حضور حافظ ملت

حضور حافظِ ملت کی مختصر سوانح حیات


صدرُالشریعہ علیہ الرحمہ کی نگاہ فیض سے حافظ ملت علیہ الرحمہ آسمان علم کے درخشاں ستارے بن کر چمکے
استاذُ العلماء جلالۃُ العلم، حضور حافظِ ملَّت حضرت علامہ الشاہ عبد العزیز مُحدث مراد آبادی علیہ الرحمہ کا نام عبد العزیزاورلقب حافظِ ملت ہےجبکہ سلسلۂ نسب عبدالعزیز بن حافظ غلام نور بن مولانا عبدالرحیم رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی عنہما

ولادتِ باسعادت
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ۱۳۱۲ھ بمطابق1894ء قَصْبہ بھوج پور بروز پیر صبح کے وقت اس عالَم رنگ وبومیں جلوہ فرمایا۔


حضور حافظِ ملّت کے والدین
حضور حافظ ملت کے والد ماجد احکامِ شرع کے پابند ، متَّبعِ سنت ، با عمل حافظ اور عاشقِ قرآن تھے۔ اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے قرآنِ مجید کی تلاوت زبان پر جاری رہتی حِفْظ ِ قرآن اس قدر مضبوط تھا کہ آپ علیہ الرحمہ ”بڑے حافظ جى“کے لقب سے مشہورتھے ، بچوں کی عمر سات سال ہوتے ہی انہیں نماز کى تاکىد کرتے اور کوئی ملنے آتا تو خُوب مہمان نوازی کیا کرتے اگرمہمان نماز کا پابندہوتا تورات ٹھہرالیتے ورنہ صرف کھانا کھلاکررخصت کردیتے، جب حج و زیارت سے مُشرف ہوئےاور واپسی پر اَخراجات ختم ہوگئے تو کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا بلکہ محنت مزدوری کرکے اخراجات جمع کئےاور۹ ماہ بعد تشریف لائے۔ تقریباً سو سال عمر پاکر اس دارِفانی سے عالمِ جاودانی کی طرف کوچ کرگئے۔حضور حافظ ملت کی والدۂ محتر نماز روزے کی بڑى پابندی فرماتیں ۔ مسلمانوں کی خَیْرخواہی اورایثار کا ایسا جذبہ عطا ہواتھا کہ گھر میں غُربت ہونے کے باوجود پڑوسىوں کا بہت خیال رکھا کرتیں، اکثر اپنا کھانا اىک بىوہ پڑوسن کو کھلادىتىں اور خود بھوکی رہ جاتیں۔


حضور حافظ ملت تعلیم اورحفظ ِقرآن کریم
حُضُور حافظِ ملت رحمۃ اللہ علیہ نےابتدائی تعلیم ناظرہ اور حفظِ قرآن کی تکمیل والد ِماجد حافظ غلام نور رحمۃ اللہ علیہ سے کی۔اس کے علاوہ اُردو کی چار جماعتیں وطنِ عزیز بھوجپور میں پڑھیں۔


حافظِ ملّت کی اعلیٰ تعلیم
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ ۱۳۳۹ ھ کوتقریباً ۲۷ سال کی عمر میں جامعہ نعیمیہ مُراد آباد میں داخلہ لے لیااور تین سال تک تعلیم حاصل کی ۔مگر اب علم کی پیاس شدت اختیار کرچکی تھی جسے بجھانے کے لیے کسی علمی سمندر کی تلاش تھی۔
حضور صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ سے ملاقات
۱۳۴۲ھ میں آل انڈیا سنی کانفرنس مُراد آبادمیں منعقد ہوئی جس میں مشہور ومعروف اورنامورعلمائے اہلسُنَّت تشریف لائے جن میں صدرُالشریعہ بدرُالطریقہ مُفْتی اَمجد علی اَعظمی علیہ الرحمہ بھی شامل تھے۔حضور حافظِ ملّت نے موقع دیکھ کر
صدرُالشریعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ میں درخواست کی توآپ نے فرمایا: شوالُ المکرم سے اجمیر شریف آجائیں مدرسہ مُعینیہ میں
داخلہ دلوا کر تعلیمی سلسلہ شروع کرادوں گا۔چنانچہ صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ نے حافظ ملت کو جامعہ مُعینیہ میں داخلہ دلوادیا کچھ عرصہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے معاشی پریشانی اور ذاتی مصروفیت کی وجہ سے مزید تعلیم جاری نہ رکھنے کا ارادہ کیا اور دورۂ حدیث شریف پڑھنے کی خواہشظاہر کی تو حضرت صدرُ الشریعہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے شفقت سے فرمایا:آسمان زمین بن سکتا ہے، پہاڑ اپنی جگہ سے ہل سکتا ہےلیکن آپ کی ایک کتاب بھی رہ جائے ایسا ممکن نہیں ۔چنانچہ آپ نے اپنا ارادہ مُلتوی کیا اور پوری دلجمعی کے ساتھ صدرُالشریعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں رہ کر مَنازلِ علم طے کرتے رہے بالآخر استادِمحترم قبلہ صدرُالشریعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی نگاہِ فیض سے ۱۳۵۱ھ بمطابق 1932ء میں دارُالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف سے دورۂ حدیث مکمل کیا اور دستار بندی ہوئی۔
حضور صدر الشریعہ کے حکم پرحافظ ملت مبارکپورتشریف لائے
شوال المکرم ۱۳۵۲ھ میں حضرت صدرُ الشریعہ علیہ الرحمہ نے آپ کو مبارک پور(ضلع اعظم گڑھ یوپی) میں دَرس و تدریس کا حکم دیا تو حافظ ملت نے عرض کی حضور! میں ملازمت نہیں کروں گا۔ صدرُ الشریعہ نے فرمایا:میں نے ملازمت کا کب کہاہے؟ میں توخدمتِ دین کے لئے بھیج رہا ہوں۔


مبارک پور میں حافظِ ملّت کی آمد
حضور حافظ ملت ۲۹ شوال المکرم ۱۳۵۲ھ بمطابق ۱۴ جنوری 1934ء کو مبارکپور پہنچےاور مدرسہ اشرفیہ مصباحُ العلوم(واقع محلہ پرانی بستی) میں تدریسی خد مات میں مصروف ہوگئے۔ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ آپ کے طرزِ تدریس اور علم و عمل کے چرچے عام ہوگئے اور تشنگانِ علم کا ایک سیلاب اُمنڈ آیا جس کی وجہ سے مدرسے میں جگہ کم پڑنے لگی اورایک بڑی درسگاہ کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ چنانچہ آپ اپنی جِدّو جُہدسے ۱۳۵۳ھ میں دنیائے اسلام کی ایک عظیم درسگاہ (دارُالعلوم)کی تعمیرکا آغازگولہ بازارمیں فرمایا جس کا نام سلطانُ التارکین حضرت مخدوم سَیِّد اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت سے ”دارُالعُلُوم اشرفیہ مصباح ُالعلوم “ رکھاگیا
کچھ عرصہ بعد حضور حافظ ملت کچھ مسائل کے بنا کر حضور حافظ ملت نے استعفاء دے کر جامعہ عربیہ ناگپور چلے گئے اشرفیہ سے جانے کے بعد اشرفیہ کی تعلیم اور معاشی حالت انتہائی خستہ ہو گئی۔
حضور صدر الشریعہ کے حکم پر پھر دوبارہ اشرفیہ میں تشریف لے ے آئے اورتادم ِحیات دارُالعلوم اَشرفیہ مُبارکپور سے وابستہ رہ کر تدریسی و دینی خدمات کی انجام دہی میں مشغول رہے۔حافظِ ملت کی کوششوں سے مُفتیٔ اعظم ہند شہزادہ ٔ اعلیٰ حضرت مفتی محمد مصطفےٰ رضا خان علیہ الرحمہ کے دستِ مبارک سے ۱۳۹۲ھ بمطابق 1972ء میں
مبارک پور میں وسیع قطعِ اَرض پر الجامعۃُ الاشرفیہ(عربی یونیورسٹی )کا سنگِ بنیاد رکھا گیا ( حیات حافظ ملت، ص۶۵۰تا ۷۰۰)
حضور حافظ ملت والدین استاذ العلماء حضورصدرُالشرىعہ کی بارگاہ مىں ہمىشہ دوز انو بیٹھا کرتے ، اگرصدرُ الشرىعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ضرورتاً کمرے سے باہر تشرىف لے جاتے تو طلبہ کھڑے ہوجاتے اوران کے جانے کے بعد بیٹھ جاتے اور جب واپس تشریف لاتے تو ادباً دوبارہ کھڑے ہوتے لیکن حافظِ ملت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اس پورے وقفے میں کھڑے ہی رہتے اور حضرت صدرُ الشرىعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے مَسْندِ تدریس پر تشریف فرماہونے کے بعد ہی بیٹھا کرتے۔


حضور حافظ ملت کی دینی خدمات
حضور حافظِ ملّت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ایک بہترین مدرس ، مصنف، مناظِر اور منتظمِ اعلیٰ تھے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا سب سے عظیم کارنامہ الجامعۃُ الاشرفیہ مبارک پور (ضلع اعظم گڑھ یوپی ہند) کا قیام ہےجہاں سے فارغُ التحصیل عُلما ہند کی سرزمین سے لے کر ایشیا، یورپ و امریکہ اورافریقہ کے مختلف ممالک میں دینِ اسلام کی سربلندی اور مسلکِ اعلیٰ حضرت کی ترویج واشاعت میں مصروف ِ عمل ہیں ۔


حضور حافظ ملت کی تصانیف
حضور حافظ ملت تحریر وتصنیف میں بھی کامل مَہارت رکھتے تھےآپ نے مختلف مَوضوعات پر کُتب تحریر فرمائیں جن میں سے چند کے نام یہ ہیں: (1)مَعارفِ حدىث (احادىثِ کرىمہ کا ترجمہ اور اس کى عالمانہ تشرىحات کا مجموعہ )(2) اِرشادُ القرآن(3) الارشاد (ہند کی سیاست پر ایک مُسْتقل رسالہ )(4) المصبَاح ُالجدىد (بد مذہبوں کے عقائد سے مُتعلق30سوالوں کے جوابات بحوالہ کتب، یہ رسالہ مکتبۃ المدینہ سے ”حق و باطل میں فرق “کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ )(5) العذابُ الشَّدىد (المصباحُ الجدىدکے جواب ’’مَقامعُ الحدىد‘‘کا جواب)(6) اِنْباء ُالغىب (علمِ غىب کے عُنوان پر اىک اچھوتا رسالہ)(7) فرقۂ ناجىہ(اىک اِسْتفتاکا جواب)(8) فتاوىٰ عزىزیہ(9)حاشیہ شرح مرقات ۔


بیعت و خلافت و اجازت
حضور حافظِ ملّت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ شیخ ُالمشائخ حضرت مولانا شاہ سَیِّد علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ علیہ کے مُرید اور خلیفہ تھے۔ استادِ محترم صدرُ الشریعہ حضرت علامہ مولانا اَمجد علی اَعْظمی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی آپ کو خلافت و اجازت حاصل ہوئی۔


حضور حافظ ملت کی وصالِ پُرملال
31مئی1976ء تقریباً شام چار بجے دیکھنے والوں کو یہ اُمید ہوچلی کہ اب حافظ ملت جلد ہی صحت یاب ہوجائیں گے بلکہ رات دس بجے تک بھی آپ کی طبیعت میں کافی حد تک سُکون اور صحت یابی کے آثاردیکھے گئےمگر خلافِ اُمید آپ ر یکم جمادی الاخری ۱۳۹۶ھ بمطابق31مئی1976ء رات گیارہ بج کر پچپن منٹ پر داعیٔ اَجَل کو لَبَّیْک کہہ گئے اِنَّالِلّٰه وَاِنَّا اِلَیۡهِ رَاجِعُوۡنَ آپ کی آخری آرام گاہ الجامعۃ ُالاشرفیہ مُبارکپور کے صحن میں ”قدیم دارُالاِقامۃ “کے مغربی جانب اور”عزیزُ المساجد“ کے شمال میں واقع ہےہر سال اسی تاریخ وفات پر آپ کے عُرس کا اِنعقاد بھی ہوتا ہے۔مولیٰ تبارک و تعالیٰ فیضانِ حافظِ ملت سے مالامال فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین

۔۔۔۔از۔۔۔۔
تلمیذ محدث کبیر خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین
(مفتی) عبدالرشید امجدی‌ اشرفی دیناجپوری
کھوچہ باڑی رام گنج اسلام پور
7030786828

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے