تعلیم

نیپال میں اکیسویں صدی کے اوائل سے مدرسہ سسٹم کا زوال اور اس کی اصلاح کی تدبیری

اللہ رب العزت نے انسانوں کی رشد وہدایت کے لیے یکے بعد دیگرے انبیائے کرام کی مقدس جماعت کو مبعوث فرماتا رہا، سب کے آخر میں اپنے پیار محبوب ﷺپر نبوت ورسالت کا دروازہ مقفل کرکے نبی آخر الزماں پر مہر تصدیق ثبت فرمایا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو اپنے ایمان و عقیدے کی حفاظت و صیانت کرنے اور اولاد و امجاد کی تربیت سے روشناس کرانے کے لیے تعلیم وتعلم کا طریقۂ کار اختیار فرمایا، عہدِ رسالت سے لیکر امروز تک انسانوں کے ایمان وعقیدہ کو محفوظ کرنے کے لیے بہت سے مدارس ، مساجد ، مکاتب ، خانقاہیں معرضِ وجود میں آئیں۔ سب نے اپنے تئیں قدرِ استطاعت اپنا منصبی فریضہ انجام دیتے رہے۔

لفظ "مدارس” اپنے معنوی اعتبار سے ہی اپنا معنی واضح کرتا ہے، مدارس ہی ہیں جو معاشرہ کے بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت کرکے ایک رہنماء بنا کر قوم کے سامنے پیش کرتے ہیں، مدارس ہی ہیں جو اپنی اور اپنے قوم کے ایمان وعقیدہ کی حفاظت کے لیے ہر سال لا تعداد فارغین کو بہترین قائد بنا کر معاشرہ میں بھیجتے ہیں ، مدارس ہی ہیں جو معاشرہ کی فلاح وبہبود کی خاطر علمائے کرام کو متعدد جگہ مذہب اسلام کی نشر واشاعت کے لیے بھیجتے رہتے ہیں، اگر یہ مدارس نا ہوتے تو انبیائے کرام علیہم السلام کے وارثین علمائے عظام کی مقدس جماعت نہیں ہوتی ، تبلیغ وارشاد ، تحریر وتقریر ، تدریس و تصنیف کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ، عوام کی صحیح رہنمائی نہیں ہو پاتی۔ خطابت وامامت کما حقہ ادا نہیں ہو سکتا، جاہل نما لوگ علماء کے لباس میں ملبوس ہوکر عوام کو بے راہ روی میں مبتلا کرتے ، اور گیدڑ ، شیر کی کھال کو زیب تن کرکے عوام الناس کو ضلالت کے گڈھے میں جا گراتے ، احادیث کریمہ کی خود ساختہ تشریح وتوضیح کو اصلاح کا نام دیتے، حقیقت میں انھیں گم راہ کرتے ، اور ان کو غلط مسائل بتا کر بھٹکاتے گویا "آنکھوں میں دھول جھونک دینے”، کے مانند۔ جب وہ شاخ ہی نہ رہے جس پر آشیانہ تعمیر کیا جاسکے، تو پروانے در بدر کی ٹھوکریں کھاتے ہی پھریں گے۔ الغرض نتائج و عواقب آپ پر آفتاب نیم روز کی طرح عیاں ہیں۔

