروی ہے فی کل ذات کبد رطبة صدقة ہر تر جگر والی مخلوق میں صدقہ ہے اور شعب الایمان امام بہیقی میں تو حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ فرمان نبوی مروی ہے کہ افضل الصدقة ان تشبع کبدا جائعا۔ کسی بھوکے جگر کو سیر کرنا بہترین صدقہ ہے۔ (مشکٰوةشریف)
حافظ ملت قدس سرہ کی زندگی ان احادیث کریمہ کا عملی نمونہ تھی اور سب سے زیادہ اہم اور حیرت انگیز امر اس کا التزام اور زمانہ غیر موجودگی کے لئے بھی اس کے لئے اس کا حسن انتظام ہے ۔آج کون ہے جو اپنے بے شمار معمولات ومشاغل کے ہجوم میں ان باتوں کی اتنی پابندی کر سکے۔
پابند تہجد
مولانا رضوان احمد شریفی مصباحی آپ علیہ الرحمہ کی نماز کی پابندی کاذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ” نماز پنجگانہ کے علاوہ نمازتہجد کے بھی پابند تھے سفر وحضر دونوں میں نماز تہجد قضا نہیں ہوتی جلسہ وغیرہ میں عموماً تاخیر سے آرام کرنے کا موقعہ ملتا مگر تہجد کے لئے بیدار ہو جاتے تھے ۔ایک مرتبہ مجھ سے حاجی عبد الحکیم صاحب بنارسی کلاتھ مرچنٹ نے بیان کیا ہمارےوہاں گیارہوی شریف کی تقریب میں حضرت برابر تشریف لاتے ایک سال کافی تاخیر سے حضرت کو آرام کرنے کا موقعہ ملا اس رات میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ آج کافی دیر ہوگئی ہے حضرت نمازتہجد کے لئے کیسے بیدار ہوں گے مگر کچھ دیر بعد میں نے حضرت کو نماز تہجد ادا کرتے ہوئے دیکھا ۔ایسا معلوم ہوتاہے کہ حضرت کو نیند پرکنٹرول ہے جب چاہتے بیدار ہوجاتے۔ (ازافکار و کارنامے)
طلبہ آپ کی نظر میں
حضرت علامہ شمس الھدیٰ مصباحی علامہ عبد اللہ خان صاحب کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ دورہ حدیث کے طلبہ آپ کے یہاں پڑھ رہےتھے قصبہ کے کوئی صاحب آئے جب سبق ختم ہوچکا تو عرض کیا حضور !ان بچوں کی کل دعوت ہے ۔حضرت نےخفا ہوکر فرمایا” ابھی یہ بچے ہیں ؟ میاں !یہ علمائے دین ہیں ۔
اور سربراہ اعلی صاحب کے حوالے سےلکھتے ہیں کہ طلبہ کو اپنی اولاد سے کم حیثیت نہ دیتے، بقر عید کے موقعہ پر خاص طور سے جو طلباء موجود رہتے ہر ایک کی اپنی دولت کدہ پر دعوت کرتے خود ان کی ضیافت فرماتے اور اپنی جیب خاص سے کچھ عنایت فرماتے۔اور رازدارانہ طور پر تو نہ جانے اس طرح کی کتنی امداد فرماتے۔۔۔۔۔۔دوسری طرف شرارت پر عبرتناک سزادینے میں بھی کوئی کسر باقی نہ رکھتے گویاکہ آپ درشتی ونرمی بہم در بہ کی عملی تصویر تھے۔ (کتاب مذکور ص 57)
اب میں اس مضمون کو پروفیسر آفتاب احمد خان صاحب مبارکپوری کے نظریہ اور آپ علیہ الرحمہ پر سلام کے ساتھ مکمل کر رہاہوں کہ آپ فرماتے ہیں یہ میرا اپنانظریہ ہے کہ غالباً آپ اس قول کے قائل تھے کہ ” ہٹ د سن ناٹ د سنر ” یعنی گناہ سے نفرت کرو گناہگار سے نہیں۔
جس نے پیدا کئے کتنے لعل و گوہر
حافظ دین وملت پہ لاکھوں سلام
ماخذ و مراجع: حافظ ملت افکار اور کارنامے۔سہ ماہی امجدیہ ۲۰۰۶۔اوراسلامک میگزین تحفظ کراچی پاکستان۔
نوٹ: یہ مضمون سنہ ۲۰۱۸ع میں رقم کیا تھا۔