محمد سلیم انصاری ادروی
ولادت: حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی علیہ الرحمه (بانی جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ، یو۔ پی۔، ہند) اپنے عہد کی ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھی۔ آپ کی ولادت قصبہ بھوج پور ضلع مرادآباد (اتر پردیش) میں سنہ ١٣١٢ھ/ سنہ ١٨٩۴ء میں ہوئی۔ آپ کے دادا جان مولانا عبد الرحیم بھوج پوری رحمه الله نے آپ کا نام شاہ عبد الرحیم محدث دہلوی رحمه الله کے پوتے علامہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمه الله کے نام پر رکھا اور یوں فرمایا کہ ان شاء الله میرا یہ بچہ بھی بڑا ہو کر بہت بڑا عالم بنے گا۔ آپ کے دادا کی یہ خواہش پوری ہوئی۔ اور علامہ عبد العزیز محدث مرادآبادی بر صغیر کے بلند پایہ محدث، مدرس، مفکر اور متبحر عالم بن کر عالم اسلام میں مشہور ہوئے۔
تحصیل علم: آپ نے ابتدائی تعلیم، ناظرہ قرآن پاک اور حفظ قرآن کی تکمیل اپنے والد ماجد حافظ غلام نور علیہ الرحمه سے کی۔ اس کے بعد اردو کی چار جماعتیں وطن عزیز بھوج پور میں پڑھیں، جب کہ فارسی کی ابتدائی کتب بھوج پور اور پیپل سانه (ضلع مرادآباد) سے پڑھ کر گھریلو مسائل کی وجہ سے سلسلۂ تعلیم موقوف کر دیا۔ اور پھر قصبہ بھوج پور میں ہی مدرسہ حفظ القرآن میں مدرس اور بڑی مسجد میں امامت کے فرائض انجام دینے لگے۔ کچھ عرصے بعد آپ نے مولانا
حکیم محمد شریف حیدر آبادی رحمه الله (تلمیذ علامہ عبد الحق خیرآبادی رحمه الله) سے علم طب کی تحصیل کی۔ اس کے بعد حکیم محمد شریف کے حکم پر آپ نے ٢٧ سال کی عمر میں سنہ ١٣٣٩ھ کو جامعہ نعیمیہ مرادآباد میں داخلہ لیا اور تحصیل علم میں مشغول ہو گئے۔ پھر سنہ ١٣۴٢ھ میں آپ امام النحو علامہ غلام جیلانی محدث میرٹھی رحمه الله کے ساتھ جامعہ معینیہ اجمیر شریف تشریف لے گئے، وہیں پر آپ نے صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمه الله اور جامعہ معینیہ کے دیگر اساتذہ سے "حمد الله” تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد آپ صدر الشریعہ کے ہمراہ دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف تشریف لائے اور سنہ ١٩٣٢ء میں دورۂ حدیث مکمل کرکے سند فراغت و دستار فضیلت حاصل کی۔
بیعت و خلافت: جب آپ اجمیر شریف میں زیر تعلیم تھے تو اسی دوران سلسلۂ قادریہ معمریہ میں شیخ المشائخ سید علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی رحمه الله سے بیعت ہوئے۔ جب آپ اپنے پیر و مرشد کی سرپرستی میں چلنے والے ادارے میں صدر المدرسین کی حیثیت سے تشریف لائے تو آپ کو شیخ المشائخ نے اجازت و خلافت عطا فرمائی۔ دوسری خلافت آپ کو اپنے استاذ محترم حضرت صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی قادری رضوی علیہ الرحمه سے حاصل تھی۔
درس و تدریس: فارغ التحصیل ہونے کے بعد آپ حضرت صدر الشریعہ کے حکم پر ٢٩ شوال المکرم سنہ ١٣۵٢ھ/ ١۴ جنوری سنہ ١٩٣۴ء کو مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم مبارک پور تشریف لائے اور درس و تدریس میں مشغول ہو گئے، آپ کے درس و تدریس کی شہرت دور دور تک پھیل گئی اور طلباء کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے مدرسہ اشرفیہ میں جگہ کم پڑنے لگی، تو گولا بازار مبارک پور میں سنہ ١٣۵٣ھ میں ایک عظیم دارالعلوم قائم کیا گیا، جس کا نام مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمه الله کی نسبت سے "دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم” رکھا گیا۔ بعض وجوہات کی وجہ سے آپ دارالعلوم اشرفیہ سے مستعفی ہو کر جامعہ عربیہ ناگ پور چلے گئے۔ مگر صدر الشریعہ کے حکم پر سنہ ١٣٦٢ھ میں آپ دوبارہ مبارک پور واپس آئے اور تاحیات پورے اخلاص و للہیت کے ساتھ یہیں پر درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔
الجامعة الاشرفیہ مبارک پور کا قیام: حافظ ملت کی کوششوں سے سنہ ١٣٩٢ھ/ سنہ ١٩٧٢ء میں الجامعة الاشرفیہ مبارک پور کا قیام عمل میں آیا۔ شیخ المشائخ حضور اشرفی میاں، حضور مفتی اعظم ہند، حضور سید العلماء مارہروی اور حضور حافظ ملت و دیگر اکابرین علما و مشائخین اہل سنت علیہم الرحمه نے اس کی بنیاد اپنے دست مبارک سے رکھی۔ حافظ ملت اسی جامعہ میں تاحیات شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے۔ یہ جامعہ ہندوستان میں اہل سنت و جماعت کا مرکزی ادارہ ہے، جامعہ اشرفیہ کے فارغین "مصباحی” کہلاتے ہیں۔ جو ملک و بیرون ملک میں اشاعت دین و شریعت کا کام بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔
خدمت علم حدیث: آپ تبلیغی پروگرامات اور مصروفیات کثیره کے باوجود بخاری شریف کی دونوں جلدیں سبقا سبقا ختم کراتے، کسی مقام پر یہ نہیں فرماتے یہ حدیث گزر گئی، جتنا بھی پڑھاتے عبارت خوانی کراکے پڑھاتے، حدیث شریف کے تکرار کی وجہ بیان فرما کر باب سے حدیث شریف کی مطابقت، پھر اس حدیث پاک سے مستخرجہ مسئلہ کا بیان، مذہب حنفیت کی روایت و درایت کی روشنی میں ترجیح بیان فرما کر حدیث شریف کا ترجمه روایت کے ترجمه کے ساتھ کراتے۔ انہیں اوصاف کے ساتھ بخاری شریف کی دونوں جلدیں ختم ہوتیں۔ درس حدیث کے علاوہ آپ نے ١۴۴ صفحات پر مشتمل احادیث کریمہ کا اردو ترجمه اور اس کی عالمانہ تشریحات کا مجموعہ "معارف حدیث” کے نام سے قلم بند فرمایا۔
تلامذہ: ملک و بیرون ملک میں آپ کے تلامذہ کی تعداد تقریبا پانچ ہزار سے زائد ہوگی۔ آپ کے شاگردوں میں ایسے ایسے نامور و با صلاحیت علماء شامل ہیں جن پر جماعت اہل سنت کو فخر ہے۔ ان میں سے چند معروف تلامذہ کے نام درج ذیل ہیں:
● شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی اعظمی، ● قائد اہل سنت علامہ ارشد القادری بلیاوی، ● بحر العلوم علامہ مفتی عبد المنان اعظمی، ● علامہ مفتی ظفر علی نعمانی بانی دارالعلوم امجدیہ کراچی، ● شیخ الحدیث علامہ عبد الرؤف بلیاوی، ● مفتی مجیب الاسلام نسیم اعظمی ادروی، ● قاری مصلح الدین صدیقی، ● محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری اعظمی، ● شیخ القرآن علامہ عبد الله خان عزیزی، ● خطیب البراہین علامہ صوفی نظام الدین بستوی، ● علامہ سید حامد اشرف اشرفی مصباحی، ● علامہ مفتی بدر الدین احمد گورکھپوری، ● صدر العلماء علامہ محمد احمد مصباحی، ● علامہ بدر القادری، ● علامہ یٰسین اختر مصباحی، ● علامہ عبد المبین نعمانی، ● مفکر اسلام علامہ قمر الزماں اعظمی۔
تصانیف: آپ نے تدریسی، تبلیغی اور تعمیری مصروفیات کے باوجود کئی ایک کتابیں قلم بند فرمائیں۔ جن کے نام درج ذیل ہیں:
● معارف حدیث (احادیث کریمہ کا ترجمه اور اس کی عالمانہ تشریحات کا مجموعہ)، ● حاشیہ شرح مرقات، ● فتاویٰ جامعہ اشرفیہ (دارالعلوم اشرفیہ سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات کا مجموعہ)، ● ارشاد القرآن، ● الارشاد (ہند کی سیاست پر ایک مستقل رسالہ)، ● المصباح الجدید (بد مذہبوں کے عقائد سے متعلق ٣٠ سوالوں کے جوابات کا مجموعہ)، ● العذاب الشدید، ● انباء الغیب (علم غیب کے عنوان پر ایک اچھوتا رسالہ)، ● فرقۂ ناجيه۔
وصال: یکم جمادی الاخریٰ سنہ ١٣٩٦ھ/ ٣١ مئی سنہ ١٩٧٦ء میں جلالة العلم حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی ثم مبارک پوری علیہ الرحمه کا رات ١١ بج کر ۵۵ منٹ پر وصال
ہوا۔ آپ کی تدفین جامعہ اشرفیہ میں عزیز المساجد کے دائیں طرف قدیم دار الاقامہ کے مغربی جانب ہوئی۔
مآخذ و مراجع:
فیضان حافظ ملت/ ص: ١-٢٩ ، ماہنامہ اشرفیہ/ ص: ٣-۴ / مارچ سنہ ٢٠١٨ء ، ماہنامہ اشرفیہ/ ص: ٢٣-٢۴
، معارف حافظ ملت/ ص: ۴۵-۴٦۔