ازقلم: محمد اختر رضا امجدی
متعلم جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو یوپی
ضعفِ ایقان ہے وسوسۂ شیطان، جس کا علاج علم برہانی ہے، کہ اس کے سوا علمِ کے ذرائع عہدِ رواں میں ناپدید ہیں۔ یقین کا کچا شخص ہمیشہ متزلزل، مشتبہ اور یقین و بے یقینی کے مابین ڈانواڈول رہتا ہے۔ کبھی یہی بے یقینی کفر اور شکوک فی الایمان کے دروازوں کو بھی وا کردیتی ہے۔ بہر دو صورت (شک اور بے یقینی) سوائے تحسر و ندامت اور بروزِ قیامت "ویقول الکافر یا لیتنی کنت ترابا” میں یقول کے فاعل کی حیثیت رہ جاتی ہے۔
یقین کے آئینے میں اگر اس درجے کے شک و بے یقینی کا بال آگیا جس کی پاداش کفر ہے، تو خلودِ نار ہی مستقر ہوگا۔ بزعمِ علم و تحقیق یا پھر جہالت کے باوجود عَلم بردارارئ علوم و معارف کرتے ہوئے لوگوں کے ایمان میں شک پیدا کرنے والوں کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا جائے گا۔ افسوس کہ اس دور پرفتن میں اسلام کی زرخیز زمینوں میں کفر کی تخم ریزی کر کے انہیں بنجر بنایا جارہا ہے۔ یہ دور فتنوں کا دور ہے، ایک فتنہ دوسرے فتنے سے یوں لپٹا ہے، کہ بدایت و نہایت کی تمیز بھی دشوار ہوگئی ہے۔ اس دور میں ایمان و ایقان کی حفاظت بڑی ہی دشوار گزار شئی ہے۔
ایک تو شیطان کی پناہ، دوجی فتنوں سے حفاظت، تیسرے فتنہ پردازوں سے اجتناب، بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی۔ اور جس کو کفر کی بے یقینی دھر لے اس کا کوئی علاج نہیں سوائے ایمان کی طرف پلٹ آنے کے۔!
اقبال کہتا ہے۔!
علاجِ ضعفِ یـقیـں ان سـے ہـو نہـیں سکـتا
غریب اگرچہ ہیں رازی کے نقطہ ہائے دقیق
ہر چند کہ امام رازی کی تعلیمات حکمت و دانائی کی آئینہ دار تھیں، اس کے باوجود وہ ان لوگوں کے لیے مفید اور کارآمد نہیں ہو سکتیں، جن کے ایمان میں شک اور دل یقین و اعتماد سے خالی ہے۔ خیر کہنے کا مدعا بس اتنا سا ہے، کہ کفر و شکوک کو یقین کے قریب بھی نہ بھٹکنے دیا جائے۔ کہ وہ آپ کے لئے ایسے ہی ہے، جیسے دہقاں کے لئے وہ کھیتی جس سے رزق میسر ہی نہیں آتا، بلکہ حسرت و ندامت ہی اس کا مقدر ہوتی ہے۔ سو اپنے ایمان کی حفاظت کریں، اور کفر و شکوک فی الایمان سے بچیں۔ اس کا طریق اقبال نے یوں سُجھایا۔۔۔۔۔!
جـس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیـت کے ہـر خـوشـۂ گندم کو جـلا دو
اصل الاصول ایمان ہے کہ اس کے بغیر کچھ ہاتھ آنے کو نہیں ہے۔ تو بس اسی تجویز پر عمل کرتے ہوئے، کفر اور شکوک فی الایمان کے خرمن پر اپنے نفرت و ناگوارئ طبع کی ایسی ساطع بجلی گرائیں کہ سارا خرمن جل کر رمادِ خاک ہوجائے۔!