فی الحال ملک نیپال میں بالخصوص کپلوستو میں تعلیم کی جو حالت ہے، وہ بے حد افسوس ناک ہے، اور حیرت انگیز بھی۔ اب صرف پڑھائی خانہ پوری کے لیے رہ گئی ہے، پہلے کے بنسبت اب مدارس تنزلی کی طرف بڑھ رہے ہیں ، مدارس زبوں حال کا شکار ہو رہے ہیں ، مشاہدہ شاہد اور تاریخ گواہ رہے گی، کہ اس خاکسار نے چند ایسے مدارس دیکھے ہیں جن میں چند نام نہاد مولوی اپنی ذاتی مفاد کی خاطر جیب بھرنے کے لیے چاپلوسیت کا حد پار کرجاتے اور داڑھی ، ٹوپی ، کُرتا اور بوجود حدود شرع کے غیر مسلم وہابیوں، دیوبندیوں سے سلام وکلام اور مدرسہ میں اس کے رہنے کا باقاعدہ معقول انتظام وانصرام کرواتے ہیں ، تعجب خیز بات یہ کہ مع فیملی کے، جس سے نا تو کوئی دنیاوی فائدہ حاصل ہوتا ناہی کوئی دینی نتائج برآمد ہوتے ہیں، انصاف پسند قارئین غور فرمائیں! اس سے وہاں کے بچوں پر کیا اثرات مترتب ہوتے ہونگے؟، اللہ کی پناہ۔ مکاتب میں بچوں کو صحیح طریقے سے تعلیم وتربیت کا رویہ نہیں اپنایا جاتا ہے، کاش اگر علم کے ساتھ ساتھ ادب پر توجہ دی جاتی تو آج کل کے بچے اپنے گھر پہونچ کر اپنے والدین سے سلام کرتے تو والدین کے چہرے فرحت وانبساط سے کھِل اٹھتے، وہ اپنے بڑوں کا ادب کرتے، نماز پنج گانہ اول صف میں ادا کرتے، ہم جس ماحول میں پروان چڑھے اور جس گرد ونواح میں بڑے ہوئے جس خطہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی، وہاں پہ اہل سنت وجماعت کا ایک بھی بڑا ادارہ نہیں ہے محض مکاتب ہیں ، جو کہ میرے پرائمری کے پڑھائی (پیشِ مدرسی)کے دوران عمدہ نظم ونسق کے ساتھ تعلیم دی جاتی تھی، اردو ، عربی کے ساتھ ساتھ نیپالی زبان بھی پڑھائی جاتی تھی، لیکن اب جو کہ مدارس کے حالات ہیں وہ الفاظ بیاں سے باہر…. ، الا ماشاء اللہ، بہت شاذ ونادر۔ جہاں مکتب میں بہترین اسلوب اپنایا جاتا ہو۔

علمائے کرام کو بحیثیت دین کے داعی کے ماحول کا تجزیہ کیا جانا چاہیے۔ جہاں جس چیز کی ضرورت محسوس ہو کرنا جانا چاہیے۔ تعلیم پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے ضروریاتی زندگی کے مسائل سے آگاہ کرنا چاہیے، قرآن مجید صحیح مخارج وصفات کے ساتھ طلبہ کو درس دیں، اس کے ساتھ ایک گھنٹی باضابطہ تربیت کی ہونی چاہیے۔ تاکہ بچے گاؤں میں جاکر آوارہ گری کرتے نا پھریں، ادب کو ہاتھ سے ناجانے دیں، بلکہ جب وہ اپنے بڑوں سے ملے تو ادب واحترام کے ساتھ پیش آئے، گھر جائیں تو والدین کو سلام کریں، معزز علمائے ذوی الاحترام! اولا ہمیں اپنی کوتاہیوں کا ادراک ہونا چاہیے،،بحیثیت عالم ہم پر عائد دینی ذمہ داریوں کا علم اور ان کی ادائیگی کا احساس قوی بیدار ہونا چاہیے،ہمیں آج ہمارے اسلاف کی عظمتوں کا امین ہونا چاہیے،دنیا کی ناراضی اور مخالفت کی پرواہ نہ کریں حضور حافظ ملت کے قول کو اپنے سینے میں نشتر کی طرح پیوست کرلیں ”ہر مخالفت کا جواب کام ہے“ آپ کام کریں، ان شاء اللہ اللہ تعالی اس کا نعم البدل آپ کو عطا فرمائے گا، وقت تنگی اور دشواری کا حوصلہ مندی سے سامنا کریں ،کیا انبیاء کرام علیہم السلام نے اس راہ میں اپنا سب کچھ نہ لٹایا؟…..کیا آقا کریم علیہ التحیۃ والتسلیم کو اس راہ میں سب سے زیادہ نہ ستایا گیا؟…….. کیا صحابہ کرام علیہم الرضوان کی مقدس جماعت کے تقریبا ہر فرد کو مختلف تکلیف دہ آزمائشوں سے نہ گزرنا پڑا؟…….کیا ہمارے بزرگوں نے دعوت وتبلیغ دین کی راہ میں سختیوں کا سامنا نہ کیا؟……اپنا مال اپنا آرام اپنی اولاد،اپنا گھر بار حتی کہ اپنی جان کے نذرانوں سے بھی گریز نہ کیا…….اپنے مقدس لہو سے دعوت وتبلیغ کے چراغ کو روشن رکھا۔

رب قدیر ومقتدر ہمارے دل اور سینوں میں دینی اور ایمانی حرارت پیدا فرما، ہم سے اپنے مذہب اسلام کی خدمت لینے کی توفیق عطا فرما، تاحینِ حیات مسلک حقا المعروف مسلک رضا پر سختی سے گامزن رکھ! آمین ثم آمین

از: محمد ارشاد احمد امجدی نیپال
متعلم: جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے