زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے حکمت، بصیرت، اور تجربہ بنیادی عناصر ہیں۔ بزرگوں کے اقوال ہمارے لیے راہنمائی کے چراغ کی حیثیت رکھتے ہیں جو زندگی کے ہر موڑ پر روشنی فراہم کرتے ہیں۔ ان کے کلمات صداقت اور حکمت سے بھرپور ہوتے ہیں اور اخلاقی تربیت کا گہرا درس دیتے ہیں۔ حافظِ ملت، جلالة العلم، استاذ العلماء، علامہ شاہ حافظ عبدالعزیز محدث مرادآبادی ثم مبارکپوری علیہ الرحمہ کے ارشادات، ان کی تعلیمات اور رہنمائی زندگی کے ہر پہلو کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
یہ اقوال فرد کی اصلاح، محنت کی اہمیت، وقت کی قدر، اور دین و دنیا کی ہم آہنگی کو اجاگر کرتے ہیں۔ حافظ ملت کے یہ ارشادات دین اور دنیا دونوں میں کامیابی کا راز سکھاتے ہیں۔
محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
"محبتِ رسول ہی محبتِ خدا ہے۔”
یہ ارشاد ایمان کی بنیاد کو واضح کرتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتی ہے اور دنیا و آخرت میں کامیابی کی ضمانت بن جاتی ہے۔ اس قول میں عشقِ رسول کی اہمیت کو نمایاں کیا گیا ہے۔
تعلیم و تربیت کی اہمیت:
"بلاشبہ ایسی تعلیم جس میں تربیت نہ ہو آزادی و خودسری ہی کی فضا ہو، بے سود ہی نہیں بلکہ نتیجتاً مضر ہے۔”
یہ ارشاد اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ تعلیم کا حقیقی مقصد صرف علم حاصل کرنا نہیں بلکہ اخلاقی و روحانی تربیت بھی ہے۔ تعلیم کے ساتھ تربیت کی کمی انسان کو گمراہی اور نقصان کی طرف لے جا سکتی ہے۔
محنت و عمل کا پیغام:
"آدمی کام کے لیے پیدا کیا گیا ہے، جو شخص بیکار ہے وہ مردوں سے بدتر ہے۔”
حافظ ملت کے نزدیک انسان کی عزت اور کامیابی محنت اور عمل پر منحصر ہے۔ بیکار زندگی گزارنا انسانیت کے خلاف ہے۔ یہ ارشاد ہمیں محنت اور جستجو کا درس دیتا ہے۔
وقت کی اہمیت:
"وقت کی بربادی سب سے بڑی محرومی ہے۔”
یہ قول وقت کی قدر و قیمت کو نمایاں کرتا ہے۔ وقت دنیا کی سب سے قیمتی دولت ہے، اور اس کا ضیاع دینی و دنیاوی دونوں لحاظ سے نقصان دہ ہے۔
صبر اور استقامت:
"میں نے کبھی مخالف کو اس کی مخالفت کا جواب نہیں دیا بلکہ اپنے کام کی رفتار کو اور تیز کر دیا۔”
یہ قول ہمیں صبر، تحمل، اور مستقل مزاجی کا درس دیتا ہے۔ حافظ ملت کی زندگی سے یہ سبق ملتا ہے کہ کامیابی کا راز اپنے مقصد پر توجہ مرکوز رکھنے میں ہے، نہ کہ بے جا بحث و تکرار میں۔
روحانیت اور جسمانیت کا توازن:
"جسم کی قوت کے لیے ورزش اور روح کی قوت کے لیے تہجد ضروری ہے۔”
یہ ارشاد جسمانی صحت اور روحانی سکون کے درمیان توازن قائم کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ ایک صحت مند اور متوازن زندگی کے لیے یہ بنیادی اصول ہے
اتحاد و اتفاق:
"اتفاق زندگی ہے اور اختلاف موت۔”
معاشرتی ترقی اور کامیابی کے لیے اتحاد ضروری ہے۔ اختلافات اور انتشار قوموں کی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ یہ قول ہمیں اجتماعی طور پر متحد ہو کر ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کی دعوت دیتا ہے۔
زندگی کا مقصد:
"زندگی وہ ہے جو دوسروں کے کام آئے۔”
انسان کی حقیقی کامیابی دوسروں کے لیے فائدہ مند بننے میں ہے۔ خدمتِ خلق اسلام کی روح ہے، اور یہی زندگی کا اصل مقصد ہونا چاہیے۔
مساوات کا اسلامی تصور:
"حقیقی مساوات صرف اسلام کا طرہ امتیاز ہے۔”
یہ ارشاد اسلام کی جامعیت اور مساوات پر مبنی تعلیمات کی نشاندہی کرتا ہے، جو ہر قسم کی تفریق کو ختم کرتی ہیں اور عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کی تعمیر کرتی ہیں۔
عصرِ حاضر کے لیے رہنمائی:
حافظ ملت کے اقوال عصرِ حاضر کے چیلنجز کا بھی حل فراہم کرتے ہیں:
- "کام کرو، نام کی پروا نہ کرو، نام تو ہو ہی جائے گا۔”
یہ قول ہمیں اخلاص کے ساتھ محنت کرنے کا درس دیتا ہے۔ شہرت کے بجائے کام پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ - "مصیبتوں سے گھبرا کر کام چھوڑ دینا بزدلی ہے۔”
مشکلات کا سامنا صبر و استقامت کے ساتھ کرنا ہی کامیابی کا راستہ ہے۔ - "لمبی چوڑی عمارتیں ہوں، تعلیم نہ ہو تو سب بے کار ہے۔”
تعلیم کے بغیر ترقی ناممکن ہے۔ یہ ارشاد قوموں کے حقیقی معیارِ ترقی کی وضاحت کرتا ہے۔
حاصلِ کلام:
حافظ ملت کے اقوال اور ارشادات زندگی کے ہر پہلو کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ان میں دینی و دنیاوی کامیابی کا راز چھپا ہے۔ اگر ان اصولوں پر عمل کیا جائے تو نہ صرف ایک کامیاب اور متوازن زندگی گزاری جا سکتی ہے بلکہ ایک بہتر اور ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ عصرِ حاضر میں ان ارشادات کو عام کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔
ازقلم: محمد شمیم احمد نوری مصباحی
خادم:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)