تبصرہ: وزیر احمد مصباحی [بانکا]
شعبہ تحقیق: جامعہ اشرفیہ مبارک پور
حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی رحمۃاللہ علیہ اس عظیم ہستی کا نام ہے جو ماضی قریب میں یقیں محکم و عمل پیہم کے ساتھ مذہب و ملت کی خدمت کا جذبئہ بیکراں لے کر اٹھے اور پورے عالم پر چھا گئے ۔آپ کی ولادت بروز دو شنبہ مبارکہ ۱۳۱۳ھ/۱۸۹۴ءکو مرادآباد کی ایک گمنام بستی "بھوجپور”میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم گاؤں ہی کے ایک اسکول میں پائی ،متوسطات جامعہ نعیمیہ مرادآباد میں حاصل کرنے کے بعد اعلی تعلیم کی حصول کے لئے اپنے چند رفقا کے ساتھ اپنے وقت کے صدر شریعت حضرت علامہ شاہ امجد علی اعظمی رحمۃاللہ علیہ کے حلقئہ درس میں شامل ہو گئے ۔
تاریخ اشرفیہ بتاتی ہے کہ علم و حکمت اور فضل و شرف کی اس متلاشی روح نے بارگاہ صدرالشریعہ سے خوب خوب اکتساب فیض کیا ۔مرشد طریقت کے بحر علم و عرفاں میں غوطہ زنی کر کے خوب خوب سیرابی حاصل کی حتی کہ وہ اپنے اخلاق و کردار کی بدولت استاذ محترم کی نگاہ میں اتنے محبوب و مکرم ہو گئے کہ خود استاذ محترم نے آپ کو بریلی شریف بلوا لیا اور فرمایا:”میں ہمیشہ اپنے علاقے سے دور رہا ۔بدمذہبیت اور گمراہیت نے پورے ضلع پر قبضہ جما لیا ہے ،اس لئے میں آپ کو مبارک پور بھیج رہا ہوں "۔
محترم قارئین!حضور صدرالشریعہ کے اس سوال کے جواب میں حافظ ملت علیہ الرحمۃ نے جو جملہ ارشاد فرمایا یقینا وہ لائق تقلید و عمل ہے ،اگر وہ ایک طرف آپ کے اندر چھپی ہوئی خدمت دین متین کی سچی تڑپ کو اجاگر کرتا ہے تو وہیں دوسری طرف اخلاص و للٰہیت کا حسین مرقع معلوم ہوتا ہے۔حضور حافظ ملت علیہ الرحمۃ نے ارشاد فرمایا میں ملازمت اختیار کرنا نہیں چاہتا۔اس پر استاذ محترم نے ارشاد فرمایا :”میں نے تجھے ملازمت اختیار کرنے کے لئے کب کہا ،میں تو صرف خدمت دین کےلئے تجھے مبارک پور بھیج رہا ہوں "۔اب کیا تھا حضور حافظ ملت اپنے استاذ محترم کی اس ایماں پر ۲۹،شوال المکرم ۱۳۵۲ھ کو مبارک پور تشریف لے آئے اور تدریسی خدمات میں مصروف ہو گئے ۔
کہتے ہیں کہ خالق کائنات جب اپنے کسی بندے کو خدمت دین جیسے لازوال دولت سے سرفراز اور مالا مال کرنا چاہتا ہے تو پہلے اسے وہ بے شمار صبر آزماں کن مراحل سے گزارتا ہے ۔بندہ گردش ایام کے تھپیڑوں سے رو گردانی کرنے کے بجائے اس کے چیلنجوں کا جواب دیتاہے ،پہلےاسے مصیبتوں و پریشانیوں کی بھٹیوں میں جلنا پڑتا ہے تب کہیں جا کے وہ کندن بن کر فتح و کامرانی حاصل کرتا ہے اور رب کی بارگاہ میں سرخرو ہو کر دارین کی نعمتوں سے مالا مال ہو جاتا ہے ۔
