تحریر: خلیل احمد فیضانی، جودھ پور راجستھان
عربی کا ایک مشہور محاورہ ہے ,, الملک یدوم بالکفر ولا یدوم بالظلم ,, اس کا مناسب ترجمہ یہ ہے کہ ظلم کے سوا کویٔی چیز ملک کو تباہ نہیں کر سکتی یعنی ظلم ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے سلطنتیں تباہی کے دہانے پر چلی جاتی ہیں ملک ویران ہوجاتے ہیں انسانی نسلوں کا نام صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے اس محاورے کی افہام و تفہیم کے لیے اگر آپ ہندوستان کے موجودہ حالات کا تحقیقی جائزہ لیں تو نتیجہ بصورت منظر آپ کے سامنے ہوگا کہ ظلم سے ملک اور نسلیں کیسے برباد ہوتی ہیں
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور کسی بھی ملک کے جمہوری ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ,, فریڈم آف رلیجن کا رائٹ,, ہر ایک کو حاصل ہوتا ہے اور اسی طرح ہر ایک کو اپنی بات رکھنے, حکومت سے مطالبات کرنے, اور ان کی عدم توجہی یا ظلم و جبر کی صورت میں احتجاج کرنے کا حق بھی حاصل ہوتا ہے لیکن ہم اگر موجودہ حالات کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر حق دار کو اپنے اپنے حق کا حصول تو کجا اپنی اور اپنی اولاد کی جان کی حفاظت بھی ایک دشوار امر ہوگیا ہے اگر ان سب خرافات و ہفوات کا کوءی ذمہ دار ہے تو وہ ہے موجودہ مرکزی حکومت یعنی بی جے پی _ اس لیے کہ آج ملک کی اکانامی ڈاؤن ہوتی جارہی ہے ملک پر قرض کی مقدار میں اضافہ ہورہا ہے لوگ فاقہ کشی کی وجہ سے خودکشیاں کر رہے ہیں کورونا سے متاثر افراد وقت پر دوا نہ ملنے کی وجہ سے زندگی کی آخری سانسیں گن رہے ہیں ایسے ہنگامی اور پر آشوب حالات میں بی جے پی تین ایسے زرعی قوانین لأی کہ جو ملک کے کسانوں کے لیے موت کا فرمان ہے حالاں کہ اس نازک وقت میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مرکزی حکومت کسانوں کے قرضوں کو معاف کردیتی غربت سے پریشان لوگوں کے لیےدو وقت کا کھانا فراہم کراتی وائرس سے متاثر اشخاص کا صحیح ڈھنگ سے علاج معالجہ کراتی لیکن بغیر محل کے تین ایسے قوانین لے کر آگٔی جو ملک کے کسانوں کے لیے نہایت ہی مضر اور آیندہ نسلوں کے لیے بے حد خطرناک ہیں
آج کسان تین مہینے سے دار الحکومت کے بارڈر پر سراپا احتجاج بنے ان تین زرعی قوانین کے منسوخ کرانے کی خاطر کھڑے ہیں ۵۰کے قریب کسان جان گنوا چکے ہیں بہت سارے خود کشی کی ٹھان لیے اور بعض خود کشی کر بھی لیے لیکن حکومت کی بے رخی اور ہٹ دھرمی دیکھیے کہ ان پر کسی قسم کا کوءی اثر نہیں پڑ رہا ہے کسان مرے یا زندہ رہے حکومت کو اس کی کوءی پروا نہیں حکومت کو تو صرف مٹھی بھر سرمایہ داروں کا منافع ہی مقصود ہے جو پورا ہورہا ہے لیکن تعجب بالاے تعجب تو یہ کہ جو کسان اپنا خون پسینہ ایک کرکے ہمارے لیے اور ہماری اولاد کے لیے راشن پانی کا انتظام کرتاہے اس کے حوصلوں کو بڑھانے یا اس کا شکریہ بجا لانے کے بجاے الٹا انہیں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنالیا گیا اخباری نیوز کے مطابق ان احتجاج کرنے والے کسانوں پر آنسو گیس کے گولے داغے گئے فون پر قتل کی دھمکیاں دی گٔیں یہ حالات اس حکومت کے دور میں ہے جو حکومت اپنے آپ کو امن و شانتی کا سنگم مانتی ہے اور حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار مانتی ہے تو آج اگر اس ظلم و جبر کا اسی انداز میں مقابلہ کرنا ہے تو تعلیمی اور سیاسی میدان میں ہمیں آگے آنا پڑے گا اور جلدی اس ظلم کا ہاتھ بازو سے پکڑنا پڑے گاورنہ زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا جیسا کہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے کہ ,,ظلم کے خلاف جلدی اٹھو جتنی تاخیر کروگے تو اتنی ہی زیادہ قربانی دینی پڑے گی