شاعری ادب کی وہ مقبول ترین صنف ہے جو جذبات و احساسات کی دنیا میں ارتعاش و اہتزاز پیدا کرنے کی صلاحیت و استعداد رکھتی ہے ۔ Poetry is a condensed form of writing . As an art , it can effectively invoke a range of emotions in the reader . یعنی شاعری تحریر کی ایک جامع شکل ہے ۔ بحیثیتِ فن یہ قاری میں مؤثر طریقے سے جذبات کی ایک حد کو جنم دے سکتی ہے ۔ شاعری ٬ فرحت و بہجت سے شروع ہو کر شعور و بصیرت پر ختم ہونے والا وہ فن ہے جو غیر محسوس اشیا کو محسوس کر کے ہمارے سامنے لاتی ہے ۔ ناقدینِ فن کا شاعری کے متعلق یہ نظریہ عام ہے کہ یہ غیر مرئی حقیقت کو محسوس و مبصر کر کے پیش کرتی ہے ۔ A poet makes the invisible visible . فطری اور طبعی طور پر شاعری میں جذب و کشش اور مقناطیسی کیفیت پائی جاتی ہے ۔ اس کا تجربہ کرنا چاہیں تو ایک ہی مفہوم کی حامل فکر نثر اور نظم میں پیش کر کے دیکھیں ٬ آپ محسوس کریں گے کہ جو بات اور جو فکر نظم میں پیش کی گئی ہے ٬ قاری و سامع اس سے زیادہ مسحور و متاثر ہوں گے ۔ نثر کی اثر انگریزی کا میں منکر نہیں ٬ لیکن شعر کی عوامی مقبولیت ٬ اس کی ہر دل عزیزی اور اثر پذیری نثر سے بہر حال زیادہ ہے ۔ کامیاب اور پائدار شاعری حکمت سے لبریز ہوا کرتی ہے اور یہی حکمت و دانائی اور فطری جذب و کشش دامانِ دل کو کھینچنے کا سبب بنتی ہے ۔ گویا شاعری اور ساحری لازم و ملزوم ہیں ۔ حدیث پاک میں شاعری کی اثر انگریزی ٬ سحر کاری اور حکمت آمیزی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ اس حوالے سے یہ دو حدیث پاک ملاحظہ فرمائیں :
( 1 ) عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ فَجَعَلَ يَتَكَلَّمُ بِكَلَامٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ : إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا وَ إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حُكْمًا .
ترجمہ : حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور باتیں کرنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : بعض بیان ( قول ٬ گفتگو ٬ تقریر ) جادو ہوتے ہیں اور بعض اشعار حکمت سے لبریز ہوتے ہیں ۔
( سنن أبی داؤد ٬ کتاب الادب ٬ باب ما جاء فی الشعر ٬ رقم الحدیث : 5011 ٬ ص : 784 ٬ مطبوعہ : دار الکتب العلمیہ ٬ بیروت )
( 2 ) حَدَّثَنِي صَخْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ يَقُولُ : إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا وَ إِنَّ مِنَ الْعِلْمِ جَهْلًا وَ إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حُكْمًا وَ إِنَّ مِنَ الْقَوْلِ عِيَالًا . فقال صَعْصَعَةُ بْنُ صُوحَانَ : صَدَقَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ . أَمَّا قَوْلُهُ : إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا ، فَالرَّجُلُ يَكُونُ عَلَيْهِ الْحَقُّ وَ هُوَ أَلْحَنُ بِالْحُجَجِ مِنْ صَاحِبِ الْحَقِّ ، فَيَسْحَرُ الْقَوْمَ بِبَيَانِهِ فَيَذْهَبُ بِالْحَقِّ ، وَ أَمَّا قَوْلُهُ : إِنَّ مِنَ الْعِلْمِ جَهْلًا ، فَيَتَكَلَّفُ الْعَالِمُ إِلَى عِلْمِهِ مَا لَا يَعْلَمُ فَيُجَهِّلُهُ ذَلِكَ ، وَ أَمَّا قَوْلُهُ : إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حُكْمًا ، فَهِيَ هَذِهِ الْمَوَاعِظُ وَ الْأَمْثَالُ الَّتِي يَتَّعِظُ بِهَا النَّاسُ ، وَ أَمَّا قَوْلُهُ : إِنَّ مِنَ الْقَوْلِ عِيَالًا ، فَعَرْضُكَ كَلَامَكَ وَ حَدِيثَكَ عَلَى مَنْ لَيْسَ مِنْ شَأْنِهِ وَ لَا يُرِيدُهُ .
ترجمہ : حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : بعض بیان ( یعنی گفتگو خطبہ اور تقریر ) جادو ہوتے ہیں ( یعنی ان میں جادو جیسی تاثیر ہوتی ہے ) ٬ بعض علم جہالت ہوتے ہیں ، بعض اشعار حکمت ہوتے ہیں اور بعض باتیں بوجھ ہوتی ہیں ۔ تو صعصہ بن صوحان بولے : اللہ کے نبی نے سچ فرمایا : رہا آپ کا یہ فرمان کہ ” بعض بیان جادو ہوتے ہیں ” تو وہ یہ کہ آدمی پر دوسرے کا حق ہوتا ہے ، لیکن وہ دلائل پیش کرنے میں صاحبِ حق سے زیادہ سمجھ دار ہوتا ہے ، چنانچہ وہ اپنی دلیل بہتر طور پر پیش کر کے اس کے حق کو مار لے جاتا ہے اور رہا آپ ﷺ کا قول ” بعض علم جہل ہوتا ہے ” تو وہ اس طرح کہ عالم بعض ایسی باتیں بھی اپنے علم میں ملانے کی کوشش کرتا ہے ، جو اس کے علم میں نہیں ۔ چنانچہ یہ چیز اسے جاہل بنا دیتی ہے ۔ اور رہا آپ کا قول ” بعض اشعار حکمت ہوتے ہیں ” اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں کچھ ایسی نصیحتیں اور مثالیں ہوتی ہیں ، جن سے لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں ۔ رہا آپ کا قول کہ ” بعض باتیں بوجھ ہوتی ہیں ” تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنی بات یا اپنی گفتگو ایسے شخص کے سامنے پیش کرو جو اس کا اہل نہ ہو یا وہ اس کا خواہاں نہ ہو ۔
( سنن أبی داؤد ٬ کتاب الادب ٬ باب ما جاء فی الشعر ٬ رقم الحدیث : 5012 ٬ ص : 784 ٬ مطبوعہ : دار الکتب العلمیہ ٬ بیروت )
