حضور حافظ ملت

حضور حافظ ملت اور خدمت دین

یوں تو اس روئے زمین پر بے شمار اور لاتعداد علمائے کرام تشریف لائے جنہوں نے اپنی بساط کے مطابق دین متین کی خدمت انجام دی لیکن انہیں شخصیات میں کچھ ایسی شخصیتوں نے بھی جنم لیا ، جن کے وجودِ مسعود پر خود علما کو ناز تھا، جن پر عوام اہل سنت کا اعتماد و وثوق تھا، جن کے علم کا لوہا معاصر علماء نے مانا ، جن کے تعمیری ، تنظیمی کارناموں کو اکابرین نے سراہا ، جن کے اخلاق وکردار اور حسن معاشرت نے اصاغرین کو لبھایا، اور ان کے نام کو رہتی دنیا تک زندگی مل گئی، انہیں نمایاں اور مقدس ترین لوگوں میں ایک ذات حضرت حافظ ملت علامہ عبد العزیز محدث مرادآبادی نور اللہ مرقدہ کی بھی ہے ، مرادآباد کے افق پر ایک ایسا سورج طلوع ہوا جس کی ضیاء بار کرنوں سے ایک جہاں منور ہوا ، آپ علما وعوام کے مابین اس چراغ کی مانند تھے جس کی روشنی سے پروانوں کو سکون ملتا تھا، آپ ستاروں کی جھرمٹ میں چودھویں کے چاند کے مثل تھے ، آپ کی کتاب حیات ہمہ گیر شہرت کی حامل ہے جس کا ہر باب پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے،

حضور صدر الشریعہ کے ایما پر حضور حافظ ملت مبارک پور تشریف لائے اس وقت مبارک پور آپ کے لئے اجنبی اور انجان شہر تھا ، آپ نے اس وقت صبر وتحمل سے کام لیا، استقامت اور ثبات قدمی کا مظاہرہ کیا ، آپ کے پاؤں میں ذرہ برابر لغزش نہ آئی، ایک چھوٹی اور معمولی سی جگہ جہاں سے آپ نے تعلیم وتعلم کا سلسلہ شروع ہوا، بتدریج ، رفتہ رفتہ اپنی ترقی کی منزلیں طے کرتے رہے پھر ایک دن ایسا بھی آیا جس دن مبارک پور کی سرزمین اپنے مقدر پر ناز کرنے لگی ، مبارک پور کی فضاؤں میں مسرت وشادمانی کے شادیانے بجنے لگے اور ایک ایسی فرحت بخش صبح نمودار ہوئی جس میں چند نامور اور معتمد شخصیات کے دست مبارک سے جامعہ اشرفیہ کا سنگ بنیاد عمل میں آیا، حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے اپنا ہاتھ اٹھا کر ایک رقت انگیز دعا فرمائی، دعا کرتے کرتے آپ رحمہ اللہ کی آنکھیں بند ہوگئیں اور اس قدر مستغرق ہوگئے کہ مجمع پر سکتے کا عالم طاری ہوگیا، ایسا لگ رہا تھا گویا جو دعائیں رب کے حضور مانگی گئی تھیں ، قبولیت سے سرفراز ہوگئی ہیں اور دنیا اس دعا کی تاثیر آج بھی محسوس کر رہی ہے کہ کیسے جامعہ اشرفیہ نہ صرف ہندوستان بلکہ عالمی سطح پر دن بدن مشہور و معروف ہوتا جا رہا ہے،

اللہ تعالی نے حضور حافظ ملت کو بہت سے اوصاف وکمالات سے نوازا تھا ، بیک وقت آپ کئی سارے علوم وفنون پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔ اصح الکتاب بعد کتاب اللہ یعنی بخاری شریف جسے اپنے تو اپنے غیر بھی تسلیم کرتے ہیں ، اس کتاب کو تبلیغی اسفار اور کثیر مصروفیات کے باوجود طلبہ کو ہر سال پڑھاتے اور دونوں جلدوں کا درس دیتے ، آپ ہر میدان میں خواہ تدریس کا ہو یا تقریر ، مناظرہ کا ہو یا تصنیف کا یکتائے روزگار نظر آتے تھے، حضور حافظ ملت علیہ الرحمۃ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی رضا کی خاطر خلوص وللہیت کے ساتھ جب تک باحیات رہے خدمتِ دین میں مصروف رہے، آپ ایک بہترین داعی دین ، اور قوم وملت کی خدمت کرنے کا درد و کرب رکھنے والے تھے ، ایک مرتبہ آپ کے چند مریدین آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، اور اپنے مدرسے کی خستہ حالی کی روداد سنائی اور عرض کی حضور مدرسہ کیسے چلے گا؟؟ تو آپ نے فرمایا:

