الحمد للہ میں نے یہ اشعار اپنے مادر علمی ، الجامعة الاشرفيہ مبارکپور اعظم گڑھ میں روضۂ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے پاس بیٹھ کر لکھے ہیں۔
نتیجۂ فکر: سلمان رضا فریدی مصباحی، مسقط عمان
تذکرہ کیسے کروں میں تری دانائ کا
میری حد میں نہیں رتبہ تری بالائ کا
یاد آتی ہے نظر ، حافظ ملت ! تیری
ذکر آجاتا ہے جب علم کی بینائ کا
نہ تکلف ، نہ بناوٹ ، نہ دکھاوا ، نہ غرور
فلسفہ سب سے جدا ہے تری رعنائ کا
تیرا دیدار ، مری کشتِ نظر کو سینچے
لہلہا اٹّھے چمن ، قلبِ تمنائ کا
تیری دہلیز سے ملتا ہںے جبینوں کو وقار
ہے اثر خاک میں بھی تیری مسیحائ کا
لوگ اب دیکھتے ہیں قدر کی آنکھوں سے مجھے
سارا اعزاز ہے یہ تجھ سے شناسائ کا
جب ترے قطروں کی وسعت پہ ہے عالَم حیراں
کیسے اندازہ لگے پھر، تری گہرائ کا
رات دِن رہتے ہیں قرآن کے نغمے آباد
ہے عجب رنگ ترے در کی پذیرائ کا
اِس گلستاں کی بہاریں ہیں خزاں سے آزاد
اشرفیّہ میں ہے جلوہ تری زیبائ کا
جِس کے کانوں میں سمائ ہو تری بزم کی گونج
پھر وہ شیدا ہو بھلاکیوں کسی شہنائ کا
سچ کے عرفاں سے ہیں محروم ، مخالف تیرے
اُن کا یہ شُغل ہے دارین کی رُسوائ کا
دن بدن بڑھتاہی جائے گا ، ترے ذکر کا نور
تا ابد گونجے گا نغمہ ، تری دارائ کا
کیا ڈرائے گی بھلا ظُلمتِ باطِل مجھ کو
تیرا فیضان ہںے سورج، مری انگنائ کا
شعر ہوں رنگِ عقیدت میں فریدی ! کامِل
مجھ کو آ جاۓ ہنر ، قافیہ پیمائ کا