استاذ الشعراء ٬ کامل الفن حضرت علامہ مفتی سید شاکر حسین سیفؔی دام ظلہ العالی ( صدر شعبۂ افتا دار العلوم محبوبِ سبحانی ٬ کُرلا ٬ ممبئی ) کی شخصیت علمی و ادبی حلقے میں محتاجِ تعارف نہیں ۔ آپ جامعِ علوم و فنون ٬ ممتاز عالمِ دین اور فقہ و افتا کے اصول و مبادی پر عقابی نظر رکھنے والے فقیہ و مفتی ہیں ۔ ایک طویل عرصے سے دار العلوم محبوبِ سبحانی ٬ کُرلا ٬ ممبئی میں درس و تدریس اور فتویٰ نویسی کی خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ مذہبیات کے علاوہ ادبیات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں ۔ شاعری ان کی گھٹی میں پلا دی گئی ہے ۔ شاعری اور بالخصوص نعت گوئی میں مہارت و حذاقت رکھتے ہیں اور بلند پایہ استاذ شاعر کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں ۔ جدت طرازی ان کی نعت گوئی کا معتبر حوالہ ہے ۔ نعت جیسی مشکل صنف میں انہوں نے اپنی انفردایت کا لوہا منوایا ہے ۔ راقم الحروف انہیں دورِ حاضر کا ” محسن کاکوروی ” خیال کرتا ہے ۔ زیرِ نظر تحریر میں جناب سید شاکر حسین سیفؔی کی نعتیہ شاعری کے کچھ نمایاں خد و خال واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
موضوع کی وسعت اور اس کا تنوع فن کی وسعت و ہمہ گیری کو ظاہر کرتا ہے ۔ نعت گوئی کو جملہ اصنافِ سخن میں تقدّس و تفوّق کے ساتھ تنوّع کا درجہ بھی حاصل ہے کہ نعت گوئی محبوبِ رب العالمین ٬ امام الانبیا و المرسلین ﷺ کی مدح و ثنا سے عبارت ہے اور آپ کے فضائل و کمالات بیشمار ہیں ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نعت گوئی ایک وسیع فن اور وسیع میدان ہے ٬ جس کی وسعت و رفعت کے آگے قوتِ متخیلہ بھی اپنا دم توڑتی نظر آتی ہے ۔ اسی طرح نعت گوئی حد درجہ حزم و احتیاط کی متقاضی ہے ٬ اس لیے اس کی فضا تنگ ٬ خطرات آمیز اور اس میں طائرِ فکر و خیال کا اڑان بھرنا نہایت دشوار ہے ۔ اسی حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے نعتیہ ادب کے ممتاز محقق ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق لکھتے ہیں :
نعت گوئی کا میدان وسیع بھی ہے اور تنگ بھی ۔ وسیع اس لحاظ سے کہ ممدوح کے فضائل جس قدر بے حد و حساب ہوں گے ٬ شاعر کر اسی قدر موضوع کی وسعت ہاتھ آئے گی اور اس کے تخیل کی بلند پروازی کا سامان ہو سکے گا ۔ یہاں شاعر حسن و خوبی پیدا کرنے کے لیے مبالغہ کی زحمت سے بھی بچ جاتا ہے اور پھر جہاں منعوت ( ممدوح ) کے فضائل مبالغے کے حدود سے آگے گزر گئے ہوں ٬ وہاں تخیل کی بلند ترین پرواز کو بھی کمالِ ممدوح سے پس ماندہ ہونا پڑتا ہے ۔ فضائل نبوی کے بیان میں شاعر زمین سے پرواز کر کے افلاک کی سیر کرتا ہے ۔ وہ ستاروں سے آگے گزار کر مقام مصطفائی کا مشاہدہ کرتا ہے ٬ یہاں تک کہ تمام افلاک اس کے تخیل کی زد میں آجاتے ہیں اور اب وہ اپنے ممدوح کو عرش و کرسی پر جلوہ فرما پاتا ہے ۔ اس لحاظ سے نعت گو شاعر کو طبع آزمائی کے لیے ایک وسیع میدان ہاتھ آتا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ وہ نقاد کی دسترس رس سے بھی باہر رہتا ہے اور اپنے معتقدات کو سپر بناتے ہوئے ہر تنقید سے کامیاب گزر جاتا ہے ۔ یہ میدان تنگ اس لحاظ سے ہے کہ با وجود اس فضا کی کشادگی اور وسعتِ تخیل کے ٬ حوصلوں کو اس بلندی کا ساتھ دینا بڑا مشکل ہو جاتا ہے ۔ اس کے لیے شاعر میں گوناگوں صلاحیتوں کا پایا جانا ضروری ہے ۔ اس لیے کہ یہ فقط عشق و محبت کی داستان نہیں ہے ٬ جس کے راگ کو جس نے جیسا چاہا الاپ لیا ۔ در اصل نعت گوئی ایک ایسے ممدوح کی مدح ہے جس کی بارگاہ میں مبالغہ قربتِ ممدوح کا وسیلہ نہیں بن سکتا ہے اور نہ یہاں اس بیان کو باریابی حاصل ہے جو صادق البیانی کی ترجمانی سے محروم ہے ۔ پھر صدق و صفا کی زندگی کو سجھنے کے لیے صدق و صفا کی حقیقت اور اس کی کیفیت کو قلب و نظر میں بسائے بغیر بھی کام نہیں چلتا ۔ غرض کہ حقیقت محمدی ﷺ کو سمجھ کر ان کے مرتبہ کا بیان علم ٬ فضل ، بصیرت اور شاعرانہ صلاحیت چاہتا ہے اور ظاہر ہے کہ ان فضائل کا ایک جگہ جمع ہونا آسان نہیں ہے اور انجام کار نعت کے موضوع سے عہدہ برآ ہونا بھی مشکل ہے ۔
( اردو میں نعتیہ شاعری ٬ ص : 55 ٬ 56 ٬ ناشر : اردو اکیڈمی ٬ لاہور )
سید شاکر سیفؔی کی نعتیہ شاعری میں زبان و بیان کے لحاظ سے وہ سارے اعلیٰ ادبی محاسن اور ادیبانہ کرّ و فر موجود ہیں ، جو کسی قادر الکلام شاعر کا لازمہ ہیں ۔ ان کی شاندار اور پائدار شاعری میں جذبات کا والہانہ پن ، شیفتگی و ربودگی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حرارت دلوں کو پگھلاتی ہے اور قارئین کو مسحور کر دیتی ہے ۔ یہ اشعار دیکھیں اور ان کے شاعرانہ کرّ و فر کا تماشا دیکھیں :
ظلمتِ جبر مٹے ، ظلم کا شیشہ پھوٹے
اُن کی ہر بات سے رحمت کا اجالا پھوٹے
ذکر سے اُن کے معطر ہو مشامِ ایماں
ہر گلِ نعت سے خوشبوئے دل آرا پھوٹے
شجَرِ دل پہ لگیں جس سے تجلی کے ثمر
اتباعِ شہِ خوباں سے وہ دھارا پھوٹے
ضربِ موسیٰ سے اُگل دیتا ہے پتھر ٬ پانی
گر وہ چاہیں تو کفِ دست سے چشمہ پھوٹے
التجا آپ سے اے جانِ بہاراں ! ہے یہی
باغ مہکے مرا ، دیدار کا غنچہ پھوٹے
یا نبی خیر سے تابندہ رہے موجِ عمل
نُطق سے قوم کی اصلاح کا سوتا پھوٹے
آپ کے صدقے رہے عفو و کرم کا پردہ
لاج رہ جائے قیامت میں نہ بھانڈا پھوٹے
کر حفاظت کہ نہ بہ جائے بھلائی اے دل
کبھی ہر گز نہ یہ ایمان کا کوزہ پھوٹے
لذتِ سوزِ جگر کی ہے تمنا سیفؔی !
بربطِ لب سے کوئی عشق کا نغمہ پھوٹے
مذکورہ بالا کلام میں ” ایمان کا کوزہ پھوٹنے ” کی ترکیب کس قدر معنی خیز ہے ۔ نیز اردو کے مشہور محاورہ ” بھانڈا پھوٹنا ” کو جس شاعرانہ مہارت کے ساتھ نعتیہ شعر کی لڑی میں پِرویا گیا ہے ٬ وہ شاعر کی بالغ نظری اور ادبی بالا دستی پر دال ہے ۔
تخیّل ایک زبردست دماغی ریاضت اور فنکارانہ عمل ہے ۔ جہاں تک رسائی کے بعد غور و فکر کی پرواز ختم ہو جاتی ہے ، تخیّل وہاں سے اپنا سفر شروع کرتا ہے ۔ ذہانت و طبّاعی اور گہری بصیرت رکھنے والے شاعر ہی کے دماغ میں تخیّل اپنا بسیرا کرتا ہے ۔ تخیّل ، حشر انگیز خیالات کا نقشہ اس وقت پیش کرتا ہے جب کہ شاعر دانا و بینا ، عالی دماغ اور جہاں دیدہ شخص ہو ۔ زندگی کے رموز و اسرار سے واقفیت کے ساتھ کائنات کا وسیع مطالعہ رکھتا ہو ۔ تخیّل کی ڈور مشاہدات و تجربات سے بندھی ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تخیّل بالعموم گہرے مشاہدات اور وسیع تجربات کے بطن سے جنم لیتا ہے ۔ راقم الحروف کی محدود نگاہ کی جہاں تک رسائی ہو سکی ہے ٬ سید شاکر سیفؔی کی نعت گوئی میں دو بڑی خصوصیت ایسی ہے جو انہیں معاصر نعت گو شعرس سے ممیز و ممتاز کرتی ہے اور وہ ہے : رفعتِ تخیل اور جدّتِ اسلوب ۔ اس وقت سیفؔی صاحب کا شمار جدّت طراز شعرا میں ہوتا ہے ۔ ان کے تقریباً سارے کلام جدت و ندرت سے مرصع و آراستہ ہوتے ہیں ۔ جدّت و ندرت اچھی چیز ہے ٬ لیکن اس سے روایت و درایت اور اصولِ فن کا خون نہیں ہونا چاہیے ۔ سیفؔی صاحب قادر الکلام شاعر ٬ ماہرِ ادبیات اور مایۂ ناز عالم و مفتی ہیں ٬ اس لیے وہ اپنے کلام میں بڑی مہارت کے ساتھ جدت و ندرت کا رنگ چھڑکنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ یہ کلام دیکھیں اور ان کی بلاغت آشنا فکر اور جدت طراز طبیعت کا کرشمہ ملاحظہ کریں :
تکتا ہے کھڑا اے شہِ خوباں ترے آگے
ہے دیدۂ حیرت مہِ تاباں ترے آگے
سب کاسہ بکف ہیں تری سرکارِ ضیا میں
کیا ہیں یہ ستارے دُرِ دنداں تیرے آگے
اک غمزۂ وَ الشّ٘مس ترا مصحفِ رخ ہے
سورج ہے خطِ شرحِ درخشاں ترے آگے
وَ اللَّیل نے کیا خوب سنوارے ترے گیسو
ہے خیر طلب کاکُلِ حوراں ترے آگے
آنکھیں ہیں تری سرمۂ مَا زَاغ سے روشن
ہے وسعتِ دنیا کفِ لمعاں ترے آگے
کافی ہے دمِ تیغۂ ابرو کا اشارہ
کیا شے ہے غمِ دہر کا زنداں ترے آگے
نازاں تھے زباں پر جو سرَ افرازِ فصاحت
ہیں جانِ سخن ! سر بہ گریباں ترے آگے
اے رازِ بقا ! آبِ وضوئے شہِ لولاک
کیا ڈھونڈے کوئی چشمۂ حیواں ترے آگے
ہم کو ہو عطا صدقۂ بلقیسِ شفاعت
یہ عرض ہے جنت کے سلیماں ترے آگے
سیفؔی کو میسر ہو تری بزمِ رَأَی الحق
ہو نغمہ سرا تیرا ثنا خواں ترے آگے
طلعتِ خورشید بھی اک پرتوِ اشراق ہے
تیرا ہی جلوہ مُحِیطِ وسعتِ آفاق ہے
لرزہ خیزِ قلعۂ آزر ہے رعدِ لا الہٰ
برقِ باطل سوز تیرا کلمۂِ اِحقاق ہے
تجھ سا تابندہ نہیں چرخِ جمالِ دہر میں
کوکبِ ختمِ نبوّت ! حسن تیرا طاق ہے
تیرے بام و در کی جانب ہے نگاہِ ماہتاب
وہ بھی مدت سے ترے دیدار کا مشتاق ہے
تیری سیرت تا قیامت اک درخشندہ نصاب
زندگی کا ہر ورق مجموعۂ اسباق ہے
جس کی خوشبو سے معطر ہے مشامِ خلد بھی
وہ ترے باغِ شِیَم کا ہر گلِ اخلاق ہے
مسکرا کر لوٹ لیتی ہے متاعِ آخرت
ان کا بَن سیفی یہ دنیا اک حسیں قزّاق ہے
اس مختصر تحریر میں سید شاکر سیفؔی صاحب کی بلند پایہ شاعری اور ان کی دھنک رنگ نعت گوئی کے سارے جلوؤں کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا ۔ یہاں معاملہ اس شعر کے مصداق ہے :
شکارِ ماہ کہ تسخیرِ آفتاب کروں
کسے میں ترک کروں کس کا انتخاب کروں
