حضور حافظ ملت گوشہ خواتین

حضورحافظ ملت اوروقت کی اہمیت

ازقلم:ارم فاطمہ امجدی
بنت علامہ صوفی غلام جیلانی قادری
، خانقاہ قادریہ راہ سلوک، سیتامڑھی(بہار)

خاک ہندپہ جلوس فرماکرعلوم ومعارف کی روشنی سےپورےعالم کوجگمگانےاور منور کرنےوالی کثیرعلماوفضلا کی جماعت تشریف لائیں اور ہرایک نےاپنےعلوم وفنون سےویران دنیاکوعلم وعمل کی روشنی سےآبادکیاجن میں سےماضی قریب میں آنےوالی ایک عظیم ہستی، عبقری ذات اور عالم گیرشخصیت جلالۃ العلم، حافظ ملت، ابوالفیض حضرت علامہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی ثم مبارک پوری علیہ الرحمۃ والرضوان کی بھی ہےجنہوں نےاپنے علم وفن اور تقویٰ وطہارت سےعالم اسلام کو منور و روشن کیاجن کی چمک سےآج بھی علمی، عملی،آفاقی اور انقلابی دنیامنور و تابناک ہےاورجن سےفیض یافتہ افراد آج بھی پوری جدوجہد کے ساتھ ان کےمشن کو برقرار رکھاہےاور اس کےفروغ کے لیے کوشاں ہیں۔
حضورحافظ ملت علیہ الرحمہ ایک عہد ساز، انقلاب آفریں شخصیت،اخلاق، جہد مسلسل، استقلال، ایثار، ہمت، کردار، علم، عمل، تقویٰ، تدبر، ادب، تواضع، استغنا، توکل، قناعت اور سادگی جیسے بے پناہ اوصاف سے بھی مزین تھے۔آپ اپنی مختصر سی زندگی میں علمی اورعملی دنیامیں زبردست انقلاب برپاکیا اور اپنی زندگی سےعالم اسلام کوایک بہترین زندگی گزارنے اوربسرکرنےکاسبق سکھایاجن میں سےایک "وقت کی پابندی واہمیت” ہےجسےذیل میں تحریرکیاجارہاہے:
وقت کی پابندی:
حضور حافظ ملت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وقت کے انتہائی پابند اور قدر داں تھے ہر کام اپنے وقت پر کیا کرتے مثلا مسجدمیں پابندی وقت کے ساتھ باجماعت نماز ادا فرماتے، تدریس کے اوقات میں اپنی ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دیتے، چھٹی کے بعد قیام گاہ پرواپس لوٹتےاور کھانا کھاکر کچھ دیر قیلولہ(یعنی دوپہر کے وقت کچھ دیر کے لیے آرام) فرماتے، قیلولہ کا وقت ہمیشہ یکساں رہتا، چاہے ایک وقت کا مدرسہ ہو یا دونوں وقت کا، ظہر کے مقررہ وقت پر بہر حال اٹھ جاتے اور باجماعت نماز ادا کرنے کے بعد اگر دوسرے وقت کا مدرسہ ہوتا تو مدرسہ تشریف لے جاتے ورنہ کتابوں کا مطالعہ فرماتے یا کسی کتاب سےدرس دیتے یا پھر حاجت مندوں کو تعویذ عطافرماتے، شروع شروع میں عصر کی نماز کے بعد سیروتفریح کے لیے آبادی سے باہر تشریف لے جاتے مگر اس وقت بھی طلبہ آپ کے ہمراہ ہوتے جو علمی سوالات کرتے اور تشفی بھر جوابات پاتے، اگر کسی کی عیادت کے لیے جاناہوتا تو اکثر عصر کے بعد ہی جایا کرتے، قبرستان سے گزرتے ہوئے اکثر سڑک پر کھڑے ہوکر اہل قبورکےلیےفاتحہ اور ایصال ثواب کرتے۔ مغرب کی نماز کے بعد کھانا کھاتے اور پھر اپنے آنگن(صحن) میں چہل قدمی فرماتے، عشاکی نماز کے بعد کتابوں کامطالعہ کرتے اور ساتھ ہی ساتھ مقیم طلبہ کی دیکھ بھال بھی کرتے رہتے کہ وہ مطالعہ میں مصروف ہیں یا نہیں ۔عموما گیارہ بجے تک سوجاتے اور تہجد کے لیے آخر شب میں اٹھتےاورنمازتہجدکی ادائیگی کرتے، رات میں چاہے کتنی ہی دیر جاگنا پڑتا فجر کبھی قضا نہ ہوتی،اس طرح سےمعمولات زندگی تھی اوراس قدروقت کی پابندی کرتےاوراپنےآپ کوکاموں میں مصروف رکھتےکہ کوئی بھی وقت ضائع نہ ہوتا۔وقت کی پابندی اورکاموں کی مشغولیت عملی طور پراور قول :” ہرمخالفت کاجواب کام ہے” ۔۔۔ "زمین کےاوپرکام اور زمین کےنیچےآرام” ہمیں باربار اس بات کی طرف راغب کرتا ہے کہ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے وقت کی قدر کریں اور سستی اڑاکر دن بھر کے کاموں کا ایک جدول بنائیں تاکہ ہر کام وقت پر کرنے کے عادی بن سکیں۔ حضورحافظ ملت علیہ الرحمہ کی حیات مبارکہ کےہرہرزاویےسے ہمیں وقت کی پابند بننےکی طرف اشارہ اور سبق ملتاہےکہ ہم خواتین بھی صبح اٹھنے کے بعد سے لے کر رات سونے تک سارے کاموں کے اوقات مقررکرلیں۔مثلاً اتنے بجے تہجد، علمی مشاغل، گھروں میں نمازکی پابندی، اشراق، چاشت کااہتمام، ناشتہ،کھانا بنانا، گھریلو معاملات، شام کے مشاغل، اچھی صحبت اورعورتوں کےمابین دینی مسائل کوبیان کرناوغیرہ۔
اللہ جل شانہ سےدعاہےکہ تمام خواتین کو وقت کی اہمیت سمجھنے اور حضورحافظ ملت علیہ الرحمہ کی زندگی کےمطابق زندگی گزار نے اور بسر کرنے کی توفیق رفیق عطافرمائے۔آمین یارب العٰلمین بجاہ سیدالمرسلین۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے