نتیجۂ فکر: امیر حسن امجدی، جھانسی
ان کے در کا جس گھڑی سے میں گداگر ہوگیا
اغنیا کے درمیاں سب سے تونگر ہوگیا
مل گیا جس روز سے ان کی غلامی کا شرف
اوج پر اس روز سے میرا مقدر ہوگیا
ہوگئی جس پر کرم کی اک نظر واللہ وہ
گر وہ قطرہ تھا تو پھر بڑھکر سمندر ہوگیا
جو ہوا رخصت جہاں سے دولتِ ایماں لئے
قبر میں اور حشر میں ہر جا مظفر ہوگیا
تذکرہ پڑھ کر بلال و قرن کے دلدار کا
بوئے عشق مصطفیٰ سے دل معطر ہوگیا
جو فدائے سرورِ عالم یقیناً ہو گیا
وہ سمجھ لو وقت کا اپنےسکندر ہوگیا
عشق و عرفاں کا بھی جس نے سرد مئے، پیالہ پیا
مست، بے خود ہوگیا، مردِ قلندر ہوگیا
جو ” فنا فی اللہ،، کے درجہ پے فائز ہوگیا
بحرِ عرفاں کا یقیناً وہ شناور ہوگیا
جب سے تو لکھنے لگا سرکار کی مدحت امیرؔ
درمیانِ اہلِ مدحت تو سخنور ہو گیا