نبی کی نعت نہ دن رات گنگنائے کیوں
یہی ہے سنّتِ حسان ہچکچاۓ کیوں
شُہُودِ حق سے زباں اس کی کپکپاۓ کیوں
جو اہلِ حق ہے وہ باطل سے مات کھاۓ کیوں
انہیں کے صدقے ملے جان و مال و دھن دولت
نہ فخر ذاتِ پیمبر پہ ہم کو آۓ کیوں
ہوا ہے جو بھی فنا فی الرسول اے لوگو!
لحد میں آکے فرشتہ اسے ڈراۓ کیوں
بروزِ حشر وہ میزان پر کھڑے ہوں گے
تو میرا نامۂ اعمال ہلکا آۓ کیوں
وہ سب کو کوثر و تسنیم بانٹتے ہوں گے
حریقِ حشرِ نکمے کو پھر ستائے کیوں
پکڑ کے دامنِ سرکار سر سے گزروں گا
وہ پل صراط سقر میں مجھے گرائے کیوں
گنہگار ہوں لیکن نبی کا بندہ ہوں
درِ ارم کا دروغہ مجھے ہکاۓ کیوں
نبی کے لطف و کرم نے مجھے سنبھالا ہے
غمِ حیات کی آندھی مجھے اڑاۓ کیوں
ہے مجھ پہ دست حمایت حبیبِ داور کا
حریفِ جاں کا الم مجھ کو کپکپاۓ کیوں
نبی کی صورتِ زیبا ہے دل کے شیشہ میں
جمالِ دنیا نظر اس میں تجھ کو آۓ کیوں
امامِ حسن کی صورت ہے جب نگاہوں میں
ہمارا عشق ہمیں مصر لے کے جاۓ کیوں
حریمِ قلب میں رہتے ہیں ہادیٔ اکرم
جہاں کے قوس و قزح سے فریب کھاۓ کیوں
ہمارے حامی و ناصر ہیں جب رسول اللّٰہ
خرامِ ہستی مصائب میں لڑکھڑاۓ کیوں
رضا و مفتئ اعظم کے بعد اختر ہیں
چراغِ سنّتِ سرکار تھر تھراۓ کیوں
تسلی دیتے ہیں انؔور کو مصطفٰی پیارے
فراقِ دورئ طیبہ اسے رولاۓ کیوں
فقیر صابری
محمد خورشید انؔور امجدی