انسانی تاریخ ایسے لوگوں کی لازوال داستان سے روشن ہے جنھوں نے اپنی فکری و عملی قیادت سے قوم و ملت کو نئی جہت دی۔جو اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ ایک مقصد کے لئے جیتے تھے یہ لوگ ایک فرد نہیں بلکہ ایک تحریک ،ایک عہد،ایک مثال،ایک نصب العین بن جاتے ہیں۔ جلالۃالعلم حافظ ملت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی قدس سرہ انھیں عبقری ہستیوں میں سے ہیں جنھوں نے اپنے علم و بصیرت اور عزم و استقلال کے ذریعے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دیے جو آنے والے زمانوں کےلئےمشعل راہ بن گئے۔
حافظ ملت کی ذات بڑی ہمہ گیر تھی آپ کی شخصیت کے ہشت پہلو اور ہر پہلو میں آپ یگانۂ عصر ٹھہرے۔حساس ایسے کہ ہر گھڑی جن کی آنکھیں قوم کی زبوں حالی پر نم رہا کرتیں،نباض ایسے کہ ملت بیمار کے مرض کی تشخیص بھی کی اور دواءشافی کا اہتمام بھی کیا،مربی ایسے کہ خاک کو کندن بنادیئے ،مسیحا ایسے کہ جماعت کو مایوسیوں کے اندھیرے سے نکال کر امید کی روشنی میں لا کھڑا کئے ،جلالت علمی ایسی کہ امامان عصر بھی جن کی خدمت میں حاضری کو اپنے لئے سرماىۂ افتخار سمجھتے۔
نگہ بلند نواز سخن دلنواز جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے
غرضیکہ کسی ایک جہت میں آپ کو محدود نہیں کیا جاسکتا ۔آپ اگر حق گو عالم ربانی تھے تو عابد شب زندہ دار بھی،باکمال مربی تھے تو بے مثال منتظم بھی،آپ اگر منفرد اہل قلم و نکتہ رس خطیب تھے توعظیم دانشور اور کامیاب ماہر تعلیم بھی ۔واقعی حافظ ملت کی شخصیت ایسی ہمہ جہت تھی کہ جس میں سے ہر وقت روشنی پھوٹتی رہتی اور ہر سمت کو روشن کرتی تھی ۔حافظ ملت کی دینی خدمات لازوال ہیں چار دن کی زندگی میں ایسے زندہ و جاوید کارنامے انجام دیئے جوفرد واحد تو کیا!کیئ اداروں اور تنظیموں کے لیے بھی ممکن نہیں۔الجامعۃ الاشرفیه قائم کرکے جہان اسلام کی ایسی خدمت بے بہا انجام دی جو رہتی دنیا تک یاد کی جاۓگی ۔یہ سچ ہے کہ انسانی عظمت کے راز اس کے کاموں میں چھپے ہوتے ہیں ۔بڑے کام بڑے لوگ ہی کیا کرتے ہیں ۔حافظ ملت کہا کرتے تھے "کام کے آدمی بنو کام ہی انسان کو معزز بناتا ہے”۔
آج دنیائے سنیت کے منظر نامے پرارباب دین و دانش جو کہکشاں سجی ہے،علم و فن کی جو بہاریں نظر آرہی ہے یہ سب فیضان حافظ ملت ہی کا پرتو ہیں۔علم و معرفت کے اس سورج کو غروب ہوۓ پچاس سال بیت گیے لیکن اس کی دھوپ میں پروان چڑھنے والی نسلیں آج بھی شاداب ہیں ،وہ مردحق آگاہ خاک کے حصار میں رو پوش تو ہو گیا مگر اس کی ضیا باریاں اک عالم کو محیط ہے الجامعۃالاشرفیه کی شکل اس کے حسین خوابوں کا پرچم دنیا بھر میں لہرا رہا ہے۔
اس ذات جلیل کا حق ہے کہ اس کے احسانات کو یاد کیا جائے ،اس کی فکر کو توانائی بخشی جاۓ،اس کی جلائی ہوئی شمع روشن رکھا جا ۓ،اس کے لگاۓ ہوۓ باغ کو سر سبز کیا جائے یہی اس مرد قلندر کی زندگی کا خواب تھا اور اس کے دل کی سب سے بڑی لگن۔اشرفیہ کو اسی روح اور اقدار کے ساتھ مستحکم کرنے کی کوشش کی جاۓ جیسا کہ حافظ ملت چاہتے تھے یہی آپ کی عظمت حقیقی اعتراف ہےاور آپ کی بارگاہ میں سچا خراج۔۔محسن کو خراج عقیدت ،باراحسان اتارنے بہترین طریقہ ہے۔۔
خداۓ قدیر سلامت رکھے جانشین حافظ ملت حضرت عزیز ملت مولانا شاہ عبدالحفیظ صاحب قبلہ مدظلہ،کوجن کی سربراہی میں تحریک اشرفیہ شاہراہ ترقی پر گامزن ہے۔آج جو اشرفیہ پوری آب وتاب کے ساتھ قائم ہے اور علم و آگہی کے نئے افق فراہم کر رہاہے۔یہ عزیز ملت کی قربانیوں کا ثمرہ ہے ۔عزیز ملت کی شخصیت میں فیضان نظر اور مکتب کی کرامت کی جھلکیاں صاف دکھائی دیتی ہیں۔آپ آداب فرزندی کے گرسے آشنا "الولد سر لابیہ "کے صحیح مصداق ہیں ۔حقیقی معنوں میں عزیز ملت عالم اسلام کے "متاع عزیز” اور جماعت کے قیمتی سرمایہ ہیں۔ آپ کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے جن کے جاگنے کا مقصد ہی ہے کہ حافظ ملت کے مشن کو اونگھ نہ لگ جائے ان کے کا م سو نہ جائیں۔۔۔آپ کی دینی و علمی خدمات صدیوں یاد رکھی جائیں گی ۔خداۓدوجہاں آپ کا سائہ عاطفت ہم پر دراز کرے۔
ازقلم: عبد الرحیم نظامی مصباحی
جامعہ صابریہ بیورشریف
ساکن لوکی لالہ ضلع سنت کبیر نگر