"میاں مدرسہ اللہ وحدہ لاشریک چلاتا ہے، ہماری تمہاری کیا مجال، دیکھو گردن کٹا دینا مگر مدرسہ مت چھوڑنا ” یہ سن کر مریدین کی جان میں جان آئی ، لوٹ کرآئے، اور مدرسہ کو عروج پر پہنچانے اور مالی طور پر مستحکم اور مضبوط کرنے کے لئے سرگرداں ہوگئے،

حضور حافظ ملت ، طالبان علوم نبویہ کی ذہن سازی کرتے جو طلبہ خدمت دین کا جذبہ رکھتے تھے ان کی اسی طریقے سے تربیت کرتے اور نصیحت آموز باتیں بتایا کرتے جو سب کے لئے یکساں مفید ہوتی آپ کے سرشت میں خیر خواہی کا عنصر ہر وقت غالب رہتا تھا ، ہر موقع پر خیر خواہی کی تلقین کرتے تھے ، طلبہ سے ملاقات کرتے تو مفید نصیحتوں سے نوازتے ، خطوط کے جواب میں بھی خیر اندیشی فرماتے ، کسی کو کہیں خدمت دین کے لئے بھیجتے تو خلوص وللہیت کے ساتھ کام کرنے کی ترغیب دیا کرتے تھے ، اللہ نے آپ کے اندر اس قدر دین کی خدمت کرنے کا جذبہ پیدا فرمایا تھا کہ ہمہ وقت کب اور کیا کرنا ہے غور وخوض کرتے اور حکمت عملی سے کام لیتے تھے۔ حضور حافظ ملت کی دینی خدمات اگر دیکھنا چاہتے ہیں تو الجماعۃ الاشرفیہ کی فلک بوس عمارت کو ایک بار ضرور دیکھیں!

آج کے دور میں ہمیں چاہیے کہ ہم بھی حضور حافظ ملت کو اپنا آئیڈیل بنائیں ، ان کے طریقہء کار کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں، انھوں نے جس طرح قوم وملت کی خدمت کی، ہمیں بھی کرنی چاہیے، مخالفت کی پرواہ، مصیبتوں سے گھبرائے اور پریشانیوں سے جی چورائے بغیر اپنے کام کی رفتار بڑھانی چاہیے اور عرق ریزی کے ساتھ ہر طرح کے مصائب وآلام کو بالائے طاق رکھ کر خدمت دین میں مصروف ہوجانا چاہیے ، مخالفت ومخاصمت تو ہونی ہے اس پر کان نہیں دھرنا ہے، عہد رسالت کے حالات و واقعات کا مطالعہ کریں کہ کس قدر ہمارے آقا ومولی حضور احمد مجتبی محمد مصطفیﷺ پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے لیکن اس پر آپﷺ نے اف تک نہیں کیا بلکہ صبر کے عظیم پیکر بن کر دین کی اشاعت میں مصروف عمل رہے ، صحابہ کرام کو مختلف آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑا لیکن انھوں نے اپنے دین سے بغاوت نہیں کی، اسلام پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔ خود اپنی جان کو اسلام و مسلمین کے نام پر قربان کردیا لیکن اپنے دین پر کوئی حرف نہیں آنے دیا،

رب قدیر ہمیں بھی حضور ملت کی فکر کا سپاہی بنائے ، مسلک حقا پر گامزن رکھے اور ان کے علمی فیضان سے بہرور فرمائے!آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم

از: محمد ارشاد احمد امجدی نیپال
متعلم جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی یوپی

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے