از: سرفراز عالم ابوطلحہ ندوی
اس روئے زمین پر مختلف قسم کے جاندار چیزیں پائی جاتی ہیں، ان میں سے کچھ ذوی العقول ہیں، تو کچھ غیر ذوی العقول ہیں، پھر ذوی العقول میں بھی نوع بہ نوع انسانی طبقے پائے جاتے ہیں،جہاں ان میں سے بعض انسان کو اللہ نے مال و دولت و جاہ و جلال اور حشمت وبادشاہت سے نوازا ہے تو انہیں میں سے بعضوں کو غریب، ناتواں، مفلس، لا چار، قلاش اور فقیر بنایا ہے ، تاکہ انسانوں کو آزمائش میں مبتلا کریں، کہ کون ہے؟ جو اپنی مالداری اور دولت کو صحیح ودرست راستہ پر خرچ کرتا ہے، اور مفلسوں، غریبوں پر کماحقہ صرف کرتا ہے،اور کون ہے؟ جو مال و دولت کو غیر قانونی طور پر خرچ کرتا ہے، ان تمام چیزوں کے بارے میں اللہ رب العالمین نے قرآنی ہدایات سے لوگوں کو بارہا اپنی توجہ مبذول کرانے کی بھر پور کوشش کرتے ہوئے انہیں ایک انسانیت کے پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا ہے،اور محتاجوں، یتیموں، بیواؤں، مسکینوں، مسافروں، لاچاروں کی امداد کو اسلام کا اہم ترین رکن قرار دیا ہے، جو رہتی دنیا تک کے لئے ایک رہنما اصول و ضوابط قرار پایا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے،
"وآتي المال علي حبه ذوي القربى واليتامي والمساكين وابن السبيل والسائلين وفي الرقاب وأقام الصلاة وآتي الزكاة والموفون بعهدهم إذا عاهدوا والصابرين في البأساء والضراء وحين البأس أؤليك الذين صدقوا وأؤليك هم المتقون”( سورة البقرة ايت 177*”)
ترجمہ : اور اس کی محبت میں رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور سوال کرنے والوں کو اور گردنوں کے چھڑانے میں مال دے، اور نماز پڑھے اور زکوٰۃ دے، اور جو اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہیں، جب وہ عہد کرلیں، اورتنگدستی میں اور بیماری میں اور لڑائی کے وقت صبر کرنے والے ہیں، یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔
محترم قارئین :
اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے ایمان والوں کو اس بات پر برانگیختہ کیا اور ابھارا ہے، کہ اگر تم غریبوں کی امداد اور اس کی حمایت کروگے تو تم کامیاب و کامران ہو جاؤگے، اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو تمہارا ٹھکانہ اور تمہارا آشیانہ بہت ہی برا ہونے والا ہے، اسی چیز کو ہم جب علامہ اقبال کے اشعار سے موازنہ کریں، تو ایسا محسوس ہوتا ہے، کہ علامہ اقبال نے مذکورہ بالا آیت کو سامنے رکھ کر اس شعر کو قلم بند کیا ہے،
ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
اس شعر میں انہوں نے ایک فکر پیدا کر کے پوری دنیائے انسانیت کو یہ لازوال پیغام دیا ہے، کہ اے عقل و دانش کے سرداروں اور مال ملال کے امیروں ضعیفوں کمزورں اور بیواؤں کی امداد کرنا، جس سے ایک بہترین معاشرہ معرض وجود میں آ جائیں ، ہر طرف امن و امان بحال ہوسکے، بے چینی وغربت کا دور ختم ہو کر مساوات ویکجہتی اور عدل و انصاف قائم و دائم رہے اور ایک دوسرے میں برابری پیدا ہوسکے، معاشرہ، سوسائٹی اور سماج کا کوئی بھی طبقہ غیروں کے سامنے اپنا ہاتھ نہ پھیلائیں، اپنی محتاجگی اور مفلسی کو دوسروں تک شئیر نہ کریں ، جس سے ہمارا شبیہ داغ دار ہو، اور غیر ہمارا مذاق اڑائیں، اور یہ بات ضرور یاد رہے کہ معاشرے کا غربت زدہ وافلاس زدہ اور ضرورت مندوں پر اپنا مال و دولت خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک قرض حسن کے مترادف ہے، اور ساتھ ہی اللہ کے راہ میں خرچ کئے گئے مال میں کئی گنا اضافہ کر دیا جاتا ہے، اور اسی طرح اسلام نےحقوق الإنسان اور حقوق الجار کی بہت بڑی تاکید کی ہے، اگر کوئی انسان بھوکے مر جائیں ، تو اس کا ذمہ دار ہم اور آپ ہیں،چونکہ دنیا میں سب سے زیادہ مسئلہ آج بھوک اور افلاس کا ہے، انسانیت دردِ بھوک سے کراہ رہی ہیں، ایک دن کی روٹی کے لیے ترس رہی ہیں، ان کی حالت بھوک کی وجہ سے نہایت ہی نازک ہوتی ہوئی پوری دنیائے انسانیت کے سامنے آشکارا ہو رہی ہیں، ان کی امداد د کرنا ہمارے اوپر فرض اور واجب ہے، ایسے موقع پر تعاون کرنا برِ اور ثواب کا کام ہے، قرآن مجید نے صاف صاف کہہ دیا، کہ
وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا علي إلاثم والعدوان
نیکی اور بھلائی پر تعاون کرنا یہ بر کار ثواب اور کار خیر ہے، اور اسی طرح برائی پر اپنے آپ کو کنٹرول کرنا اور برے تعاون سے رک جانا یہ بھی بر اور کارِخیر ہے۔
دوستو!!
ہمارا کام یہ ہونا چاہئے، کہ ہم غریبوں کی حمایت میں جہاں تک ہوسکے، اپنی جان ومال اور دولت تمام چیزوں کو قربان کر دیں ، اور آپس میں موّدت واخوت کا بہترین مثال پیش کریں، اس سے اسلام کا بول بالا ہوگا، دین اسلام کی واہ واہی پورے عالم میں جا بجا پھیل جائے گا، اور اسلام کی ہم آہنگی اور رحم دلی تمام لوگوں پر سایہ فگن ہو کر جگمگانے لگے گا، اور جس کی تاب نہ لا کر لوگ قبول اسلام پر مجبور ہوجائے گا، اور جس کی جانب دل و دماغ کھینچے چلے آئیں گے، جس سے پورے عالم اسلام میں خوشی کی لہر دوڑ جائے گی، اور اسلامی تعاون وامداد سے غریبوں، محتاجوں اور مفلسوں میں ایک الگ چھاپ چھوڑ جائیں گے، ایک طرح انہیں خوشی اور مسرت کا اظہار ہوگا، اس طرح علامہ اقبال کے احساسات وجذبات مسلم معاشرے کے تئیں کبھی سرد نہیں پڑے گا، اور ان کی روح کو ایک نئی تازگی اور نئی غذا فراہم ہوگی،
لہذا آج ضرورت اس بات کی ہے، کہ ہم اور آپ غریبوں کی امداد ومعاونت کریں، جہاں تک ہوسکے، انہیں مالی، جسمانی، ہر اعتبار سے امداد کریں، تاکہ وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں ، کہ اس کا اس کائنات آب و گل میں کوئی درماں نہیں جو انہیں اپنی بھوک و پیاس اور ان کی غربت کو رفع کر سکے،
اللہ تعالیٰ ہمیں زیادہ سے زیادہ غریب، مزدور، اور مجبور زدہ لوگوں کی امداد کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین۔