سیاست و حالات حاضرہ

ایٹمی طاقت اور اس کی اہمیت !!

بات جب طاقت کی چلتی ہے تو ایک طبقہ کہتا ہے کہ؛
"Knowledge is power”(علم طاقت ہے)
جب کہ دوسرے طبقے کا کہنا ہے؛
"Power is power” (طاقت ہی طاقت ہے)

ہر ایک طبقے کے پاس اپنے اپنے دلائل ہیں جس سے ان کا مدعا ثابت اور دوسرے طبقے کا رد ہوتا ہے۔طبقہ اول کو لگتا ہے کہ علم ہی سے طاقت حاصل ہوتی ہے، علم نہیں تو طاقت نہیں۔طبقہ دوم کا ماننا یہ ہے کہ طاقت ہی علم کا انتظام و انصرام کرتی ہے جس کے پاس طاقت نہیں وہ آسانی سے علم بھی حاصل نہیں کر پاتا۔بہر حال دونوں ہی طبقات کی بحث خاصی دل چسپ ہے۔اسلامی تاریخ اور سیرت نبوی کے تناظر میں دیکھا جائے تو "طاقت کے ساتھ علم” کا نظریہ زیادہ مضبوط اور زیادہ کارگر ہے۔

علم و طاقت کا یہ تقابل ایران و اسرائیل کی جنگ سے ذہن میں آیا۔جہاں دونوں ہی ملکوں کے پاس تقریباً برابر کی تعلیم ہے لیکن طاقت کا پلّہ اسرائیل کی طرف ذرا زیادہ جھکا ہوا ہے کیوں کہ اسرائیل کے پاس ایٹمی طاقت ہے۔اسی طاقت کی بنیاد پر اسرائیل اور دیگر ممالک بقیہ دنیا پر اپنی چودھراہٹ چلا رہے ہیں۔

ایٹمی طاقت کی اہمیت

دنیا میں تقریباً دو سو ممالک موجود ہیں۔جن میں نو (9) ملکوں کے پاس ایٹمی طاقت ہے۔جس کی بنیاد پر یہ ممالک دوسرے ملکوں کے مقابلے زیادہ طاقت ور مانے جاتے ہیں۔کوئی ملک آسانی سے ان کی طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا، کیوں کہ ان کے پاس اچھی خاصی تعداد میں جوہری ہتھیار موجود ہیں۔جوہری معاملات پر نگاہ رکھنے والے ادارے ایس آئی پی آر آئی Stockholm International Peace Research Institute کی رپورٹ کے مطابق روس اور امریکہ پانچ ہزار سے زائد ہتھیاروں کے ساتھ سر فہرست ہیں۔دنیا کے نوّے فیصد ایٹمی ہتھیار انہیں دونوں کے پاس ہیں۔پانچ سو سے زائد ہتھیاروں کے ساتھ چین تیسرے، 290 ہتھیاروں کے ساتھ فرانس چوتھے، 225 ہتھیاروں کے ساتھ برطانیہ پانچویں نمبر پر ہے۔اس کے بعد 170 تا 180 ہتھیاروں کے ساتھ بھارت اور پاکستان ہیں۔دونوں ملک لگ بھگ برابری پر ہیں۔اس کے بعد تقریباً 90 ہتھیاروں کے ساتھ اسرائیل اور قریب 60 ہتھیاروں کے ساتھ شمالی کوریا موجود ہے۔
مذکورہ ممالک میں سے پانچ ملکوں نے این پی ٹی (Non-Proliferation Treaty) معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں جس کی بنا پر ان کا ایٹمی پروگرام قانونی طور پر تسلیم شدہ ہے۔جب کہ بھارت، پاکستان اور اسرائیل نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں اور شمالی کوریا اس معاہدے سے دست بردار ہوگیا ہے۔

دو بڑے چودھری

امریکہ اور روس دونوں کے پاس نوّے فیصد ہتھیار ہیں اس لیے یہی دونوں ملک دنیا بھر میں اپنی چودھراہٹ کا دعویٰ اور دَم رکھتے ہیں۔کسی زمانے میں تنہا روس سپر پاور تھا اور آج امریکہ اس پوزیشن پر موجود ہے۔نمبر ایک اور نمبر دو کی بحث سے قطع نظر یہ بات ایک دم صاف ہے کہ دنیا واضح طور پر دو حصوں میں بنٹی ہوئی ہے، ایک حصے کی قیادت روس کے ہاتھوں میں ہے جب کہ دوسرے حصے کی چودھراہٹ امریکہ سنبھالے ہوئے ہے۔بقیہ تمام ممالک انہیں دونوں کے بلاک کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔موقع بہ موقع پالے بھی بدل لیے جاتے ہیں، تو کچھ ممالک دونوں سے الگ راہ بھی اختیار کر لیتے ہیں لیکن تیسرا محاذ بہت زیادہ مضبوط بن پایا نہ چل پایا۔لے دے کر سبھی ممالک امریکہ و روس کے ارد گرد ہی ڈولتے ہیں۔دونوں ہی ملکوں کے مابین برتری کی ڈھکی/چھپی ریس بھی جاری رہتی ہے۔براہ راست سامنے آنے سے دونوں ہی کتراتے ہیں، کیوں کہ دونوں ہی برابر کی ایٹمی طاقت ہیں۔بات ذرا بھی ادھر ادھر ہوئی تو ایٹمی طاقت کی بنا پر دونوں ہی ملک بدترین تباہی سے دو چار ہوں گے۔اس لیے تمام تر رقابت/اتار چڑھاؤ کے باوجود جنگ سے پرہیز کیا جاتا ہے۔

