ازقلم: غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
مجاہد ملت علامہ حبیب الرحمن علیہ الرحمہ رئیس اعظم اڑیسہ کا قائم کردہ ادارہ جامعہ حبیبیہ الہ آباد اس وقت بے حد نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ذرا سی تاخیر یا سستی ہوئی تو ڈیڑھ بیگھہ زمین پر پھیلی ہوئی تین منزل کی پر شکوہ عمارت بلڈوز کر دی جائے گی اور یہ انہدام صرف جامعہ حبیبیہ ہی کا نہیں بل کہ ملت کے اس حوصلے کا بھی ہوگا جو ناموافق حالات کے باوجود بھی کمزور نہیں پڑا ہے۔اگر ایسا ہوگیا تو پھر کسی بھی شہر کا کوئی ادارہ محفوظ نہ رہ سکے گا، ذرا سے شک وشبہ/کسی ملازم پر کسی غیر قانونی الزام یا کسی تکنیکی کمی کا سہارا لیکر مدرسوں کو بلڈوز کرنے راستہ کھل جائے گا جسے روک پانا کسی کے لیے آسان نہ ہوگا۔
اصل قضیہ کیا ہے؟
اٹھائیس اگست کو جامعہ حبیبیہ الہ آباد (موجودہ پریاگ راج) میں پولیس کی ریڈ پڑتی ہے۔پولیس بریفنگ کے مطابق وہاں ایک کمرے سے کچھ نقلی نوٹ، ہائی کوالٹی اسکینر اور نوٹ چھاپنے کا دیگر ساز و سامان برآمد ہوا۔اس کیس میں کل چار لوگ گرفتار ہوئے جس میں ادارے کے پرنسپل مولانا تفسیر العارفین بھی شامل بتائے گیے ہیں۔تفسیر العارفین، جماعت کے جید عالم دین، ماہر لفت لسان علامہ عاشق الرحمن حبیبی علیہ الرحمہ کے فرزند ہیں۔مجاہد ملت کے بعد اس ادارے کے روح رواں علامہ عاشق الرحمن حبیبی ہی رہے ہیں۔تفسیر العارفین کی گرفتاری اور ان کے اس کام میں ملوث ہونے کی خبر نے سبھی کو حیرت میں ڈال دیا۔کیوں کہ کسی کو ایسی امید نہیں ہے کہ اتنے قدیم، مالی طور پر مستحکم ادارے کا پرنسپل اور ایک عظیم باپ کا بیٹا ایسے کام میں ملوث ہوسکتا ہے؟
خیر اب یہ عقدہ تو کورٹ ہی میں کھلے گا کہ الزامات سچے ہیں یا وہ کسی کی سازش کا شکار ہوئے ہیں،اصل معاملہ ادارے کی بقا کا ہے۔اگر پرنسپل پر لگائے ہوئے الزامات ثابت ہوجائیں تو ان پر یا دیگر ملزمین پر قانونی کاروائی سے کسی انصاف پسند شہری کو کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن مسلمانوں کو دھڑکا اس بات کا تھا کہ کہیں گھما پھرا کر مدرسہ کو بند کرنے یا نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کی جائے۔خدشہ یقین میں بدل گیا ہے، پولیس کی تلاشی میں مہاراشٹر کے سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس ایس ایم مشرف کی تصنیف کردہ کتاب "آر ایس ایس ملک کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم” دستیاب ہوئی۔اس کتاب کو بنیاد بنا کر اب یہ تھیوری چلائی جا رہی ہے کہ مدرسے میں آر ایس ایس کے خلاف طلبہ کی برین واشنگ کی جاتی ہے۔کتاب کے عنوان اور نقلی نوٹوں کی برآمدگی کو آپس میں جوڑ کر دہشت گردی سے ربط ہونے کے شوشے چھوڑے جارہے ہیں۔
یہ ساری باتیں ادارے کو بدنام کرنے یا نقصان پہنچانے کی بے جا کوشش معلوم ہوتی ہیں کیوں کہ مذکورہ کتاب کسی گمنام مصنف کی نہیں بل کہ انڈین پولیس سروس کے ایک ذمہ دار افسر کی لکھی ہوئی ہے۔ایس ایم مشرف مہاراشٹر کیڈر کے ذمہ دار اور کامیاب پولیس افسر رہے ہیں۔انسپکٹر جنرل آف پولیس جیسے بڑے عہدے سے رٹائر ہوئے ہیں۔اپنی خدمات پر صدر جمہوریہ جیسا سب سے بڑا اوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔آندھرا پردیش کا مشہور تیلگی اسٹامپ کرپشن کیس انہوں نے ہی بے نقاب کیا تھا۔یہ کتاب ہندی، اردو انگریزی اور مراٹھی زبان میں دستیاب ہے۔کئی سالوں سے کھلے عام چھپ رہی ہے۔مشہور تجارتی سائٹ ایمزون پر ابھی بھی یہ کتاب برائے فروخت موجود ہے۔کسی ادارے یا استاذ کے پاس مذکورہ کتاب ملنے پر ہنگامہ سمجھ سے باہر ہے۔جو کتاب لگاتار مختلف زبانوں میں پبلش ہورہی ہے، کمرشل سائٹوں پر بک رہی ہے وہی کتاب کسی مدرسے میں پائی جائے تو برین واشنگ کا الزام کیوں؟
کیا اس کتاب پر حکومت نے پابندی لگائی ہے، یا اس کتاب کا پڑھنا غیر قانونی ہے؟ اگر کتاب غیر قانونی ہے تو پہلے مصنف کتاب اور پبلشر پر قانونی کارروائی کرنا چاہیے نہ کہ پڑھنے والے پر!
ایک طرف تحقیقاتی ایجنسیاں نت نئی تھیوریاں نکال رہی ہیں تو دوسری جانب پریاگ راج اتھارٹی نے مدرسہ کا نقشہ پاس نہ ہونے کو بنیاد بناتے ہوئے ادارے کو سیل کرکے وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا ہے۔ارد گرد کی غیر مسلم آبادی اور میڈیائی ٹرائل میں مسلسل مدرسے کو گرانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔جس طرح ادارے کے خلاف میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے اس سے ادارے کی سلامتی کے متعلق خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔
کچھ تو کریں!
جامعہ حبیبیہ، الہ آباد کے پاش علاقے میں تقریباً ڈیڑھ بیگھہ اراضی پر قائم ہے۔جس میں چالیس کمرے، دو بڑے بڑے ہال، بیس حمام خانے، ایک مسجد اور پارکنگ بھی بنی ہوئی ہے۔زمین کی موجودہ مالیت تقریباً سو کروڑ سے زائد ہے۔یہاں قریب سو سے زائد بیرونی طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔محض نقشہ نہ ہونے یا کسی استاذ کے غیر قانونی کام میں ملوث ہونے کے الزام پر اتنے بڑے تعلیمی ادارے کو بند کرنا یا اسے گرانا چھوٹا یا نظر انداز کرنے والا معاملہ نہیں ہے۔جماعت کے اکابر علما/مشائخ اور ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ جامعہ حبیبیہ کو بچانے کے لیے مؤثر کردار ادا کریں۔اس ضمن میں کچھ کام یہ بھی ہوسکتے ہیں:
🔸اولاً وہاں کی انتظامیہ کمیٹی سے ملاقات کی جائے۔انہیں تسلی دے کر ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا جائے۔
🔹سنجیدہ اور ماہر افراد کو ساتھ لیکر پریس کانفرنس کی جائے تاکہ غلط افواہوں پر لگام لگ سکے۔
🔸قانونی کارروائی کے لیے اچھے وکلا کی خدمات حاصل کی جائیں اور فوری طور پر ہائی کورٹ یا ضروری سمجھیں تو سپریم کورٹ میں ممکنہ بلڈوز ایکشن کے خلاف رٹ داخل کی جائے.
🔹سیاسی مورچے پر اپوزیشن رہنماؤں/ارباب حکومت سے ملاقات کریں۔حقائق پیش کریں، خاطیوں کی بنا پر ادارے کو نقصان سے بچانے کی اپیل کریں، اخلاقی دباؤ ڈالیں۔
ہر گز نہ بھولیں؛
جامعہ حبیبیہ اس مجاہد ملت کی یادگار ہے جنہوں نے اپنے ذاتی سرمایہ سے نہ جانے کتنے اداروں/تنظیموں اور افراد کی کفالت کی ہے۔
یہ اس عظیم ہستی کی نشانی ہے جس نے ملت کی خاطر رئیس اعظم ہوکر بھی فقیروں جیسی زندگی گزاری۔
جس نے اداروں کی بقا/تنظیموں کے تحفظ اور ملی مفاد کے لیے سالہا سال جیلوں کی قید اور تکلیفوں کو برداشت کیا۔
جس مرد قلندر نے اپنا وقت، پیسہ، جائداد اور پوری زندگی ملت پر نچھاور کر دی۔
آج اسی مرد مجاہد کا قائم کردہ ادارہ نشانے پر ہے، خدارا اس کی حفاظت کریں!
مصلحت اور صرف نظر کی کیفیت سے باہر نکلیں اور ادارے کو بچانے کے لیے اپنے سیاسی/مذہبی رسوخ کا استعمال کریں۔
اٹھیں اس سے پہلے کہ اٹھنے کی طاقت بھی نہ رہے!
اگر آج اس عظیم ہستی کی یادگار کو نہ بچایا جا سکا تو سب اپنے اپنے آشیانوں کی خیر منائیں، ایک کے بعد ایک سب کا نمبر آئے گا اور کوئی کچھ نہ کر سکے گا۔
جلتے گھر کو دیکھنے والو، پھونس کا چھپر آپ کا ہے
آگے پیچھے تیز ہوا ہے، آگے مقدر آپ کا ہے
3 ربیع الاول 1446ھ
7 ستمبر 2024 بروز ہفتہ