سرِ دست اتنا جان لیں کہ سید شاکر سیفؔی کی نعت گوئی میں ایمان و عقیدہ کی حرارت ، عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حلاوت ، سرکار علیہ الصلاۃ و السلام کی ذاتِ بابرکات سے والہانہ عقیدت و شیفتگی ، محبّتِ رسول کی فراوانی و سرمستی اور کامل ربودگی کے ساتھ فکر کی گہرائی ، فن کی رعنائی اور ادب کی چاشنی نگاہِ ادب کو خیرہ کرتی ہے ۔ ان کی نعتیہ شاعری میں موضوعاتی تنوع اور مضامین کی وسعت بھی پائی جاتی ہے ۔ اردو ادب کے ناقدین و محققین جو نعتیہ شاعری کو نظر انداز کر کے تعصب و تنگ نظری کا فکری و عملی ثبوت دیتے ہیں ٬ انہیں سید شاکر سیفؔی کے سینکڑوں نعتیہ اشعار دعوتِ دید و شنید دیتے ہیں ۔ ان کے نعتیہ کلام میں وہ ساری ادبی خوبیاں موجود ہیں ٬ جو کامیاب اور پائدار شاعری کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہیں ۔ موصوف کسی بھی فکر و خیال کو فن کے جلوؤں سے آراستہ کر کے پیش کرتے ہیں ۔ سیفؔی صاحب کا اعجازِ فکر و فن ملاحظہ کریں :
تجلّیِ شہِ خوباں سے آشنا کر دے
نگاہ کو رخِ جاناں سے آشنا کر دے
جمالِ نعت کے اسرار خوب روشن ہوں
رموزِ مدحتِ قرآں سے آشنا کر دے
ڈبو دے قرب کے دریا میں کشتیِ ہستی
مجھے بھی عشق کے طوفاں سے آشنا کر دے
فنا کے بحر کا غوّاص میں بھی ہو جاؤں
بقا کے گوہرِ تاباں سے آشنا کر دے
طیورِ معرفتِ حق جہاں چہکتے ہیں
خرد کو ایسے گلستاں سے آشنا کر دے
جو دل کو نور دے ، ذوقِ عمل کو تابانی
اُسی چراغِ فروزاں سے آشنا کر دے
شبِ حیات کو حسنِ عمل کا دے سورج
طلوعِ صبحِ درخشاں سے آشنا کر دے
مٹا دے ! خارِ غمِ روزگار کی تلخی
حلاوتِ گلِ ایماں سے آشنا کر دے
سدا یوں مہکے زمانے میں لالہ زارِ سخن
گلوں کو لہجۂ حسّاں سے آشنا کر دے
مٹا دے فتنہ گروں کے غرورِ باطل کو
لوائے غلبۂ حق جا بجا عیاں کر دے
مری اداؤں سے بھی نکہتِ وفا پھوٹے
مرے عمل کو محبت کا ترجماں کر دے
مئے الست سے مسرور ہو دلِ سیفؔی
شرابِ جلوۂ عرفاں سے آشنا کر دے
معنی اور معنویت میں زمین آسمان کا فرق ہے جو اہلِ نظر سے مخفی نہیں ۔ ہر نظم و نثر معنی کے ساتھ معنویت سے بھی مرصّع ہو ٬ یہ کوئی ضروری نہیں ۔ ہر ادبی متن معنی کا حامل ہے ٬ مگر ہر ادبی متن معنویت بھی رکھتا ہو ، یہ لازم نہیں ۔ معنی ہر قسم کے ادب اور فن پارے کے لیے شرط ہے ، اس کے بغیر ادب وجود ہی میں نہیں آ سکتا ۔ جب کہ معنویت ایک اضافی شے ہے اور غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے ۔ جن ادب پاروں میں فقط معنی ہوں ، ان کی جگہ محض ادب کی تاریخ میں ہوتی ہے ۔ وہ اپنے زمانے میں کچھ دیر کے لیے پڑھے جاتے ہیں ، پھر طاقِ نسیاں کی نذر ہوجاتے ہیں ۔ البتہ جن فن پاروں میں معنی و معنویت دونوں ہوں ، ان کا مقام و مرتبہ ادب کی تاریخ اور لوگوں کے حافظے میں موجود و محفوظ رہتا ہے ۔ سید شاکر حسین سیفؔی ایک بلاغت آشنا شاعر ہیں ٬ ان کے فکر و فن میں معنی اور معنویت دونوں ایک ساتھ اپنا سفر طے کرتے ہیں ۔ ان کے مجموعۂ کلام سے کسی بھی ایک نعت کو اٹھا لیجیے اور پھر اس میں ” معنی و معنویت ” کے حسین امتزاج کا اور رنگین اسلوب کا تماشا دیکھیے ۔ مثلاً :
صدیوں سے اہلِ دل نے کیا کیا خیال باندھے
لفظوں میں کب بندھا ہے اُن کا جمال باندھے
اُس در پہ آرزو تھا بیتاب جلوۂ رخ
لیکن ادب کھڑا تھا دستِ سوال باندھے
رخسارِ زندگی کو جب زلفِ غم نے چھیڑا
یادِ نبی سے ہم نے یہ بکھرے بال باندھے
اُس گل کی دستگیری کام آئی بلبلوں کے
صیاد نے تو لاکھوں عصیاں کے جال باندھے
وہ آہُوان شوقِ دل اُس کے بے خطر ہیں
جس نے حصارِ دیں میں دل کے غزال باندھے
جام ِ سخن میں اُن کے شہدِ کشش تھا ایسا
آتے تھے آستاں پر شیریں مقال باندھے
جن کے دُرِ دنداں پہ نچھاور ہیں ستارے ٬ سرکار ہمارے
مہتاب کو پابند کریں جن کے اشارے ٬ سرکار ہمارے
چہرہ ہے کہ قران کا پُر نور ورق ہے ٬ خورشید بھی فق ہے
جن پر ہیں فدا صبح کے تابندہ نظارے ٬ سرکار ہمارے
اسلوب کی ندرت پہ شبِ قدر ہے قرباں ٬ راتیں ہیں غزل خواں
کیا غمزۂ و اللیل نے گیسو ہیں سنوارے ٬ سرکار ہمارے
سید شاکر حسین سیفؔی کے لا فانی کلام میں ” تغزل ” کا ایک زرّیں سلسلہ نظر آتا ہے ۔ تغزّل ٬ غزل کی جان ہے اور نعتیہ شاعری میں بھی اسے محمود و مستحسن سمجھا جاتا ہے ٬ بشرطیکہ اسے سلیقے سے باندھا جائے ۔ راقم الحروف کو سیفؔی صاحب کے کلام کے سرسری مطالعہ کے دوران بہت سارے تغزل آمیز اشعار نظر آئے ٬ جنہیں نمونتاً یہاں پیش کیے جاتے ہیں :
چمن چمن مسکرائے غنچے ، خزاؤں کا سر قلم کیا ہے
بہارِ حسن محمدی نے دلوں کو رشکِ ارم کیا ہے
کسی کا ظلّ کرم ، مہربان لگتا ہے
قریب تر کوئی مجھ سے ہر آن لگتا ہے
یہ کس کی جلوہ نمائی ہے خلوتِ دل میں
چراغِ رخ سے منور مکان لگتا ہے
روشن آئینے ہیں سیّاروں کے
واہ جلوے ترے رخساروں کے
یاد ہے تیرے تبسم کی ادا
پھول قربان ہیں گلزاروں کے
کاش ! مل جائے جو خوشبو تیری
ہوش اُڑ جائیں گے عطّاروں کے
تیری آنکھوں سے پیا جامِ الست
کیا نصیبے ! ترے میخواروں کے
آبروئے سخن سید شاکر سیفؔی صاحب بادۂ عشقِ رسالت کے متوالے اور تیغِ نگہِ جمالِ محمدی کے قتیل ہیں ۔ عشقِ رسول ؔﷺ کا جامِ لبالب نوش کرنے کے بعد ان کو ہر طرف عشق و وارفتگی کا جلوہ نظر آتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ” فنا فی النعت ” بن کر بربطِ سخن پر نعت کا مسحور کرنے والا نغمہ بڑے شوق سے چھیڑتے ہیں اور اپنے ممدوح ( جو کہ محبوبِ رب العالمین اور ممدوحِ کائنات بھی ہیں ) کی توصیف و ثنا بیان کر کے اپنے قلبِ مضطر کی آسودگی کا سامان مہیا کرتے ہیں ۔ اس میں دو رو رائے نہیں کہ سیفؔی صاحب ” فنا فی النعت ” ہیں اور نعت گوئی سے ان کا بڑا گہرا رشتہ ہے ۔ وہ رسمی نعت کے قائل نہیں ٬ بلکہ مقصدی نعت کے قائل ہیں ۔ نعت گوئی ان کا مقصدِ حیات اور مآلِ زندگی ہے ۔ انہوں نے اب تک سینکڑوں نعتیں کہی ہیں ۔ اس فن سے ان کی ذہنی اور فکری وابستگی ان کے ہر کلام سے ظاہر ہوتی ہے ۔ مقصدی ادب اور مقصدی نعت کے حوالے سے یہ اقتباس ملاحظہ کریں ۔ ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق لکھتے ہیں :
مقصدی شاعری ہی حقیقت میں زندگی کی آئینہ دار ہوتی ہے ۔ اس کا لازوال جذبہ زندگی کو حرکت عطا کرتا ہے ۔ اس کا نغمہ دل کی گہرائیوں سے خلوص لے کر بلند ہوتا ہے ۔ وہ قلوب سے ٹکرا کر آوازِ بازگشت پیدا کرتا ہے اور اپنی کیفیت کے تاثرات چھوڑتا ہوا زندگی کے لیے دوامی بقا کا سامان مہیا کرتا ہے ۔ حقیقت میں اس کو حق و صداقت کی آواز سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ یہ کلام ( مقصدی شاعری ) ” ان من البیان لسحرا ” ہی کا نمونہ نہیں ہوتا بلکہ ” ان من البیان لحکمة ” کا بھی اس پر اطلاق ہوتا ہے ۔ اسی طرح شعر جب مقصدی بن جاتا ہے تو وہ اپنی ہر لَے میں کسی نہ کسی طور پر اس تصور حیات کی ترجمانی کرتا ہے ، جو اس کا مقصود ہے ۔ وہ زندگی پر نہایت گہرا اثر چھوڑتا ہے ۔ پوشیدہ صلاحیتوں کو حوصلہ بخشتا ہے اور جمالی جذبات کو ابھار کر انہیں زندگی کی تعمیر میں لگاتا ہے ، جہاں اس کا ظاہری حسن دلوں کو کھینچتا ہے ، وہاں وہ روحانی اور اخلاقی معلم بن کر مقدّرات کو بدل دیتا ہے ۔ حقیقت میں مقصدی شاعری کی یہی خدمت زندگی کی پراگندگی کو دور کر سکتی ہے ۔
( اردو میں نعتیہ شاعری ، ص : 61 ، اردو اکیڈمی ، سندھ ، کراچی )
مقصدی ادب کے حوالے سے اوپر جو مفہوم بیان کیا گیا ٬ مقصدی نعت کا بھی کچھ یہی معنی و مفہوم ہے ۔ سید شاکر سیفؔی کی نعت گوئی میں مقصدیت غالب ہے اور اس فن سے ان کی شدید قلبی وابستگی ان کے ہر کلام سے عیاں ہے ۔ یہ کلام دیکھیں اور ان کی مقصدی نعت گوئی کا اندازہ لگائیں :
اے غزل ! ساغر اُٹھا لے نعت کے
مستیِ فن کر حوالے نعت کے
کہتی ہے دھڑکن دلِ تفسیر کی
وَ الضُحیٰ میں ہیں اُجالے نعت کے
آیتِ وَ اللّْیل کا اُسلوب دیکھ
کیا ہی انجم ہیں نرالے نعت کے
خلعتِ انوار ہے اُن کی ثنا
عزتِ فن ہیں دوشالے نعت کے
دل میں جب مہتاب نکلا نعت کا
بن گئے الفاظ ہالے نعت کے
اُن کی خوشبو سے مہک اٹھے گا دل
پھول سینے میں بسا لے نعت کے
لہلہا اٹھی مری کشتِ سخن
جب بھی میں نے بِیج ڈالے نعت کے
روز و شب لکھ کر پئیں اہلِ مرض
وجہِ صحت ہیں غُسالے نعت کے