ایٹمی طاقت کا اثر

ایشیا میں ہمارے ملک کے علاوہ چین اور پاکستان کے پاس بھی ایٹمی طاقت ہے۔تینوں ہی ملکوں کے درمیان تاریخی رقابت و عداوت ہے اس کے باوجود اگر تینوں ہی ممالک براہ راست تصادم سے پرہیز کرتے ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ تینوں کے پاس ایٹمی طاقت کا ہونا ہے۔کوئی بھی ایٹمی حملے کا خطرہ نہیں اٹھانا چاہتا اس لیے تمام تر کشیدگی اور اٹھا پٹھک کے باوجود معاملات سنبھالنے ہی کو ترجیح دی جاتی ہے۔حالیہ بھارت پاک جھڑپ میں بھی یہی صورت حال پیش آئی جس کے باعث دونوں ہی ملکوں نے سخت ترین کشیدگی کے باوجود حملے کے چوتھے دن ہی جنگ بندی پر متفق ہوگیے۔
شمالی کوریا کی مثال بھی ایٹمی طاقت کی بنیاد پر اہمیت کی حامل ہے۔ایک ایسا ملک جس کی آبادی صرف ڈھائی کروڑ ہے۔براہ راست امریکہ سے سفارتی تعلقات تک نہیں ہیں۔جو امریکہ سمیت مختلف یورپی ممالک کی پابندیاں جھیل رہا ہے لیکن اس کے باوجود بھی شمالی کوریا پر جنگ مسلط کرنے یا اس کو بزور طاقت دبانے کی ہمت امریکہ و یوروپ کسی میں نہیں ہے۔وجہ صرف شمالی کوریا کا ایٹمی پاور ہونا ہے۔یعنی آج کی دنیا میں ایٹمی طاقت ہی آپ کی حفاظت کا یقینی ذریعہ ہے۔اس لیے تعلیم اور ٹکنالوجی میں آگے ہونے کے باوجود جاپان طاقت ور نہیں مانا جاتا۔دنیا کی تمام تر سہولتیں، اچھی سڑکیں، جگمگاتے ہوٹل، سونے کے ٹوائلٹ اور برج خلیفہ جیسی آسمان چھوتی بلند و بالا عمارتوں کے ہوتے ہوئے بھی عرب اور مسلم ممالک امریکہ و یوروپ کے آگے ہاتھ باندھے نظر آتے ہیں، تو اس کی بنیادی وجہ ایٹمی طاقت سے محروم ہونا ہے۔جس کی بنیاد پر امریکہ و یوروپ سے بہرحال بنا کر چلنا ان کی مجبوری ہے۔اگر انہوں نے زیادہ نخرے دکھانے کی کوشش کی تو انہیں ان کی اوقات دکھانے میں امریکہ و یوروپ کو زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
ایٹمی طاقت ہی کی بنیاد پر محض نوّے لاکھ کی آبادی پر مشتمل غاصب ملک اسرائیل سارے عرب ملکوں پر عذاب کی طرح مسلط ہے۔اس کا دل جب چاہے وہ کسی بھی ملک پر حملہ کر دیتا ہے اور مسلم ممالک زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں کر پاتے۔

کاش!!
مسلم حکمرانوں نے قرآن کریم کے اس حکم؛
وَ اَعِدُّوۡا لَہُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّۃٍ(الانفال: 60) کو حرز جاں بنایا ہوتا تو آج مسلم دنیا اس قدر کمزور اور لاچار نہ ہوتی۔سر بہ فلک عمارتیں اور سنگ مرمر سے سجے ہوئے محلات دشمن کا ایک وار نہیں جھیل سکتے۔جب تک مسلم حکمران اس پیغام سے دور رہیں گے دنیا کی نگاہوں میں اسی طرح ذلیل وخوار ہوتے رہیں گے۔

بھنور سے لڑو تند لہروں سے الجھو
کہاں تک چلو گے کنارے کنارے

تحریر: مفتی غلام مصطفےٰ نعیمی ہاشمی
روشن مستقبل دہلی

20 ذوالحجہ 1446ھ
17 جون 2025 بروز منگل

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے