یہ کلام میں نے اپنی فراغت کے سال، 22 ستمبر 2002 بروز اتوار، محفلِ ختم بخاری کے موقعے پر لکھا تھا، ایسا لگتا ہےکہ جن لمحات میں یہ کلام لکھا گیا وہ قبولیت کے تھے بفضل خدا و بطفیل مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اِس نظم کو بہت پذیرائی وشہرت حاصل ہوئی، بہت سے مدارس و جامعات میں یہ نظم پڑھی جارہی ہے ، خود مادر علمی جامعہ اشرفیہ میں عرس عزیزی و ختم بخاری کے موقعے پر اکثر یہ نظم پڑھی جاتی ہے فالحمدللہ علی ذالک …. فریدی
اے جامعہ کے فارغ، ملت کی لاج رکھنا
عبد العزیز بن کر، زندہ سماج رکھنا
آواز دے رہی ہے اِس جامعہ کی دھرتی
تم جس جگہ بھی رہنا، علمی مزاج رکھنا
اَسلاف کی وراثت، سینوں میں ہے تمہارے
اِلحاد سے بچا کر تم یہ زُجاج رکھنا
دیکھو ! کبھی خودی کا سودا نہ ہونے پائے
باطل سے تم نہ ہرگز، رسم و رواج رکھنا
ہو خیر کی اشاعت، فکر و عمل سے دائم
ہر اک بدی کے رد میں تم احتجاج رکھنا
آفاقیت نظر میں ، انسانیت جگر میں
عالَم میں جو اَلَم ہیں ، سب کا علاج رکھنا
کھیتی کبھی نہ کرنا، فخر و غرور کی تم
اخلاص کی زمیں پر ، علمی اَناج رکھنا
اپنے بڑوں کی عزت چھوٹوں پہ رحم و شفقت
فطرت میں اپنی دائم یہ اِمتزاج رکھنا
قائد ہو قوم کے تم ، چلنا سنبھل سنبھل کر
اَسلاف کی روش پر، ہر کام و کاج رکھنا
بیدارئ عمل ہو، کردار میں تمہارے
” کَل” چھوڑ کر ہمیشہ نظروں میں”آج” رکھنا
دنیا کی لذتوں پر شیدا نہ ہونا ہرگز
بن کر نبی کے عاشق سنت کا راج رکھنا
احمد رضا کے احساں ہرگز نہ بھولنا تم
دل میں عقیدتوں کے، ہر دم خراج رکھنا
ناموسِ مصطفیٰ کی، دائم ہو پاسبانی
اپنے سَرِ وفا پر ہمت کا تاج رکھنا
مصباحیت کی مِشعَل، ہاتھوں میں ہے فریدی !
اب ساری عمر روشن ، تم یہ سِراج رکھنا
از محمد سلمان رضا فریدی صدیقی مصباحی بارہ بنکوی، مسقط عمان 96899633908+