چاہتا ہے جو ک ہو روشن دماغ
فکر کو سانچے میں ڈھالے نعت کے
یا الہٰی ! بخشے جائیں حشر میں
لکھنے پڑھنے سننے والے نعت کے
عشق ہے مخمور سیفؔی کیوں نہ ہو
میں پلاتا ہوں پیالے نعت کے
سید شاکر حسین سیفؔی دام ظلہ العالی صاحب چوں کہ ایک ممتاز درس گاہی عالمِ دین اور مسندِ افتا کو زینت بخشنے والے مایۂ ناز مفتی ہیں ٬ اس لیے ان کی فکر میں بلندی اور فن میں پختگی پائی جاتی ہے ۔ اپنے گہرے علم و شعور کی روشنی میں نئی نئی فکر اور نوع بنوع خیال چن چن کر لاتے ہیں اور نگینے کی طرح انگشتِ سخن میں جڑ دیتے ہیں ٬ جس کی صناعی اور حسن و جمال دیکھ کر قاری و سامع دنگ رہ جاتے ہیں ۔ وہ شاعری یا نعت گوئی کو تفریحِ طبع کا ذریعہ نہیں سمجھتے ٬ بلکہ ایک مقصد کے تحت طبع آزمائی فرماتے ہیں اور وہ مقصد ہے عشقِ رسالت مآب ﷺ کا فروغ و استحکام اور ممدوحِ کائنات ﷺ سے اپنی گہری عقیدت و نیاز مندی کا ثبوت ۔ آپ نے اپنے ایمانی و عرفانی عشق کا ثبوت فکری و عملی سطح پر دیا ہے اور بڑی کامیاب نعتیہ شاعری کی ہے ۔ آپ کی شاعری مقصدیت سے ہم آہنگ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں رسم و روایت سے زیادہ فکر و درایت کا عنصر غالب ہے ۔ یہ نعتیہ کلام دیکھیں کہ اس میں کس قدر تخیل کی بلندی ٬ معنی کی گہرائی اور اسلوب کی چاشنی و طرفگی پائی جاتی ہے :
مرے الفاظ بحرِ نعت میں جب ڈوب کر نکلے
تو مثل انجمِ تاباں درخشندہ گہر نکلے
مہک اٹھی ہے تقدیرِ چمن اُن کے پسینے سے
امینِ راز خوشبوئے نبی گلہائے تر نکلے
جمالِ و الضحیٰ سے جب اُٹھا اسرار کا پردہ
تو اُن کے حسن کی تفسیر انوارِ سحر نکلے
ضیائے حُسنِ دنداں پر فروغِ کہکشاں قرباں
تراشے اُن کے ناخن کے سدا رشکِ قمر نکلے
سحابِ لطف سے اُن کے ہوئی جب بارشِ رحمت
درختِ ہجر سے بھی وصلِ جاناں کے ثمر نکلے
فضائے لا مکاں تک قوتِ پرواز اُن سے ہے
طیورِ آگہی کو معرفت کے بال و پر نکلے
غموں کےخار بھی گلہائے فرحت بن کے مہکیں گے
اگر یادِ نبی موجِ نفس کی ہم سفر نکلے
ھو الباطن کا جلوہ تھا نگاہوں سے رہے مخفی
شبِ ہجرت صفِ اعدا سے جب وہ بے خطر نکلے
فصاحت دم بخود ہے اُن کے اعجازِ تکلُّم پر
لُٹا کر تاج قدموں پر سخن کے تاجور نکلے
زمانے میں اجالوں کی ہوا چلنے لگی سیفی !
بہارِ نور سے ہر سو ہدایت کے شجر نکلے
شعر کا اصل حسن خیال کی پختگی اور تخیل کی بلند پروازی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کامیاب شاعری کے لیے تخیّل اور محاکات کی آمیزش جزوِ لا ینفک کا درجہ رکھتی ہے ۔ الفاظ اور معانی کے درمیان وہی رشتہ ہے جو جسم اور روح کے درمیان ہے ۔ الفاظ بمنزلۂ جسم اور معانی بمنزلۂ روح ہیں ۔ خوب صورت جسم پر خوب صورت پوشاک بھلی معلوم ہوتی ہے ۔ شعر اسی وقت عمدہ ، معیاری اور شعریت و نشتریت سے لبریز ہوتا ہے ٬ جب اس کے الفاظ موزوں ، وقیع اور متناسب ہوں ۔ خیالات پاکیزہ ہوں ۔ تخیل اعلیٰ درجے کا ہو ۔ افکار تازہ اور ذہن و فکر کو اپیل کرنے والے ہوں ۔ مقامِ شکر و اطمینان ہے کہ سید شاکر سیفؔی کے نعتیہ کلام میں یہ سارے محاسن و خصوصیات موجود ہیں ۔ ثبوت کے لیے موصوف کا مندرجہ ذیل کلام ہدیۂ قارئین ہے :
مُحِیطِ حرفِ ثنا کاروانِ رحمت ہے
زمینِ نعت سدا آسمانِ رحمت ہے
مشامِ دل ہے معطّر لطیف خوشبو سے
خیالِ زلفِ نبی عطر دانِ رحمت ہے
امیدِ وصل کی ٹھنڈک ہے غم کے سائے میں
درختِ ہجر بھی اک سائبانِ رحمت ہے
حیات بخش ہیں اُن کی نگاہِ لطف کے تیر
کمانِ ابروئے جاناں کمانِ رحمت ہے
یہاں پہ رہتی ہے پیشانیِ فصاحت خَم
مطافِ حسنِ بلاغت زبانم رحمت ہے
ملی ہے نورِ تبسم سے گمشدہ سوئی
جمالِ خندہ لبی کہکشانِ رحمت ہے
یہی ہے عالمِ انسانیت کی جائے اماں
” حضور ! آپ کا اُسوہ جہانِ ِرحمت ہے "
فلک سے کرتے ہیں مہر و مہ و نجوم طواف
جہاں کا قبلۂ دل آستانِ رحمت ہے
گلِ نویدِ شفاعت ہے زائروں کے لیے
نشانِ خلدِ بریں ارمغانِ رحمت ہے
بہارِ یادِ نبی مشکبار ہے سیفؔی !
