علم، وہ نورِ ربانی ہے جو قلوب کو منور کرتا ہے، سینوں کو وسعت بخشتا ہے، ارواح کو جِلا دیتا ہے اور انسان کو معراجِ انسانیت تک پہنچا دیتا ہے۔ یہی علم انسان کو دنیا و آخرت میں کامیابی عطا کرتا ہے، اور یہی وہ دولت ہے جس کے سبب اہلِ علم کو انبیائے کرام علیہم السلام کا وارث قرار دیا گیا۔ علماء، دینِ حق کے نمائندے اور امت کے رہنما ہوتے ہیں، جن کے علم و عمل سے اقوام کی تقدیریں سنورتی ہیں۔
لیکن افسوس! جب یہی علم روحانی تربیت سے خالی ہو جائے، دل کو پاکیزگی نہ دے، اور نفس کی اصلاح نہ کرے، تو وہ نور ہونے کے بجائے آزمائش بن جاتا ہے۔ پھر یہی علم حسد، ریا، تکبر اور باہمی رقابت کا سرچشمہ بن کر رہ جاتا ہے، اور بجائے اس کے کہ انسان کو قربِ الٰہی کی طرف لے جائے، وہ اسے فتنہ و فساد کی طرف لے جاتا ہے۔
فقیہِ ملّت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ علیہ نے امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ کی تفسیر کبیر سے ایک نہایت عمیق نکتہ نقل فرمایا۔ وہ فرماتے ہیں:
"دنیا ایک حسین و دلکش باغ ہے، جس کی زینت پانچ خصلتوں سے ہے: علماء کا علم، حکام کا عدل، عابدوں کی عبادت، تاجروں کی دیانت، اور پیشہ وروں کی خیرخواہی۔ مگر ابلیس نے ان خوبیوں کے پہلو بہ پہلو پانچ شیطانی جھنڈے نصب کر دیے؛ علم کے ساتھ حسد، عدل کے ساتھ ظلم، عبادت کے ساتھ ریا، دیانت کے ساتھ خیانت، اور خیرخواہی کے ساتھ ملاوٹ!”(تفسیر کبیر، ج: 1، ص: 276)
یہی وہ زہریلا جھنڈا ہے جس نے آج اہلِ علم کی صفوں میں ایک خطرناک فتنہ برپا کر رکھا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک عالم دوسرے عالم سے، استاد اپنے شاگرد سے، اور شاگرد اپنے استاد سے حسد کا شکار ہو رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ حضرات جو بظاہر زہد و تقویٰ کے بلند مرتبوں پر فائز دکھائی دیتے ہیں، وہ بھی باطنی طور پر شیطانی وسوسوں کی گرفت میں ہوتے ہیں۔ یہ باطنی حسد انہیں اس حد تک لے جاتا ہے کہ وہ اپنے ہی ہم مسلک، ہم عقیدہ اور ہم زبان علماء کی عزت برداشت نہیں کر پاتے، ان پر الزام تراشی کرتے ہیں، ان کی دینی خدمات کو مشکوک بناتے ہیں اور سازشوں کے جال بُنتے ہیں۔
یاد رکھیے! حسد سب سے پہلے ابلیس کے دل میں بھڑکا تھا، جب اس نے حضرت آدم علیہ السلام کے علم، فضیلت اور قربِ الٰہی پر حسد کرتے ہوئے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ ایک لمحۂ حسد تھا، جس نے اسے ہمیشہ کے لیے لعنت کا شکار بنا دیا۔ آج جب کوئی عالم دوسرے عالم کی شہرت، مقبولیت یا علم و عمل کی بلندی سے جلتا ہے، تو وہ درحقیقت ابلیس کے اسی راستے پر گامزن ہوتا ہے۔
حسد محض ایک باطنی کمزوری نہیں، بلکہ علمی، روحانی اور دینی زوال کی جڑ ہے۔ یہ اتحاد کو پارہ پارہ کرتا ہے، محبت کو نفرت میں بدل دیتا ہے، دین کے وقار کو مجروح کرتا ہے اور عوام کے دلوں میں علماء کی عظمت کو گرا دیتا ہے۔ اسی لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"إيّاكم والحسد، فإن الحسد يأكل الحسنات كما تأكل النار الحطب”
"حسد سے بچو! کیونکہ یہ نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ خشک لکڑی کو کھا جاتی ہے۔”(سنن ابو داؤد، حدیث: 4903)
علماء کا منصب اس سے کہیں بلند ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جلن رکھیں۔ علم کا اصل مقصد اللہ ربّ العزّت کی رضا، امت کی رہنمائی، دین کی خدمت اور معاشرے کی اصلاح ہے؛ نہ کہ شہرت، اقتدار اور خودنمائی۔ جب علم سے اخلاص رخصت ہو جائے، اور دل تکبر یا حسد کا مسکن بن جائے، تو وہ عالم رہبر نہیں، فتنہ گر بن جاتا ہے، بلکہ خود فتنہ کی علامت بن جاتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم، بطور اہلِ علم، ایک دوسرے کے ساتھ علمی تعاون، ناصحانہ خیرخواہی، قلبی اخوت اور تحمل و برداشت کا رویہ اپنائیں۔ علم، اگر حسد سے پاک ہو، تو وہ نورِ ہدایت بن جاتا ہے؛ اور دل، اگر محبت و اخلاص سے لبریز ہو، تو وہ رحمتِ الٰہی کا مستحق بن جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں علم کے ساتھ حِلم عطا فرمائے، اخلاص کے ساتھ اخوت، تقویٰ کے ساتھ تحمل، اور دلوں میں ایک دوسرے کے لیے سچی خیرخواہی نصیب فرمائے۔ ہمیں باہمی رقابت، جلن، طعن و تشنیع سے بچا کر اتحاد، محبت، فروتنی اور دینی غیرت کا پیکر بنائے۔
آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ۔
ازقلم: محمد شمیم احمد نوری مصباحی
خادم: دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)