جمال نور عرفان ہدایت حافظ ملت
ادا تم نے کیا حق نیابت حافظ ملت
جلالت العلم حضور حافظ ملت حضرت علامہ الحاج الشاہ محمد عبد العزیز مرادآبادی ثم مبارک پوری علیہ الرحمۃ والرضوان مؤسس دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور ضلع اعظم گڈھ یوپی کا عرس جیسے جیسے قریب آرہا ہے قلمکار علماء اہلسنت اپنی تحریروں کے ذریعے حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں محبتوں کا خراج پیش کررہے ہیں ،
راقم نے حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کا نہ تو دور پایا اور نہ ہی دیدار سے مشرف ہوسکا ہاں اتنا ضرور جانتا ہے کہ میرے پدر بزرگوار سلطان القلم ادیب شہیر حضرت علامہ الحاج الشاہ محمد صابر القادری نسیم بستوی علیہ الرحمہ کے بڑے مشفق استاذ تھے ،
علاوہ ازیں شمالی مشرقی یوپی کی مشہور مؤقر خانقاہ ودرس گاہ خانقاہ یارعلویہ فیض الرسول اور دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف ضلع سدھارتھ نگر سے والہانہ وابستگی اور لگاؤ تھا ،،
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ اپنے آپ میں بھانت بھانت، نوع بنوع خوبیوں کے حامل اور علوم دینیہ یعنی "حدیث وتفسیر و فقہ "میں خوب خوب ماہر اور چشمۂ سیال تھے ،
اور علم و فضل کے ایسے چشمے تھے کہ جہاں سے صرف چند ہی نہیں بلکہ ایک جہان نے اپنی علمی مفلسی دور کی اور تشنگی مٹائی ہے ،
اور حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے اپنے کارخانہء علم و فضل سے ایسے ایسے لعل وگہر پیدا کئے ہیں جو اپنے آپ میں بہت ہی گرانقدر صد افتخار جماعت اہل سنت ہیں اور ان سے فیوض و برکات علم کے دھارے بہہ رہے ہیں ،
کسی نے کہا اور بالکل سچ کہا ہے کہ
جس نے پیدا کئے کتنے لعل وگہر
حافظ دین و ملت پہ لاکھوں سلام
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی زندگی کا لمحہ لمحہ فروغِ دین و دیانت اور اشاعت علم سے عبارت ہے ،
آپ نے دنیائے اسلام میں علم نبوی کی روشنی پھیلانے میں جو محنت و مشقت کی ہے اور اس کی ترویج و اشاعت کی ہے وہ ان کے عہد میں بھی ضرب المثل تھا اور آج بھی ہے ،
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے وقت کے جلیل القدر صاحبان علم و فضل کو درسگاہ اشرفیہ کے لئے منتخب کیا اور وہاں بڑی بڑی قابل فخر اور لائق وذی صلاحیت اساتذہ کرام نے درس وتدریس کی خدمات انجام دیں اور تعلیمی معیار کی بلندی کے لئے اصول وضابطے مقرر کئے ،اورخلوص وللہیت کے جذبات خیر کے ساتھ دارالعلوم اشرفیہ کو پروان چڑھایا اور ایسا چڑھایا کہ اب تک کبھی کسی آنکھ نے گلشن اشرفیہ کو خزاں زدہ نہیں دیکھا بلکہ وہ مسلسل روز افزوں ترقیاتی مراحل عبور کرتا ہی چلا گیا اور پوری دنیا میں اپنی انفرادی تشخص قائم کرلیا ،،،
آج فارغین اشرفیہ ملک وبیرون ممالک میں تعلیم وتدریس اور دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دے رہے ہیں اور اپنے مادر علمی کا نام روشن کررہے ہیں ،،
ہندوستان کے دوسرے لائق وبڑے مدارس کو چاہے لوگ نہ جانیں لیکن دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور کو ضرور جانتے ہیں کیونکہ اس کے نمائندے دنیا کے گوشے گوشے میں موجود ہیں ،
اور اس کی شہرت ومقبولیت اور دینی وملی خدمات کا سہرہ حضور حافظ ملت کے سر ہی جاتا ہے ،۔۔۔۔۔۔۔
اشرفیہ کل بھی نمایاں تھا اور آج بھی نمایاں ہے ،
اشرفیہ کو صاحبان فکر و شعور کل بھی عزت کی نظر سے دیکھتے تھے اور آج بھی دیکھتے ہیں ،
اشرفیہ کا کل بھی منفرد مقام تھا اور آج بھی منفرد مقام ہے ،
اشرفیہ میں کل بھی اچھی تعلیم وتربیت تھی اور آج بھی ہے ،
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کو پردہ کئے ہوئے تقریباً پچاس برس ہوگئے لیکن جیسےوہ اپنی ظاہری حیات میں شاندار کارکردگی دیکھنا چاہتے تھے ویسے آج بھی دیکھ رہے ہیں ،
اشرفیہ کے فیضان علم کا دریا کل بھی رواں دواں تھا اور آج بھی رواں دواں ہے بس لوگوں کو سیراب ہونے کی ضرورت ہے ،
برسوں سے جن جن بلند پایہء علمی ودینی شخصیات کا نام سننے میں آیا اور جب پتہ لگایا گیا تو وہ اشرفیہ کے درسگاہ علم و فضل کے خوشہ چیں ہی نکلے ،چونکہ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے نام کے لئے کام نہیں کیا تھا بلکہ ایسا کام کیا کہ آج تک ان کا نام جلتے سورج کی طرح نمایاں ودرخشاں ہے کون بیوقوف اشرفیہ کو نہیں جانتا اور کون حضور حافظ ملت کو نہیں جانتا اور جو نہیں جانتا تو سمجھ لو کہ وہ دنیا میں رہتا ہی نہیں اور یا تو پاگل ہے ،
آپ کا یہ مقولہ بہت ہی مشہور ہے کہ "زمین کے اوپر کام اور زمین کے نیچے آرام ،
حسب روایت سابق ہر سال حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کا عرس مبارک ہوتا ہے اور اسی موقع پر فارغین اشرفیہ کے سروں پر علم و ادب کا زریں تاج رکھا جاتا ہے ،
اور عرس عزیزی میں عوام الناس کے علاوہ ہزاروں علماء وفقہاء اور طلباء مدارس کا اژدہام ہوتا ہے اور لوگ فیضان عزیزی سے بہرہ اندوز ہوتے ہیں ،
اللہ تعالیٰ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے مرقد انور پر ہمہ دم رحمت و انوار کے بادل برسائے آمین ثم آمین
از خامہ محمد طاہرالقادری کلیم فیضی بستوی، سربراہ اعلیٰ مدرسہ انوار الاسلام قصبہ سکندر پور ضلع بستی یوپی