بلکل یہی صورت حال حضور حافظ ملت کے ساتھ بھی پیش آیا ۔تاریخ بتاتی ہے کہ آپ مبارک پور کی سرزمین پر اطمینان و سکون کے ساتھ چند ماہ ہی تعلیم دینے پائے تھے کہ آپ کی پوری زندگی اضطراب و بے چینی کے بھنور میں ڈوب گئی،اور اضطراب بھی ایسا کہ جس کی ہر ایک جست عالم اسفل کے خاک زادوں کو بام عرش تک پہونچا دینے میں بڑی اہمیت کے حامل ہو ۔دین حق کی نشرو اشاعت میں آپ کو بے شمار پر خطر شاہراہوں سےگزرنا پڑا ۔کبھی غیروں سے نبرد آزمائی کرنی پڑی تو کبھی خانگی مسائل سے دوچار ہونا پڑا ،کامیابی کی راہ میں کبھی ملکی حالات آڑے آئیں تو کبھی جماعتی سرگرمیوں سے نپٹنا پڑا۔
لیکن آندھیوں کے ان مذکورہ زدوں پر بھی حافظ ملت مسکراتے ہوئے آگے کی جانب بڑھتے ہی گئے اور قوم کو ایک پیغام عظیم دے گئے کہ "ہرمخالفت کا جواب کام ہے”۔اس چھوٹے سے مدرسے کو جہاں معیار تعلیم فارسی،نحومیر،پنج گنج تک تھا تھوڑے ہی عرصے میں دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم کی شکل میں تبدیل کر دیا ۔جب آپ کے علم و حکمت کا فیضان آسمان کے بادل کی طرح جھوم کر برسا تو بحر ہند کے ساحل سے لے کر کشمیر کے کہساروں تک بلکہ ملک و بیرون ملک کے تشنگان شوق کے کافلے اپنے علم و فکر کی پیاس بجھانے کے لئے مبارک پور کی دھرتی پر اتر پڑے ۔
آپ کو جامعہ اشرفیہ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھا ۔آپ فرمایا کرتے تھے :”اس کو پھلنا پھولنا ہے ۔اس کی پستی میں کسی طرح برداشت نہیں کر سکتا ۔اس کے لئے عبدالعزیز اپنی جان گنوا سکتا ہے لیکن اس کی پستی کو دیکھ نہیں سکتا "۔اور ایک موقع پر آپ نے فرمایا :”اشرفیہ کو میں نے اپنے پسینے سے نہیں ،اپنے خون سے سینچا ہے "۔
میر کارواں نے سوکھی ہوئی شاخوں پہ لہو چھڑکا تھا
پھول اب بھی نہ کھلتے تو قیامت ہوتی
محترم قارئین! شاید اشرفیہ تئیں حافظ ملت کی یہی سچی تڑپ، خلوص، جذبہ، امنگ و حوصلہ اور عشق صادق کا نتیجہ ہے کہ آج اشرفیہ اہل سنت کے لیے کسی سرمائہ عزت و افتخار سے کم نہیں ہے. آپ نے جیتے جی اپنے خون جگر سے اس کی آبیاری اس نہج پر کر دی تھی کہ آج یہ اپنے ہزارہا مخالفتوں کے باوجود بھی ہر آن روشن مستقبل کی طرف بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے. اس شہرستان علم و فن کے عروج و ارتقا میں اگر اپنے وقت کے بڑے جید اور مبارک نفوس کی نیک تمنائیں و خلوص دعائیں شامل ہیں تو وہیں اہل مبارکپور کی فیاضیاں اور دریا دلی بھی خوب خوب جھلکتی ہے۔
سن ۱۹۷۹ء/ کے قریب جب دارالعلوم کی عمارتیں طلبہ کی کثرت ہجوم کے سبب اپنی تنگئی داماں کا شکوہ کرنے لگیں تو آپ کو ایک ایسی عظیم دانشگاہ کے قیام کی فکر دامن گیر ہوئی جو عالم اسلام میں اپنی شناخت رکھے اور جہاں سے ہمیشہ علماے حق کی بارآور نسلیں پیدا ہوتی رہیں ۔اور خدا کے فضل سے ایک دن ایسی فرخندہ فال شام بھی آئی جس کے دامن میں آپ کی یہ نیک خواہش پائے تکمیل کو پہنچی ۔آپ نے قصبہ مبارک پور سے باہر ایک وسیع خطہ زمین شہرستان علم و ادب بسانے کے لئے حاصل کی اور مئی ۱۹۷۲ء میں "الجامعۃ الاشرفیہ ” کا جشن تاسیس منایا گیا ،جو اشرفیہ کی تاریخ میں تاریخ ساز "تعلیمی کانفرنس "کے نام سے مشہور ہے۔
اشرفیہ کی یہ خوبصورت تاریخ کون بھلا سکتا ہے کہ باشندگان مبارک پور نے اس کی تعمیر و تشکیل میں زبردست کردار ادا کیا ہے۔ ان دنوں یہاں مصباح العلوم کی تنگی داماں کے سبب مبارکپور قصبہ سے چند میل باہر "الجامعۃ الاشرفیہ” کی صورت میں ایک وسیع و عریض زمین پر شہرستان علم و نور بسانے کے لیے چندہ کرنے کا انداز ہی کیا خوب نرالا تھا؟ رکشے پر ایک مائک اور ساؤنڈ باکس ہوتا، پیچھے مبارک پور کے سادہ دل عوام، بچے، بوڑھے اور نوجوان ہر عمر کے لوگ ہوتے اور حافظ ملت ان سب میں نمایاں اور آگے آگے چلتے، نعت و منقبت کے خوبصورت اشعار گنگنائے جاتے اور ہاں! وہ کلام بھی پڑھا جاتا جو دلوں کو "تَعاوَنوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقوىٰ ۖ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدوانِ” پر ابھار دے، اور پھر مبارک پور کی تنگ اور چھوٹی چھوٹی گلیوں سے ہو کر یہ خوبصورت قافلہ اہل ثروت کے دولت کدے پر پہنچتا، جامعہ اشرفیہ کی تعمیر و ترقی کے لئے بڑے خوبصورت پیرائے میں دست سوال دراز کیا جاتا، اہل خانہ اگر کسی کام میں مصروف ہوتے تو وہ اپنا سارا کام کاج کچھ دیر کے لیے موقوف کر دیا کرتے چاہے وہ لوم چلانے ہی میں کیوں نہ مصروف ہوں، پھر تو میر قافلہ سے بعد علیک سلیک چندہ دینے کا لمحہ بھی بڑا ہی دیدنی اور روح پرور ہوا کرتا تھا۔ اہل مبارک پور خوشی خوشی بڑی خطیر خطیر رقمیں چندے میں دے دیا کرتے تھے، حتی کہ مستورات اور بوڑھی مائیں بھی اپنے گہنے، زیورات، بالیاں اور اپنے ذاتی ضروریات سے بچت کردہ روپے پیسے بھی چندے میں دیا کرتیں، اور اس پر بھی وہ عورتیں جس کے پاس یہ ساری چیزیں نہیں ہوتیں وہ اپنے گھر کا کوئی قیمتی سامان اگرچہ وہ انڈا ہی کیوں نہ ہو… بطور معاونت پیش کر کے اپنی قسمت یابی پر فخر اور اس طرح شاداں و فرحاں ہو جاتیں کہ مانو جیسے انھیں اسی وقت بہت بڑی پونجی ہاتھ لگ گئی ہو… واقعی یہ کتنا خوبصورت منظر ہوگا نا کہ جب اپنے وقت کا ایک درویش اور اللہ کا ولی قوم مسلم کی علمی و فکری تشنگی بجھانے کے خاطر ایک میکدہ کی تشکیل میں ان کے درمیان دھیرے دھیرے اپنے قدم میمنت لزوم سے مبارکپور کی گلیوں میں چلتے ہوں گے، جو بھی ملتے ہوں گے شامل قافلہ ہو جاتے ہوں گے اور مبارکپور کے صبح و مسا اس دلفریب مناظر کو حسرت و امید بھری نگاہوں سے دیکھتا ہو گا کہ اے کاش میرے دامن میں بھی کوئی اس طرح سمٹ آتا اور مجھے اپنا میر کارواں تسلیم کر لیتا__
ہاں دکھا دے، اے تصور! پھر وہ صبح و شام تو
لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
حضور حافظ ملت کو جامعہ اشرفیہ سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا. آپ اشرفیہ کے لیے ہر لمحہ فکر مند رہتے، اس کی تعمیر و ترقی کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے. پابند صوم و صلوۃ کے ساتھ ساتھ جلسہ و جلوس میں بھی شرکت فرماتے اور پھر کبھی ضرورت پڑتی تو پیدل اور کبھی سائیکل پر سوار ہو کر چندہ کے لیے بھی گاؤں و دیہات کا دورہ کرتے۔
اس پریشان حال امت مسلمہ کے لئے ہر لمحہ آپ کا دل دھڑکتا رہتا تھا. اپنے ہر فعل میں اس کی فلاح و بہبود کے لیے سوچتے. مجھے تو لگتا ہے کہ آپ کی یہی درد دل اور سوز دروں کا نتیجہ ہے کہ چمنستان عزیزی میں علمی پیاس بجھانے والے تقریباً ہرفرزندانِ اشرفیہ کے دل میں دور طالب علمی ہی سے قوم کے تئیں کچھ کر گزرنے کا جذبہ موجزن ہونے لگتا ہے.آپ کو جامعہ اشرفیہ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھا ۔آپ فرمایا کرتے تھے :”اس کو پھلنا پھولنا ہے ۔اس کی پستی میں کسی طرح برداشت نہیں کر سکتا ۔اس کے لئے عبدالعزیز اپنی جان گنوا سکتا ہے لیکن اس کی پستی کو دیکھ نہیں سکتا "۔اور ایک موقع پر آپ نے فرمایا :”اشرفیہ کو میں نے اپنے پسینے سے نہیں ،اپنے خون سے سینچا ہے "۔
اشرفیہ سے آپ کا عشق اور اس کی محبت کے ثبوت میں اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے کہ آپ بعد وفات بھی اشرفیہ کی زمین ہی میں قیامت تک کے لیے مدفون ہو گیے. یقیناََ آج بھی آپ کی نگاہیں اشرفیہ کے در و دیوار کو دیکھ رہی ہیں اور آپ اس کی اور اس کے فرزندوں کی روحانی طور پر مدد فرما رہے ہیں۔
آپ کی یہ دلی خواہش تھی کہ جامعہ اشرفیہ کے فارغین ہر زبان میں ماہر ہوں ،صاحب قلم و لسان ہوں تا کہ وہ کما حقہ خدمت دین کا فریضہ انجام دے سکیں ۔شاید یہی وہ واحد وجہ ہے جس کی بنا پر آج کے اس پرفتن دور میں بھی دنیا کے مختلف خطوں میں توحید و رسالت کے جھنڈے لہرا رہے ہیں ۔آج برطانیہ کے شہروں میں جو قرآن مقدس کا لاہوتی نغمہ گونجتا ہے ،ہالینڈ کی فضاؤں میں جو کتاب و سنت کی صدائیں سنائی دیتی ہیں اور امریکہ کی سرحدوں سے لے کر افریقہ کے صحراؤں تک جو عشق نبوت کے جلوؤں کی تابانی نظر آتی ہے ان تمام میں حافظ ملت کے روحانی فرزندوں کی مساعی جمیلہ شامل ہے ۔حافظ ملت کی یہی وہ خدمات ہیں جن کی بنا پر آج بھی اشرفیہ کے بام و در سے یہ صدائیں آتی رہتی ہیں کہ
جس نے پیدا کئے کتنے لعل و گہر
حافظ دین و ملت پے لاکھوں سلام