ہمارا باغِ سخن بوستانِ رحمت ہے
خوب صورت فکر کو خوب صورت لہجہ اور دلنشیں اسلوب مل جائے تو شاعری سرحدِ اعجاز کو چھونے لگتی ہے ۔ سید شاکر سیفؔی کے نعتیہ کلام کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کو وہ خوب صورت فکر اور پاکیزہ خیال کو خوب لہجے اور نکھرے اسلوب میں بیان کرتے ہیں ٬ جس سے ان کی شاعری کا حسن دو بالا ہو جاتا ہے ۔ وہ اپنے سارے کلام میں اسی لسانی تکنیک کا استعمال کرتے ہیں ۔ کچھ کہتے ہیں ٬ گہرے شعور و فکر کے سمندر میں ڈوب کر کہتے ہیں اور اس کے لیے انوکھا اسلوب ڈھونڈ کر لاتے ہیں ۔ ناقدینِ فن کسی بھی کلام یا شعر کو سب سے پہلے مواد و ہیئت کے لحاظ سے جانچتے ہیں ٬ اس کے بعد دیگر محاسن کی طرف توجہ دیتے ہیں ۔ مواؔد ٬ فکر و خیال اور مضمون و معنیٰ کو کہتے ہیں اور ہیئت ٬ اسلوبِ تحریر ٬ طرزِ بیان اور اندازِ نگارش کو کہتے ہیں ۔ سید شاکر سیفؔی اپنی شاعری میں مواد اور ہیئت دونوں کو کافی چھان پھٹک کر استعمال کرتے ہیں اور ہنر مندی کا ثبوت دیتے ہیں ۔ مندرجہ ذیل کلام حسنِ مواد و حسنِ ہیئت کا خوب صورت آمیزہ ہے ٬ جسے اہلِ ذوق ہی سمجھ سکتے ہیں :
سفرِ ذوقِ نمو جلد شجر تک پہنچے
تخمِ امید مرا برگ و ثمر تک پہنچے
بزمِ ہستی میں سما جائے اجالا بن کر
نغمۂ عشق ہر اک تارِ جگر تک پہنچے
غنچہ و گل ہی نہیں اُن کے تبسم پہ فدا
شوقِ دیدار لیے لعل و گہر تک پہنچے
شامِ ظلمت تھی ، وہ خورشیدِ ہدایت چمکا
قافلے وقت کے تابندہ سحر تک پہنچے
صرف تاروں کو نہیں اُن کے لب و رخ سے نیاز
لینے خیراتِ ضیا شمس و قمر تک پہنچے
رات تھی چھو کے عصا کر دیا اتنا روشن
دو صحابی بڑے آرام سے گھر تک پہنچے
اب بچا لیجیے سیلابِ بلا سے ہم کو
شر کا پانی نہ کہیں قوم کے سر تک پہنچے
ڈھل گیا سیمِ سخن نعت کے زر میں سیفؔی
میرے افکار بھی آغوشِ ہنر تک پہنچے
سید شاکر سیفؔی کے کلامِ بلاغت نظام میں شعر و ادب اور بلاغت کے بہت سارے محاسن پائے جاتے ہیں ۔ ان کی نعتیہ شاعری کے آسمان پر فصاحت ٬ بلاغت ٬ سلاست و روانی ٬ لطافت و نفاست ٬ حسنِ تشبیہ ٬ لطفِ استعارہ ٬ اور صنائع و بدائع کے ماہ و نجوم جگمگاتے ہیں اور نگاہوں کو خیرہ کرتے ہیں ۔ زبان کا حسن ٬ بیان کی خوب صورتی ٬ تخیل کی بلندی ٬ فکر کی گہرائی ٬ معنی کی چاشنی اور اسلوب کی جدّت و ندرت سے ان کا شاید ہی کوئی کلام خالی ہو ۔ عصرِ حاضر کے جدت طراز شعرا میں سے آپ ایک ہیں ۔ علمائے بلاغت نے ” صنعت اقتباس ” کو عروسِ سخن کا درجہ دیا ہے ۔ صنعتِ اقتباس کی آمیزش اور اس کے فنکارانہ استعمال سے کلام کے حسن و دلکشی میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ صنعتِ اقتباسؔ یہ ہے کہ کلام میں قرآنی الفاظ یا حدیث کے ٹکڑے کو بغیر کسی بڑی تبدیلی کے لایا جائے ۔ بعض علمائے بلاغت کے بقرل : صنعتِ اقتباسؔ یہ ہے کہ متکلم اپنے کلام میں قرآن یا حدیث کا کوئی ٹکڑا یا دیگر علوم میں سے کسی علم کے قاعدے کو شامل کرے ۔ پیشوائے نعت گویاں ٬ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی قدس سرہ نے صنعتِ اقتباس کا استعمال کثرت سے کیا ہے ۔ فارسی میں مولانا روم کی مثنوی میں اس کی کثیر مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ حضرت رضاؔ بریلوی کی ” حدائقِ بخشش ” سے صنعتِ اقتباس کی مثال ملاحظہ کریں :
‘ لیلۃالقدر ‘ میں ‘ مطلع الفجر ‘ حق
مانگ کی استقامت پہ لاکھوں سلام
‘ و رفعنا لک ذکرک ‘ کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے ترا ٬ ذکر ہے اونچا تیرا
‘ انت فیھم ‘ نے عدو کو بھی لیا دامن میں
عیشِ جاوید مبارک تجھے شیدائی دوست
ایسا امی کس لیے منت کشِ استاد ہو
کیا کفایت اس کو ‘ اقرأ ربک الاکرم ‘ نہیں
مجرم بلائے آئے ہیں ‘ جاؤک ‘ ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے
سید شاکر سیفؔی کے کلام میں دیگر صنائع و بدائع کے علاوہ صنعتِ اقتباس کی جلوہ طرازیاں بھی خوب ہیں ۔ ان کے مندرجہ ذیل کلام صنعتِ اقتباس کی اچھوتی مثال ہیں ۔ ان دونوں کلام میں بطورِ ردیف قرآن کریم کی مشہور آیات ” و رفعنا لک ذکرک ” اور ” ما زاغ ” کو صنعتِ اقتباس کا حصہ بنایا گیا ہے ۔ علاوہ ازیں مصرعوں کے درمیان بھی دو مقام پر اس صنعت کا نمونہ پیش کیا گیا ہے ٬ جس سے شاعر کی قادر الکلامی اور شعری ہنر مندی عیاں ہوتی ہے :
روشن ہے سمائے وَ رَفَعنا لَکَ ذِکرَک
ہر سُو ہے ضیائے وَ رَفَعنا لَکَ ذِکرَک
‘ لولاک لما ‘ میں بھی ہے یہ نکتۂ پنہاں
عالم ہے برائے وَ رَفَعنا لَکَ ذِکرَک
گر تاجِ ” فترضیٰ ” ہے سرِ نور پہ ان کے
تن پر ہے قبائے وَ رَفَعنا لَکَ ذٍکرَک
ممکن نہیں وہ ذکر مٹے تیرِ جفا سے
جس پر ہو ردائے وَ رَفَعنا لَکَ ذٍکرَک
سیفؔی نہ ہو کیوں میرا ترفُّع پہ ستارہ
میں بھی ہوں گدائے وَ رَفَعنا لَکَ ذٍکرَک
کیا تابِ نظر ہے تری اے دیدۂ ما زاغ
نازل تری توصیف میں ہے آیۂ ما زاغ
کیوں کر نہ فدا نرگسِ فردوسِ بریں ہو
کیا خوب ! سرِ عر ش کِھلا غنچۂ ما زاغ
مشتاق ستارے ہیں تری شمعِ نظر کے
ہے طلعتِ خورشید بھی پروانۂ ما زاغ
بندوں سے تری شانِ بصر کی ہو ثنا کیا
اللہ نے کھینچا ہے حسیں نقشۂ ما زاغ
سرچشمۂِ انوارِ دَنیٰ ہیں تری آنکھیں
حاصل ہے کسے تیرے سوا سرمۂ ما زاغ
چشمانِ نبوت کی عنایات ہیں مشہور
سیفی ! ہے سدا شانِ کرم اُسوۂِ ما زاغ
قافیہ اور ردیف میں بڑی گہری مناسبت ہے ۔ قافیے کا ردیف کے ساتھ مربوط ہونا ضروری ہے ۔ ردیف ٬ قافیہ کے لیے نکیل کسنے کا کام کرتی ہے اور شاعر کو راہِ راست پر رکھتی ہے ۔ آج دیکھا جاتا ہے کہ جدت و ندرت کے نشے میں چور شعرا ڈھونڈ ڈھونڈ کر قوافی نکالتے ہیں اور انہیں زبردستی شعر کے پیٹ گھُسیڑنے کوشش کرتے ہیں اور اس بات کی قطعاً پرواہ نہیں کرتے کہ اردو میں یہ لفظ مستعمل بھی ہے یا نہیں ۔ ابھی حال ہی میں ایک خبطی کو دیکھا گیا کہ اس نے اپنے نعتیہ کلام میں ” الدّ ” کا استعمال کیا ہے ۔ کیا کوئی شخص راقم الحروف کو بتا سکتا ہے کہ اردو کے کسی قابلِ ذکر شاعر نے اس لفظ کو استعمال کیا ہے ۔ شاعری ہو یا نثر نگاری ٬ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس میں روز مرہ زندگی میں استعمال ہونے والی زبان کی پابندی کی جائے ۔ کسی لفظ کا قرآن میں ہونا اور بات ہے اور روز مرہ زندگی میں خیالات کے ابلاغ و ترسیل کے لیے اس کا استعمال اور ہے ۔ سید شاکر سیفؔی جو مجذوب صفت شاکر ہیں اور اب وہ خود کو شاکؔر کے ساتھ بطورِ تخلص ” ساکر ” بھی لکھنے گئے ہیں ٬ شاعری کے میں معاملے میں بڑے حسّاس و درّاک اور فرزانہ واقع ہوئے ہیں ۔ وہ ردیف کو نبھانے کا فن خوب جانتے ہیں اور قافیہ بھی بڑے معنی خیز استعمال کرتے ہیں ۔ ان کی ایک نعتیہ غزل کی ردیف ” گئی ” ہے اور اس کے قوافی ” سچ ” ٬ ” مچ ” ٬ ” رچ ” اور ” لالچ ” وغیرہ ہیں ۔ اس قسم کے نادر الاستعمال قوافی راقم کی نظروں سے پہلی بار گذرے ہیں ۔ موصوف نے اس کلام میں ” پچ ” اور انگریزی لفظ ” ٹچ ” کو استعمال کر کے نہ صرف ردیف کو نبھایا ہے اور اپنے تفننِ طبع کو اجاگر کیا ہے ٬ بلکہ زبان و بیان پر اپنی قدرتِ کاملہ کا ثبوت بھی دیا ہے ۔ لیکن مطلع میں ” لالچ ” کو مذکر استعمال کرنا سمجھ میں نہیں آیا ۔ کلام ملاحظہ فرمائیں :
دل گیا ٬ ارماں گئے ٬ لالچ گئی
خیر سے جاں مشکلوں سے بچ گئی
آرہے ہیں وہ تصور میں مرے
خوشبوؤں کی دھوم ہر سو مچ گئی
اُن کی صورت سے حسیں صورت نہیں
جو نظر میں جچ گئی سو جچ گئی
وہ بہارِ جاں فزا ہیں ، دیکھیے
وہ گئے گلشن کی رونق سچ گئی
بِک نہیں سکتا کہیں وہ دہر میں
اُن کی بیعت جس کے دل میں رچ گئی
یادِ جاناں سے ملی وہ تقویت
بات ہر اک غم کی دل میں پچ گئی
غنچہ ہائے نعت سیفؔی کِھل اُٹھے
جب نسیمِ فیض کر کے ٹَچ گئی
خلاصۂ کلام یہ کہ سید شاکر حسین سیفؔی کا کلامِ بلاغت نظام فکر و فن ، عشق آمیز جذبہ و احساس ٬ رفعتِ تخیل ، اوجِ خیال ٬ معنوی گہرائی ، حسنِ زبان و بیان ، فنی گیرائی و گہرائی ، جدتِ ادا ، دلکش پیرایۂ اظہار ، حسنِ کلمہ و کلام ، فکر انگیز تشبیہات ، لطیف استعارات اور صنائع لفظی و معنوی جیسے شعری و فنی محاسن سے آراستہ ہے ۔ ان کی نعتیہ شاعری کا تفصیل سے تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ سیفؔی صاحب کے فکر و فن کا دیانت داری کے ساتھ جائزہ نہ لینا اور ان کی شعری و ادبی مہارتوں کو نظر انداز کرنا ٬ بڑی نا انصافی کی بات ہوگی ۔ اللہ رب العزت ان کے فکر و فن میں مزید توانائی و پختگی عطا فرمائے اور ان کا خورشیدِ اقبال یوں ہی چمکتا دمکتا رہے ۔ آمین !
ازقلم: طفیل احمد مصباحی